ابوجریج نے خالد کو باقی کہانی یوں سنائی۔ اسے بدروحوں کے علم کے ساتھ گہری دلچسپی تھی اور وہ لیث بن موشان کو بھی جانتا تھا ۔ جب اسے پتہ چلا کہ یہ یہودی جادوگر وہاں پہنچ گیا ہے تو وہ بھی گھوڑے پر سوار ہوا اور وہاں جاپہنچا۔ دو تین بستیوں میں پوچھتا وہ اس بستی میں جا پہنچا جہاں لیث بن موشان آکر ٹھہرا تھا ۔
”ابو جریج!“…بوڑھے لیث بن موشان نے اٹھ کر بازو پھیلاتے ہوئے کہا…”تم یہاں کیسے آگئے؟“
”میں یہ سن کر آیا ہوں کہ تم اس بدروح پر قابو پانے کے لیے آئے ہو “…ابوجریج نے اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا …”کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ اس بدروح نے یا وہ جو کچھ بھی ہے دو تین آدمیوں کو چیرپھاڑ ڈالا ہے ؟“
”وہ بدروح نہیں میرے بھائی !“…لیث بن موشان نے ایسی آواز میں کہا جو ملال او رپریشانی سے دبی ہوئی تھی …”وہ خدائے یہودہ کی سچی نام لیوا ایک جوان عورت ہے ۔
(جاری ہے)
اس نے اپنی جوانی اپنا حسن اور اپنی زندگی یہودیت کے نام پر وقف کر رکھی تھی ۔ اس کا نام یوحاوہ ہے “
”میں نے اسے مکہ میں دوچار مرتبہ دیکھا تھا “…ابوجریج نے کہا…”اس کے کچھ جھوٹے سچے قصے بھی سنے تھے۔ یہ بھی سنا تھا کہ اس نے قریش کے ایک آدمی جرید بن مسیب کو تمہارے پاس لاکر محمد کے قتل کے لیے تیار کیا تھا ۔ پھر میں نے یہ بھی سنا تھا کہ تم اور یوحاوہ مسلمانوں کے محاصرے سے نکل گئے تھے اور جرید پیچھے رہ گیا تھا …اگر یوحاوہ زندہ ہے اور وہ بدروح نہیں تو وہ اس حالت تک کس طرح پہنچی ہے ؟“
”اس نے اپنا سب کچھ خدائے یہودہ کے نام پر قربان کر رکھا تھا “…لیث بن موشان نے کہا …”لیکن وہ آخر انسان تھی جوان تھی وہ جذبات کی قربانی نہ دے سکی۔
اس نے جرید کی محبت کو اپنی روح میں اتار لیا تھا۔ جرید پر جتنا اثر میرے خاص عمل کا تھا اتنا ہی یوحاوہ کی والہانہ محبت کا تھا “
”میں سمجھ گیا “…ابوجریج نے کہا …”اسے جرید بن مسیب کی موت نے پاگل کردیا ہے …کیا تمہارا عمل اور تمہارا جادو اس عورت پر نہیں چل سکتا تھا ؟“
لیث بن موشان نے لمبی آہ بھری اور بے نور آنکھوں سے ابوجریج کوٹکٹکی باندھ کر دیکھا اور کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہا …”میرا عمل اس پر کیا اثر کرتا ! وہ مجھے بھی چیرنے پھاڑنے کو مجھ پر ٹوٹ پڑی تھی ۔
میرا عمل اس صورت میں کام کرتا کہ میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا اور میرا ہاتھ تھوڑی سی دیر کے لیے اس کے ماتھے پر رہتا “
”جہاں تک میں اس علم کو سمجھتا ہوں “…ابوجریج نے کہا …”وہ پہلے ہی پاگل ہوچکی تھی اور تمہیں اپنا دشمن سمجھنے لگی تھی “
”اور اسے میرے خلاف دشمنی یہ تھی کہ میں جرید بن مسیب کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آیا تھا ۔
“…لیث بن موشان نے کہا …”میں اسے اپنے ساتھ لاسکتا تھا لیکن وہ اس حد تک میرے طلسماتی عمل کے زیر اثر آچکا تھا کہ ہم اسے زبردستی لاتے تو شاید مجھے یا یوحاوہ کو قتل کردیتا۔ میں نے اس کے ذہن میں درندگی کا ایسا تاثر پیدا کردیا تھا کہ وہ قتل و غارت کے سوا کچھ سوچ ہی نہیں سکتا تھا ۔ اگر میں ایک درخت کی طرف اشارہ کرکے کہتا کہ یہ ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم تو وہ تلوار اس درخت کے تنے میں اتار دیتا مجھے یہ توقع بھی تھی کہ یہ پیچھے رہ گیا تو ہوسکتا ہے محمد تک پہنچ جائے اور اسے قتل کردے ۔
لیکن وہ خود قتل ہوگیا “
”کیا تم اب یوحاوہ پر قابو پاسکو گے ؟“…ابوجریج نے کہا
”مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے اثر میں لے آؤں گا “…لیث بن موشان نے جواب دیا ۔
”کیا تم مجھے اس کام میں شریک کرسکو گے ؟“…ابوجریج نے پوچھا اور کہا …”میں کچھ جاننا چاہتا ہوں ، کچھ سیکھنا چاہتا ہوں “
”اگر بڑھاپا تمہیں چلنے دے تو چلے چلو “…لیث بن موشان نے کہا …”میں تھوڑی دیر تک روانہ ہونے والا ہوں۔
یہاں کے کچھ آدمی میرے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے ہیں “
###
”اور پھر خالد بن ولید!“…بوڑھے ابوجریج نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جذباتی آواز میں کہا …”ہم دونوں بوڑھے اونٹوں پر سوار اس پہاڑی علاقے میں پہنچے جہاں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ ایک عورت کو دیکھا گیا ہے ۔ ہم تنگ سی ایک وادی میں داخل ہوگئے ۔ ہمارے پیچھے دس بارہ گھوڑ سوار اور تین چار شتر سوار تھے ۔
وادی میں داخل ہوئے تو ان سب نے کمانوں میں تیر ڈال لیے۔ وادی آگے جاکر کھل گئی۔ ہم دائیں کو گھومے تو ہمیں کئی گدھ نظر آئے جو کسی مردار کو کھارہے تھے ایک صحرائی لومڑی گدھوں میں سے دوڑتی ہوئی نکلی۔ میں نے دیکھا اس کہ منہ میں ایک انسانی بازو تھا ۔ ہم آگے گئے ۔ دو اور لومڑیاں بھاگیں اور گدھ اڑ گئے ۔ وہاں انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں۔ سر الگ پڑا تھا اس کے لمبے بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے ۔
کچھ کھوپڑی کے ساتھ تھے۔ آدھے چہرے پر ابھی کھال موجود تھی …وہ یوحاوہ تھی ۔ لیث بن موشان کچھ دیر اس کی بکھری ہوئی ہڈیوں کو اور ادھ کھائے چہرے کو دیکھتا رہا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہ کر اس کی دودھ جیسی سفید داڑھی میں جذب ہوگئے ہم وہاں سے آگئے “
”لیث بن موشان اور یوحاوہ نے جرید بن مسیب کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے لیے تیار کیا تھا “…خالد نے ایسے لہجے میں کہا جس میں طنز کی ہلکی سی جھلک بھی تھی …”جرید بن مسیب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور یوحاوہ کا انجام تم نے اپنی آنکھوں دیکھا ہے …کیا تم سمجھے نہیں ہو ابوجریج؟“
”ہاں ، ہاں “…بوڑھے ابو جریج نے جواب دیا …”لیث بن موشان کے جادو سے محمد کا جادو زیادہ تیز اور طاقتور ہے ۔
لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ محمد کے ہاتھ میں جادو ہے ۔ اس جاود کا ہی کرشمہ ہے کہ اس کے مذہب کو لوگ مانتے ہی چلے جارہے ہیں …جرید کو قتل ہونا ہی تھا ۔ “
”میرے بزرگ دوست!“…خالد نے کہا …اس بدروح کے قصے مدینے میں بھی پہنچے ہوں گے لیکن وہاں کوئی نہیں ڈرا ہوگا ۔ محمد کے پیروکاروں نے تسلیم ہی نہیں کیا ہوگیا کہ یہ جن بھوت یا بدروح ہے ۔
”محمد کے پیروکاروں کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے “…ابوجریج نے کہا …”محمد کے جادو نے مدینہ کے گرد حصار کھینچا ہوا ہے ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ احد کی لڑائی میں زخمی ہوا اور زندہ رہا ۔ تمہارا اور ہمارا اتنا زیادہ لشکر مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے گیا تو ایسی آندھی آئی کہ ہمارا لشکر تتر بتر ہوکر بھاگا۔ میدان جنگ میں محمد کے سامنے جو بھی گیا اس کا دماغ جواب دے گیا …کیا تم جانتے ہو محمد کے قتل کی ایک اور کوشش ناکام ہوچکی ہے ؟“
”سنا تھا “…خالد نے کہا …”پوری بات کا علم نہیں “
”یہ خیبر کا واقعہ ہے “…ابوجریج نے کہا …”مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں پر چڑھائی کی تو یہودی ایک دن بھی مقابلے میں جم نہ سکے ۔
“
”فریب کار قوم میدان میں نہیں لڑسکتی “…خالد نے کہا ”یہودی پیٹھ پر وار کیا کرتے ہیں “
”اور وہ انہوں نے خیبر میں کیا “…ابوجریج نے کہا …”یہودیوں نے مقابلہ تو کیا تھا لیکن ان پر محمد کا خوف پہلے ہی طاری ہوگیا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ جب مسلمان خیبر کے مقام پر پہنچے تو یہودی مقابلے کے لیے نکل آئے۔ ان میں سے بعض محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے تھے کسی نے بلند آواز سے کہا …محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آیا ہے … پھر کسی اور نے چلا کر کہا …محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آیا ہے …یہودی لڑے تو سہی لیکن ان پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف ایسا سوار ہوا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے“
ابو جریج نے خالد کو خیبر کے معرکے کی روئیداد سنا کر ایک یہودن کا قصہ سنایا۔
فتح خیبر کے بعد رسول اللہ نے وہاں چند دن قیام کیا اور نبی عدی کے بھائی انصاری کو خیبر کا امیر مقرر کیا ، اسی موقع پر جب فتح خیبر کے بعد مال غنیمت تقسیم ہورہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا …”اگر مجھے اپنی آنے والی امت کی مفلسی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ہر وہ ملک جو فتح ہوتا، فاتح مجاہدین میں تقسیم کردیتا لیکن میں ہر مفتوحہ ملک کو آنے والی امت کے لیے ورثے میں چھوڑ جاؤں گا “
یہودیوں نے شکست کھائی تو انہوں نے رسول کریم سے وفاداری کا اظہار شروع کردیا اور ایسے مظاہرے کیے جن سے پتہ چلتا تھا کہ مسلمانوں کی محبت سے یہودیوں کے دل لبریز ہیں۔
انہی دنوں جب رسول کریم خیبر میں ہی تھے۔ ایک یہودن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔ اس نے عقیدت مندی کا اظہار ایسے جذباتی طریقے سے کیا کہ رسول اللہ نے اسے مایوس کرنا مناسب نہ سمجھا۔ آپ اس کے گھر چلے گئے ۔ آپ کے ساتھ بشر بن البارا تھے۔
یہودن زینب بنت الحارث نے جو سلام بن شکم کی بیوی تھی ۔ رسول خدا کے راستے میں آنکھیں بچھائیں اور آپ کو کھانا پیش کیا۔
اس نے سالم دنبہ بھونا تھا۔ اس نے رسول اللہ سے پوچھا کہ آپ کو دنبے کا کون سا حصہ پسند ہے ۔ آپ نے دستی پسند فرمائی، یہودن دنبے کی دستی کاٹ لائی اور رسول خدا اور بشر بن البارا کے آگے رکھ دی ۔
بشر بن البارا نے ایک بوٹی کاٹ کر منہ میں ڈال لی ۔ رسول اکرمﷺ نے بوٹی میں ڈالی مگر اگل دی ۔
”مت کھانا بشررضی اللہ عنہ“ … آپ نے فرمایا …”اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے “
بشر بن البارا بوٹی چبارہے تھے ۔
انہوں نے اگل تو دی لیکن زہر لعاب دہن کے ساتھ حلق سے اتر چکا تھا ۔
”اے یہودن!“…رسول خدا نے فرمایا …”کیا میں غلط کہہ رہا ہوں کہ تو نے اس گوشت میں زہر ملایا ہے؟“
یہودن انکار نہیں کرسکتی تھی ۔ اس کے جرم کا ثبوت سامنے آگیا تھا ۔ بشر بن البارا حلق پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔ زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر رضی اللہ عنہ کو پھر اٹھنے نہ دیا۔
وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہوگئے ۔
”اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم“ … یہودن نے بڑی دلیری سے اعتراف کیا …”خدائے یہودہ کی قسم، یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا ۔ “
رسول اللہ نے اس یہودن اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم فرمایا اور خیبر کے یہودیوں کیساتھ آپ نے جو مشفقانہ رویہ اختیار کیا تھا وہ ان کی ذہنیت کے مطابق بدل ڈالا۔
ابن اسحاق لکھتے ہیں …”مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسول خدا آخری مرض میں مبتلا تھے ، آپ نے وفات سے دو تین پہلے ام بشر بن البارا کو جب وہ آپ کے پاس بیٹھی تھیں۔ فرمایا تھا …ام بشر! میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کر رہا ہوں جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا۔ میں نے گوشت چبایا نہیں اگل دیا تھا مگر زہر کا اثر آج تک موجود ہے ۔ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ رسول اللہ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا ۔ “
###