سارے شہر میں بھگدڑ مچ گئی۔ لڑنے والے لوگ برچھیاں، تلواریں اور تیر کمان اٹھائے مکہ کے دفاع کو نکل آئے ۔ ۔ عورتوں اور بچوں کو ایسے بڑے مکانوں میں منتقل کیا جانے لگا جو قلعوں جیسے تھے ۔ جوان عورتیں بھی لڑنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ یہ ان کے شہر کا اور جان و مال کا ہی نہیں۔ ان کے مذہب کا بھی مسئلہ تھا ۔ یہ دو نظریوں کی ٹکر تھی لیکن خالد اسے اپنے ذاتی وقار کا اور اپنے خاندانی وقار کا مسئلہ سمجھتا تھا ۔
اس کا خاندان جنگ و جدل کے لیے مشہور تھا ۔ اس کے باپ کو لوگ عسکری قائد کہا کرتے تھے ۔ خالد اپنے خاندان کے نام اور خاندانی روایات کو زندہ رکھنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا ۔
اس نے ابو سفیان کو نظر انداز کردیا۔ عکرمہ اور صفوان کو ساتھ لیا اور ایسی چالیں سوچ لیں جن سے وہ مسلمانوں کو شہر سے دور رکھ سکتا تھا ۔
(جاری ہے)
اس نے سواروں کی کچھ تعداد اس کام کے لیے منتخب کرلی کہ یہ سوار شہر سے دور چلے جائیں اور مسلمان اگر محاصرہ کرلیں تو یہ گھوڑ سوار عقب سے محاصرے پر حملہ کردیں مگر وہاں جم کر لڑیں نہیں۔
بلکہ محاصرے میں کہیں شگاف ڈال کر بھاگ جائیں۔
شہر میں افراتفری اور لڑنے والوں کی بھاگ دوڑ اور للکار میں چند ایک عورتوں کی مترنم آواز سنائی دینے لگیں۔ ان کی آوازیں ایک آواز بن گئی تھی ۔ وہ رزمیہ گیت گارہی تھین جس میں رسول اللہ کے قتل کا ذکر تھا۔ بڑا جوشیلا اور بھڑکادینے والا گیت تھا۔ یہ عورتیں گلیوں میں یہ گیت گاتی پھر رہی تھیں۔
چند ایک مسلح شتر سواروں کو مدینہ کی طرف سے آنے والے راستے پر اور دو تین اور سمتوں کو دوڑادیا گیا کہ وہ مسلمانوں کی پیش قدمی کی خبریں پیچھے پہنچاتے رہیں۔ عورتیں اونچے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر مدینہ کی طرف دیکھ رہی تھی سورج افق میں اترتا جارہا تھا ۔ صحرا کی شفق بڑی دلفریب ہوا کرتی ہے مگر اس شام مکہ والوں کو دشفق میں لہو کے رنگ دکھائی دے رہے تھے ۔
کہیں سے کسی بھی طرف گرد اٹھتی نظر نہیں آرہی تھی ۔
”انہیں اب تک آجانا چاہیے تھا “…خالد نے عکرمہ اور صفوان سے کہا …”ہم اتنی جلدی خندق نہیں کھود سکتے۔“
”ہم خندق کا سہارا لے کر نہیں لڑیں گے “…عکرمہ نے کہا
”ہم ان کے محاصرے پر حملے کریں گے “…صفوان نے کہا …”ان کے پاؤں جمنے نہیں دیں گے “
سورج غروب ہوگیا ۔
رات گہری ہونے لگی۔ کچھ بھی نہ ہوا ۔
مکہ میں زندگی بیدار اور سرگرم رہی جیسے وہاں رات آئی ہی نہ ہو۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قلعوں جیسے مکانوں میں منتقل کردیا گیا تھا اور جو لڑنے کے قابل تھے وہ اپنے سالاروں کی ہدایات پر شہر کے ارد گرد اپنے مورچے مضبوط کر رہے تھے ۔
رات آدھی گزر گئی ۔ مدینہ والوں کی آمد کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔
پھر رات گزر گئی ۔
###
”خالد!“…ابوسفیان نے پوچھا …”کہاں ہیں وہ ؟“
”اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ نہیں آئیں گے تو یہ بہت خطرناک فریب ہے جو تم اپنے آپ کو دے رہے ہو “…خالد نے کہا …”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل تک تم نہیں پہنچ سکتے۔ وہ جو سوچ سکتا ہے وہ تم نہیں سوچ سکتے…وہ آئیں گے“ اس وقت تک مسلمان چند ایک معرکے دوسرے قبیلوں کے خلاف لڑ کر اپنی دھاک بٹھاچکے تھے۔
ان میں غزہ خیبر ایک بڑا معرکہ تھا۔ انہیں جنگ کا تجربہ ہوچکا تھا ۔
”ابوسفیان“…خالد نے کہا …”میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ مسلمان اب وہ نہیں رہے جو تم نے احد میں دیکھے تھے۔ اب وہ لڑنے کے ماہر بن چکے ہیں۔ ان کا ابھی تک سامنے نہ آنا بھی ایک چال ہے ۔ “
ابوسفیان کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ایک شتر سوار نظر آیا جس کا اونٹ بہت تیز رفتار سے دوڑتا آیا تھا ۔
ابوسفیان اور خالد کے قریب آکر اس نے اونٹ روکا اور کود کر نیچے آیا ۔
”میں آنکھوں نے جو دیکھا ہے وہ تم نہیں مانو گے “…شتر سوار نے کہا …”میں نے مسلمانوں کو حدیبیہ میں خیمہ زن دیکھا ہے “
”وہ محمد اور اس کا لشکر نہیں ہوسکتا“…ابوسفیان نے کہا
”خدا کی قسم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتا ہوں جس طرح تم دونوں مجھے پہچانتے ہو ۔
“…شتر سوار نے کہا …”اور میں نے ایسے اور آدمیوں کو بھی پہچانا ہے جو ہم میں سے تھے لیکن ان کے ساتھ جاملے تھے “
حدیبیہ مکہ سے تیرہ میل دور مغرب میں ایک مقام تھا ۔ رسول کریم خونریزی سے بچنا چاہتے تھے اس لیے آپ مکہ سے دور حدیبیہ میں جا خیمہ زن ہوئے تھے ۔
”ہم ان پر شب خون ماریں گے “…خالد نے کہا …”انہیں سستانے نہیں دیں گے ۔
وہ جس راستے سے حدیبیہ پہنچے ہیں اس راستے نے انہیں تھکادیا ہوگا ان کی ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوں گی ۔ وہ تازہ دم ہوکر مکہ پر حملہ کریں گے ہم انہیں آرام نہیں کرنے دیں گے “
”ہم انہیں وہاں سے بھگاسکتے ہیں “…ابوسفیان نے کہا …”چھاپہ مار جیش تیار کرو “
###
رسول اکرم نے اپنی خیمہ گاہ کی حفاظت کا انتظام کر رکھا تھا ۔ گھوڑ سوار جیش رات کو خیمہ گاہ کے ارد گرد گشتی پہرہ دیتے تھے ۔
دن کو بھی پہرے کا انتظام تھا۔
ایک اور گھوڑ سوار جیش نے اپنے جیسا ایک گھوڑا سوار جیش دیکھا جو خیمہ گاہ سے دور آہستہ آہستہ چلا جارہا تھا۔ مسلمان سوار ان سواروں کی طرف چلے گئے ۔ وہ قریش کے سوار تھے جو وہاں نہ رکے اور دور چلے گئے کچھ دیر بعد وہ ایک اور طرف سے آتے نظر آئے اور مسلمانوں کی خیمہ گاہ سے تھوڑی دور رک کر چلے گئے ۔
دوسرے روز وہ سوار خیمہ گاہ کے قریب آگئے ۔
اب کے مسلمان سواروں کا ایک جیش جو خیمہ گاہ سے دور نکل گیا تھا ۔ واپس آگیا۔ اس جیش نے ان سواروں کو گھیر لیا۔ انہوں نے گھیرے سے نکلنے کے لیے ہتھیارنکال لیے ۔ ان میں جھڑپ ہوگئی لیکن مسلمان سواروں کے کماندار نے اپنے سواروں کو روک دیا ۔
”انہیں نکل جانے دو جیش کے کماندار نے کہا …ہم لڑنے آئے ہوتے تو ان میں سے ایک کو بھی زندہ نہ جانے دیتے“
وہ مکہ کے لڑاکا سوار تھے ۔
انہوں نے واپس جاکر ابوسفیان کو بتایا ۔
”چند اور سواروں کو بھیجو “…ابوسفیان نے کہا …”ایک شب خون مارو“
”میرے قبیلے کے سردار!“…ایک سوار نے کہا …”ہم نے شب خون مارنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن ان کی خیمہ گاہ کے ارد گرد دن رات گھوڑ سوار گھومتے پھرتے رہتے ہیں “
قریش کے چند اور سواروں کو بھیجا گیا انہوں نے شام کے ذرا بعد شب خون مارنے کی کوشش کی لیکن مسلمان سواروں نے ان کے کچھ سواروں کو زخمی کرکے وہاں سے بھگادیا۔
مکہ والوں پر تذبذب کی کیفیت طاری رہی ۔ وہ راتوں کو سوتے بھی نہیں تے۔ محاصرے کے ڈر سے ہر وقت بیدار اور چوکس رہتے تھے اور دن گزرتے جارہے تھے ۔ آخر ایک روز مکہ میں ایک مسلمان سوار داخل ہوا۔ اس نے ابو سفیان کے متعلق پوچھا ۔ لوگوں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے چل پڑا۔ ابوسفیان نے دور سے دیکھا اور دوڑا آگیا۔ خالد بھی آگیا۔
”میں محمد الرسول اللہ کا پیغام لے کر آیا ہوں “…مسلمان سوار نے کہا …”ہم لڑنے نہیں آئے ہم عمرہ کرنے آئے ہیں عمرہ کرکے چلے جائیں گے “
”اگر ہم اجازت نہ دیں تو ؟“…ابوسفیان نے پوچھا ۔
”ہم مکہ والوں کا نہیں خدا کا حکم ماننے والے ہیں “…مسلمان سوار نے کہا …”ہم اپنے اور اپنی عبادت گاہ کے درمیان کسی کو حائل نہیں ہونے دیا کرتے۔ اگر مکہ کے مکان ہمارے لیے رکاوٹ بنیں گے تو خدا کی قسم، مکہ ملبے اور کھنڈروں کی بستی بن جائے گی ۔ اگر یہاں کے لوگ ہمیں روکیں گے تو مکہ کی گلیوں میں خون بہے گا …ابو سفیان ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں اور یہاں کے لوگوں سے امن کا تحفہ لے کر جائیں گے “
خالد کو وہ لمحے یاد تھے جب یہ مسلمان سوار پروقار لہجے میں دھمکی دے رہا تھا ۔
خالد کا خون کھول اٹھنا چاہیے تھا لیکن اسے یہ آدمی بڑا اچھا لگا تھا ۔ اسے ابوسفیان کا جوا ب بھی جو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا ، اچھا لگا تھا ۔ ابوسفیان نے کہا تھا کہ دونوں طرف کے ذمہ دار آدمی صلح سمجھوتے کی شرائط طے کریں۔
###