اس رات کی کوکھ سے جس صبح میں نے جنم لیا وہ مدینہ والوں کے لیے فتح و نصرت اور مسرت و شادمانی کی صبح تھی۔ ہر طرف اللہ اکبر اورخوشیوں کے نعرے تھے سب سے زیادہ خوشی عورتین اور بچے منارہے تھے جنہیں چھوٹے چھوٹے قلعوں میں بند کردیا گیا تھا ۔ وہ خوشی سے چیختے چلاتے باہر نکلے۔ مدینے کی گلیوں میں مسلمان بہت مسرور پھر رہے تھے۔
فتح کے اس جشن میں بنو قریظہ کے یہودی بھی شامل تھے ۔
رسول کریم نے انہیں امن و امان میں رہنے کے عوض کچھ مراعات دے رکھی تھیں ظاہر طور پر وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا دوست کہتے اور دوستوں کی طرح رہتے تھے۔ اہل قریش کی پسپائی پر وہ مسلمانوں کی طرح خوشیاں منارہے تھے لیکن ان کا سردار کعب بن اسد اپنے قلعہ نما مکان میں بیٹھا تھا ۔ اس کے پاس اپنے قبیلے کے تین سرکردہ یہودی بیٹھے تھے اور اس وقت کی غیر معمولی طور پر حسین یہودن یوحاوہ بھی وہاں موجود تھی۔
(جاری ہے)
وہ گزشتہ شام اہل قریش کی پسپائی کی خبر سن کر آئی تھی ۔
”کیا یہ اچھا نہیں ہوا کہ ہم نے مسلمانوں پر حملے نہیں کیے ؟…کعب بن اسد نے کہا …مجھے نعیم بن مسعود نے اچھا مشورہ دیا تھا ۔ اس نے کہا تھا کہ قریش سے معاہدے کی ضمانت کے طور پر چند آدمی یرغمال کے لیے مانگو۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ قریش اس سے دگنا لشکر لے آئیں تو بھی خندق عبور نہیں کرسکتے۔
میں نے نعیم کا مشورہ اس لیے قبول کرلیا تھا کہ اہل قریش میں سے ہے “
”خدائے یہودہ کی قسم، تمہاری بات سچ نہیں ہوسکتی…کعب بن اسد نے کہا …وہ اہل قریش کے ساتھ آیا تھا۔ “
”مگر ان کے ساتھ گیا نہیں…اسی یہودی نے کہا …میں نے کل شام اسے مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ دیکھا ہے ۔ اس وقت تک اہل قریش کا لشکر مدینہ سے بہت دور جاچکا تھا ۔
“
”پھر تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ محمد کے پیروکاروں میں سے ہے ؟…کعب نے کہا …میں ایسی بات کو کیوں سچ مانوں جو تم نے کسی سے پوچھی نہیں ؟“
”میں نے اپنے ایک مسلمان دوست سے پوچھا تھا …یہودی نے کہا …میں نے نعیم کو دیکھ کر کہا تھا ۔ کیا مسلمان اہل قریش کے جنگی قیدیوں کو اب کھلا رکھتے ہیں ؟…میرے دوست نے جواب دیا تھا کہ نعیم کبھی کا اسلام قبول کرچکا ہے ۔
اسے مدینہ میں آنے کا موقع اب ملا ہے ۔ “
”پھر اس نے ہمیں مسلمانوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کو ہم سے بچایا ہے …کعب بن اسد نے کہا …اس نے جو کچھ بھی کیا ہے ۔ ہمارے لیے اچھا ثابت ہوا ہے ۔ اگر ہم قریش کی بات مان لیتے تو…“
”تو مسلمان ہمارے دشمن ہوجاتے …ایک اور یہودی نے کہا …تم یہی کہنا چاہتے ہو نا کعب! مسلمان پھر بھی ہمارے دشمن ہیں۔
ہمیں محمد کے نئے مذہب کو یہیں پر ختم کرنا ہے ورنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ختم کرادے گا “
”کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ مذہب جسے یہ لوگ اسلام کہتے ہیں، کتنی تیزی سے مقبول ہوتا جارہا ہے؟…تیسرے یہودی نے جو معمر تھا ، کہا …ہمیں اس کے آگے بند باندھنا ہے اسے روکنا ہے “
”لیکن کیسے؟“…کعب بن اسد نے پوچھا۔
”قتل!“…معمر یہودی نے کہا …محمدکا قتل
”ایسی جرات کون کرے گا ؟“…کعب بن اسد نے کہا …”تم کہو گے کہ وہ ایک یہودی ہو گا۔
اگر وہ محمد کے قتل میں ناکام ہوگیا تو بنو قینقاع اور بنو نضیر کا انجام دیکھ لو ۔ مسلمانوں نے انہیں جس طرح قتل کیا ہے اور ان میں سے زندہ بچ رہنے والے جس طرح دور دراز کے ملکوں کو بھاگ گئے ہیں وہ نہ بھولو“
”خدائے یہودہ کی قسم !…معمر یہودی نے کہا …میری عقل تم سے زیادہ کام نہیں کرتی تو تم سے کم بھی نہیں۔ تم نے جو آج سوچا ہے وہ میں اور لیث بن موشان بہت پہلے سوچ چکے ہیں۔
کوئی یہودی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے نہیں جائے گا “
”پھر وہ کون ہوگا ؟“
”وہ قبیلہ قریش کا ایک آدمی ہے …بوڑھے یہودی نے جواب دیا …لیث بن موشان نے اسے تیار کرلیا ہے میرا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ کام کردیا جائے “
”اگر تم لوگ بھول نہیں گئے کہ میں بنو قریظہ کا سردار ہوں تو میں اس کام کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں جو مجھے معلوم ہی نہ ہو کہ کیسے کیا جائے گا …کعب بن اسد نے کہا …اور مجھے کون بتائے گا کہ اس آدمی کو اتنے خطرناک کام کے لیے کیسے تیار کیا گیا ہے ۔
کیا اسے ابو سفیان نے تیار کیا ہے ۔ خالد بن ولید نے تیار کیا ہے ؟“
”سنو کعب!…بوڑھے یہودی نے کہا اور یہودی حسینہ یوحاوہ کی طرف دیکھا “
###
”میں یہ بات لیث بن موشان کی موجودگی میں سناؤں تو کیا اچھا نہ ہوگا ؟…یوحاوہ نے کہا …اس بات میں اس بزرگ کا عمل دخل زیادہ ہے “
”ہم اس بوڑھے جادوگر کو کہاں سے بلائیں؟…کعب بن اسد نے کہا …ہم تم پر اعتبار کرتے ہیں “
”وہ یہیں ہے …بوڑھے یہودی نے کہا …ہم اسے ساتھ لائے ہیں اور ہم اسے بھی ساتھ لائے ہیں جو محمد کو قتل کرے گا۔
اب ہم انتظار نہیں کرسکتے ہم سب کو امید تھی کہ قریش غطفان اور ان کے دوست قبائل اسلام کا نام و نشان مٹادیں گے مگر ہر میدان میں انہوں نے شکست کھائی۔ ہم نے انہیں مدینہ پر حملے کے لیے اکسایا تھا۔ وہ یہاں سے بھی بھاگ نکلے…خدائے یہودہ کی قسم، کعب! تم نے مسلمانوں پر عقب سے حملے نہ کرکے بہت برا کیا ہے “
”میں اس کی وجہ بتاچکا ہوں …کعب بن اسد نے کہا “
”وجہ صحیح تھی یا غلط“…معمر یہودی نے کہا …”وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے اب ہم قریش کی فتح کا انتظار نہیں کرسکتے“…اس نے یوحاوہ سے کہا …”لیث بن موشان کو بلاؤ…دوسرے کو ابھی باہر رکھو “
یوحاوہ کمرے سے نکل گئی ۔
واپس آئی تو اس کے ساتھ لیث بن موشان تھا۔ وہ ایک بوڑھا یہودی تھا جس کی عمر ستر اور اسی برس کے درمیان تھی۔ اس کے سر اور داڑھی کے بال دودھ کی طرح سفید ہوچکے تھے۔ داڑھی بہت لمبی تھی ۔ اس کے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھا ۔ اس نے اونٹ کے رنگ کی قبا پہن رکھی تھی ۔ اس کے ہاتھ میں لمبا عصا تھا جو اپر سے سانپ کے پھن کی طرح تراشا ہوا تھا۔
لیث بن موشان کو یہودیوں میں جادوگر کے نام سے شہر ت حاصل تھی۔
شعبدہ بازی اور کالے علم میں وہ مہارت رکھتا تھا۔ وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس کے متعلق بہت سی روایات مشہور تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ مردے کو تھوڑی سی دیر کے لیے زندہ کرسکتا ہے اور وہ کسی بھی مرد یا عورت کو اپنے تابع کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ یہودی اسے اپنا پیرومرشد سمجھتے تھے ۔ وہ جہاندیدہ اور عالم فاضل تھا۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو سب اس کی تعظیم کو اٹھے۔ وہ جب بیٹھ گیا تو سب بیٹھے۔
”خاندان موشان کی عظمت سے کون واقف نہیں “…کعب بن اسد نے کہا …”خدائے یہودہ کی قسم، ہم میں سے کوئی بھی آپ کو یہاں بلانے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ یوحاوہ شاید آپ کو لے آئی ہے “
”میں پیغمبر نہیں کعب بن اسد !“…لیث بن موشان نے کہا …”میں یہ خوبصورت الفاظ سننے کا عادی نہیں اور تعظیم و احترام کا وقت بھی نہیں۔
کوئی نہ بلاتا تو بھی مجھے آنا تھا ۔ تم لوگ اپنے فرض کی ادائیگی میں بہت وقت ضائع کرچکے ہو۔ تم سے یہ لڑکی اچھی ہے جس نے وہ کام کردیا ہے جو تمہیں کرنا چاہیے تھا “
”معزز موشان!“…کعب بن اسد نے کہا …”ہم نے ابھی اس انتہائی اقدام کی سوچی نہیں تھی ۔ اگر ہم محمد کے قتل جیسا خوفناک ارادہ کرتے بھی تو یوحاوہ کو استعمال نہ کرتے ۔ ہم اتنی خوبصورت اور ایسی جوان لڑکی کو استعمال نہیں کرسکتے۔
“
”کیوں نہیں کرسکتے؟“…لیث بن موشان نے کہا …”کیا تم فراموش کر بیٹھے ہو کہ ساری دنیا پر خدائے یہودہ کی حاکمیت ہوگی ؟…داؤد کے ستارے کی قسم، بنی نوع انسان پر بنی اسرائیل کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے ہم سب کو قربانیاں دینی پڑیں گی ہمیں انسان کی فطری کمزوریوں کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ مرد کیا چاہتا ہے …اعلیٰ نسل کے بیس گھوڑے اور بیس غلام یوحاوہ کے ساتھ کھڑے کردو۔
کسی سے بھی کہو کہ اسے جو پسند ہے وہ لے جائے۔ داؤد کے ستارے کی قسم، وہ آدمی بیس گھوڑے اور بیس غلام چھوڑ دے گا اور یوحاوہ کو لے جائے گا “
اس محفل پر خاموشی طاری رہی ۔
”میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میری بات نہیں سمجھ سکے “…لیث بن موشان نے کہا ”تمہارے دماغوں میں اپنی بیٹیوں کی عصمت سمائی ہوئی ہے …میری بات غور سے سنو۔ عصمت کا شرم و حیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
یہ ایک ہتھیار ہے جو ہمیں اپنے دشمنوں کو بیکار کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوگا ۔ بدی کیا ہے ؟نیکی کیا ہے ؟…میں جانتا ہوں تم مجھے کیا جواب دو گے ۔ یہ جواب صحیح ہوگا لیکن جب تم دنیا کے کونے کونے تک یہودیت کو پہنچانے کی بات کرو گے تو بدی اور نیکی کے معنی بدل جائیں گے ۔ محمد برائی اور بدی کو ختم کر رہا ہے ۔ ہمیں برائی اور بدی پیدا کرنی ہے مگر ہم خود برے اور بدکار نہیں ہوں گے اگر تم روئے زمین پر پھیلی ہوئی نسل انسانی کو اپنی غلامی کے جہنم میں ڈالنا چاہتے ہو تو غیر یہودیوں کو جنت دکھاؤ ۔
انہیں جنت کی حوریں دکھاؤ۔ انہیں میٹھی شراب پلاؤ…یہ لوگ بدمست حیوان ہیں۔ ان میں اور زیادہ حیوانیت پیدا کرو۔ یہ مت سوچو کہ اچھا کیا اور برا کیا ہے ۔ یہ دیکھو کہ یہودیت کی حاکمیت کے لیے اچھا کیا ہے ، خواہ وہ برا ہی ہو…اس نے یوحاوہ کی طرف دیکھا اور بولا …انہیں بتاؤ یوحاوہ۔ انہیں سمجھاؤ“
یوحاوہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور اس نے ایک کہانی سنادی۔
###