ان کی دوستی دو آدمیوں یا دو عورتوں کی دوستی کی صورت اختیار کرگئی تھی ۔ وہ جب اکٹھے بیٹھتے تو رسول اکرم کے خلاف بھی باتیں کرتے تھے ۔ اسلام کے فروغ کو روکنے کے منصوبے بھی بناتے تھے لیکن جرید مسلمانوں کے خلاف کسی جنگی کارروائی میں شریک نہیں ہوتا تھا۔ یوحاوہ کو اس کی یہ بات پسند نہیں تھی۔ اسے وہ اکساتی اور بھڑکاتی تھی ۔
”میرا مذہب تم ہو “…جرید بن مسیب نے اسے ایک روز فیصلے کے لہجے میں کہہ دیا تھا …”تم میری بیوی نہیں بن سکتیں تو نہ سہی۔
میں تمہیں دیکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا “
”میں تمہیں ایک راز بتادیتی ہوں جرید !“…یوحاوہ نے اسے کہا تھا …”میں کسی بھی بیوی نہیں بنوں گی میرے باپ نے میری زندگی یہودیت کے لیے وقف کردی ہے ۔ لیث بن موشان نے مجھے یہ فرض سونپا ہے کہ اسلام کے زیادہ سے زیادہ دشمن پیدا کروں۔
(جاری ہے)
میرے دل میں اپنے مذہب کے بعد صرف تمہاری محبت ہے ۔ مجھے تم اپنی ملکیت سمجھو “
ایک روز جرید یوحاوہ کے ساتھ لیث بن موشان سے ملنے اس کے پاس چلا گیا۔
یوحاوہ اسے لیث بن موشان کے سامنے لے جانے کی بجائے پہلے خود اندر گئی اور اس نے لیث کو صاف الفاظ میں بتایا کہ جرید کو وہ محبت کا دیوتا سمجھتی ہے۔ اس نے لیث بن موشان کو بتایا کہ جرید نے اسے موت کے منہ سے نکالا تھا ۔ اس نے لیث کو بتایا کہ جرید کی بیٹیاں ہیں بیٹا ایک بھی نہیں۔
”کیا آپ کے علم میں اتنی طاقت ہے کہ جرید کی بیوی کے بطن سے لڑکا پیدا ہو ؟“…یوحاوہ نے پوچھا۔
”کیا نہیں ہوسکتا“…لیث بن موشان نے کہا …”پہلے میں اسے دیکھوں گا پھر بتاسکوں گا کہ مجھے کیا کرنا پڑے گا ۔ اسے میرے پاس بھیج دو “
یوحاوہ نے اسے اندر بھیج دیا اور خود باہر کھڑی رہی۔ بہت سا وقت گزر جانے کے بعد لیث بن موشان نے جرید کو باہر بھیج کر یوحاوہ کو اندر بلایا۔
”جو شخص تم جیسی خوبصورت اور دل کش لڑکی کے ساتھ اتنا عرصہ پاک محبت کرسکتا ہے وہ بہت ہی مضبوط شخصیت کا آدمی ہے “…لیث بن موشان نے کہا …”یا وہ اس قدر کمزور شخصیت کا ہوسکتا ہے کہ تمہارے حسن کا جادو اپنے اوپر طاری کرکے تمہارا غلام ہوجائے “
”جرید مضبوط شخصیت کا آدمی ہے“…یوحاوہ نے کہا ۔
”جرید کی ذات بہت کمزور ہے “…لیث بن موشان نے کہا …”میں نے تمہارے متعلق اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ میں نے اس کی ذات میں اتر کر معلوم کرلیا ہے ۔ یہ شخص تمہارے طلسم کا اسیر ہے ۔ “
”مقدس اتالیق !“ یوحاوہ نے پوچھا …”آپ اس کے متعلق ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں ؟…میں اسے ایک بیٹا دینا چاہتی ہوں۔ مجھے اس کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ میں یہ بھی سوچ رکھا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو جنم دوں گی ۔
“
”نہیں لڑکی!“…بوڑھے لیث نے کہا …”تمہاری کوکھ سے اس کا بیٹا جنم نہیں لے گا ۔ یہ شخص ذریعہ بنے گا اس فرض کا جو خدائے یہودہ نے مجھے اور تمہیں سونپا ہے “
یوحاوہ خاموشی سے لیث بن موشان کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی ۔
”جسے تم اپنی محبت کا دیوتا سمجھتی ہو وہ اس شخص کو قتل کرے گا جو کہتا ہے کہ اسے خدا نے نبوت دی ہے “…لیث بن موشان نے کہا …”جرید سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہوگا “
”کیا آپ پیشن گوئی کر رہے ہیں ؟“…یوحاوہ نے پوچھا …”یہ کس طرح قتل کرے گا ؟“
”اسے میں تیار کروں گا “
”یہ تیار نہیں ہوگا “…یوحاوہ نے کہا …”یہ کہا کرتا ہے کہ اس کاکوئی مذہب نہیں۔
محمدصلی اللہ علیہ وسلم کویہ اپنا دشمن نہیں سمجھتا۔ قتل و غارت کو پسند نہیں کرتا “
”یہ سب کچھ کرے گا “…بوڑھے لیث نے کہا …”اس کے ذہن پر میرا قبضہ ہوگا تم میرے ساتھ ہوگی تین روز تک یہ سوچ کی روشنی نہیں دیکھ سے گا جب ہم اسے باہر نکالیں گے تو یہ ایک ہی بات کہے گا …کہاں ہے خدا کا نبی! وہ ہم میں سے ہے ۔ میں اسے زندہ نہیں رہنے دوں گا “
”مقدس باپ!“…یوحاوہ نے رندھائی ہوئی آواز میں التجا کی …”جرید مارا جائے گا ۔
یہ واحد شخص ہے …“
”خدائے یہودہ سے بڑھ کر محبت کے لائق کوئی نہیں “…لیث بن موشان نے کہا …”تمہیں یہ قربانی دینی ہوگی ۔ جرید اب مکہ کو واپس نہیں جائے گا “
###
پھر یوحاوہ بھی مکہ کو واپس نہ گئی جریدبن مسیب بھی نہ گیا۔ بوڑھے لیث نے دونوں کو تین دن اور تین راتیں ایک کمرے میں بند رکھا جرید کو اپنے سامنے بٹھا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں پھر اسے کچھ پلایا اور کچھ زیر لب بڑبڑانے لگا ۔
اس نے یوحاوہ کو نیم برہنہ کرکے اس کے ساتھ بٹھادیا ۔ لیث یوحاوہ کو جو کہتا رہا وہ کرتی رہی ۔
”یہ ضروری نہیں کہ میں تم سب کو یہ بھی بتاؤں کہ میں نے جرید کے ذہن اور اس کی سوچوں کو کس طرح اپنے قبضے میں لے لیا “…لیث نے کہا …”میں اسے ساتھ لایا ہوں ۔ تم اسے خود دیکھ لو “
لیث بن موشان نے یوحاوہ کو اشارہ کیا۔ یوحاوہ باہر چلی گئی اور جرید بن مسیب کو اپنے ساتھ لے آئی۔
جرید نے اندر آکر سب کو باری باری دیکھا۔
”وہ یہاں نہیں ہے “…جرید نے کہا …”میں اسے پہچانتا ہوں ۔ وہ ہم میں سے ہے ۔ وہ یہاں نہیں ہے “
”ذرا صبر کرو جرید!“…بوڑھے لیث نے کہا …”ہم تمہیں اس تک پہنچائیں گے ۔ کل …کل جرید! بیٹھ جاؤ“
جرید یوحاوہ کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور بازو اس کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے اور قریب کرلیا ۔
اگلی صبح جب مدینہ میں لوگ فتح کی خوشیاں منارہے تھے اور کعب بن اسد کے گھر رسول اکرم اور اسلام کے خلاف بڑی ہی خطرناک سازش تیار ہوچکی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دلایا گیا کہ بنو قریظہ نے جس کا سردار کعب بن اسد تھا مدینہ کے محاصرے کے دوران اہل قریش اور غطفان کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا تھا جسے نعیم بن مسعود نے بڑی دانشمندی سے بیکار کردیا تھا ۔
یہ واقعہ بھی دو چار روز پہلے کا تھا جس میں رسول اللہ کی پھوپھی حضرت صفیہ نے ایک یہودی مخبر کو قتل کیا تھا ۔ یہ مخبر اس چھوٹے سے قلعے میں داخل ہونے کا راستہ دیکھ رہا تھا جس میں مسلمانوں کی عورتیں اور ان کے بچوں کو رکھا گیا تھا۔ اس یہودی نے ایک عورت کو اپنے مقابلے میں دیکھ کر بڑے رعب اور گھمنڈ سے کہا تھا کہ وہ یہودی ہے اور مخبری کے لیے آیا ہے ۔
حضرت صفیہ نے اس کی تلوار کامقابلہ ڈنڈے سے کیا اور اسے ہلاک کردیا تھا ۔
”خدا کی قسم !“…کسی صحابی نے للکار کر کہا …”ان یہودیوں پر اعتبار کرنا اور ان کی بدعہدی پر انہیں بخش دینا ایسا ہی جیسے اپنا خنجر اپنے ہی دل میں اتار لیا جائے “
عبداللہ بن محمد اسمائی اور نافع حضرت ابن عمر کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ معرکہ خندق کے خاتمے پر رسول اکرم نے فرمایا …”تم میں سے ہر کوئی نماز عصر بنو قریظہ کے پاس پہنچ کر پڑھے “
ایک اور حدیث ہے جس کے راوی حضرت انس ہیں۔
انہوں نے کہا تھا …”میں اب تک لشکر جبریل کا گردوغبار بنو غنم میں اڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول کریم بنو قریظہ کو بدعہدی اور دھوکہ دہی کی سزا دینے گئے تھے “
تمام مورخین نے لکھا ہے کہ رسول کریم کے حکم سے مسلمانوں نے چڑھائی کردی اور بنو قریظہ کی قلعہ بند بستی کو محاصرے میں لے لیا۔ احادیث کے مطابق سعد بن معاذ کو بنو ریظہ کے سرداروں کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا کہ وہ اپنی بدعہدی کی سزا خود تجویز کریں۔
سعد بن معاذ زخمی تھے۔ خندق کی لڑائی میں انہیں قبیلہ قریش کے ایک آدمی حبان بن عرفہ کی برچھی لگی تھی ۔
###
لیث بن موشان ، یوحاوہ اور یہودیوں کے تین چار سرکردہ آدمی ابھی تک کعب بن اسد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جرید بن مسیب بھی وہیں تھا۔ انہوں نے اپنی سازش کا وقت رات کا مقرر کیا لیکن ایک یہودی دوڑتا ہوا آیا ۔
”مسلمان آرہے ہیں “…اس نے گھبراہٹ سے کانپتی ہوئی آوا ز میں کہا …”صاف نظر آتا ہے کہ وہ دوست بن کر نہیں آرہے۔
گرد بتارہی ہے کہ وہ چڑھائی کرکے آرہے ہیں۔ گرد دائیں بائیں پھیل رہی ہے …دیکھو۔ اٹھو اور دیکھو“
کعب بن اسد دوڑتا باہر نکلا اور قلعے کے برج میں چلا گیا۔ وہاں سے دوڑتا اتر ا اور لیث بن موشان کے پاس پہنچا۔
”مقدس موشان!“…کعب بن اسد نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا …”کیا آپ کا جادو ان برچھیوں اور تلواروں کو توڑ سکتا ہے جو ہمیں قتل کرنے آرہی ہیں ؟“
”روک سکتا ہے “…بوڑھے لیث بن موشان نے کہا …”اگر محمد کا جادو زیادہ تیز ہوا تو میں مجبور ہوں گا …تم اوپر جاکر کیا دیکھ آئے ہو ؟“
”خدائے یہودہ کی قسم!“…کعب بن اسد نے کہا …”یہ مخبری نعیم بن مسعود نے کی ہے ۔
مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ مسلمان ہوچکا ہے …مسلمان محاصرے کی ترتیب میں آرہے ہیں ہم نکل نہیں سکیں گے ۔ “
”ان دونوں کو نکال دو “…لیث بن موشان نے کہا …”یوحاوہ! جرید کو ساتھ لے کر پچھلے دروازے سے نکل جاؤ میں تمہارے پیچھے پیچھے آرہا ہوں “
”آپ اوپر کیوں نہیں جاتے لیث بن موشان؟“…کعب بن اسد نے کہا …”آپ کا وہ علم اور وہ جادو کہاں گیا جو آپ …“
”تم اس راز کو نہیں سمجھ سکتے “…بوڑھے لیث نے کہا …”موسیٰ نے فرعون کو ایک دن میں ختم نہیں کردیا تھا۔
یہ عصا جو تم میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہو، وہی ہے جو موسیٰ نے دریا میں مارا تھا تو پانی نے انہیں راستہ دے دیا تھا۔ یہ عصا کا کرشمہ تھا کہ فرعون کا لشکر اور وہ خود دریا میں ڈوب کر فنا ہوگیا تھا جس طرح موسیٰ اپنے قبیلے کو مصر سے نکال لائے تھے اسی طرح میں تمہیں یہاں سے نکال دوں گا “
یوحاوہ اور جرید بن مسیب پچھلے دروازے سے نکل گئے اور لیث بن موشان بھی چل پڑا۔
###