Episode 46 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 46 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

پھر ایک صلح نامہ تحریر ہوا تھا جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا ۔ مسلمانوں کی طرف سے اس پر رسول اکرم نے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو نے دستخط کیے تھے ۔ اس صلح نامے میں طے پایا تھا کہ مسلمان اور اہل قریش دس سال تک نہیں لڑیں گے اور مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے آئیں گے اور مکہ میں تین دن ٹھہر سکیں گے ۔ 
رسول کریم قریش میں سے تھے ۔ خالد آپ صلی اللہ علیہ سولم کو بہت اچھی طرح جانتا تھا لیکن اب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ یہ کوئی اور محمد ہے ۔
وہ ایسا متاثر ہوا کہ اس کے ذہن سے اتر گیا کہ یہ وہی محمد ہے جسے وہ اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے منصوبے بناتا رہتا تھا ۔ 
خالد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سالار کی حیثیت سے زیادہ دیکھ رہا تھا۔

(جاری ہے)

وہ آپ کی عسکری اہلیت کا قائل ہوگیا تھا۔ صلح حدیبیہ تک مسلمان رسول اکرم کی قیادت میں چھوٹے بڑے اٹھائیس معرکے لڑ چکے اور فتح و نصرت کی دھاک بٹھاچکے تھے۔

 
مسلمان عمرہ کرکے چلے گئے ۔ دو مہینے گزر گئے ۔ ان دو مہینوں میں خالد پر خاموشی طاری رہی لیکن اس خاموشی میں ایک طوفان اور ایک انقلاب پرورش پارہا تھا ۔ خالد نے مذہب میں کبھی دلچسپی نہیں لی تھی اسے نہ کبھی اپنے بتوں کا خیال آیا تھا نہ کبھی اس نے رسول کریم کی رسالت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی ، مگر اب ازخود اس کا دھیان مذہب کی طرف چلا گیا اور وہ اس سوچ میں کھوگیا کہ مذہب کون سا سچا ہے اور انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے ۔
 
”عکرمہ!“…ایک روز خالد نے اپنے ساتھی سالار عکرمہ سے جو اس کا بھتیجا بھی تھا کہا …”میں نے فیصلہ کرلیا ہے ، میں سمجھ گیا ہوں “
”کیا سمجھ گئے ہو خالد!“…عکرمہ نے پوچھا ۔ 
”محمد جادوگر نہیں۔“…خالد نے کہا …”اور محمد شاعر بھی نہیں۔ میں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیا ہے اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کرلیا ہے ۔
”ہبل اور عزیٰ کی قسم، تم مذاق کر رہے ہو “…عکرمہ نے کہا …”کوئی نہیں مانے گا کہ ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ رہا ہے۔ “
’ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ چکا ہے ’“…خالد نے کہا ۔
”کیا تم بھول گئے ہو کہ محمد ہمارے کتنے آدمیوں کو قتل کراچکا ہے ؟“…عکرمہ نے کہا …”تم ان کے مذہب کو قبول کر رہے ہو جن کے خون کے ہم پیاسے ہیں“
”میں نے فیصلہ کرلیا ہے عکرمہ!“…خالد نے دوٹوک لہجے میں کہا …”میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے “
اسی شام ابو سفیان نے خالد کو اپنے ہاں بلایا۔
عکرمہ بھی وہاں موجود تھا ۔ 
”کیا تم بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں میں آگئے ہو ؟“…ابوسفیان نے اس سے پوچھا ۔ 
”تم نے ٹھیک سنا ہے ابوسفیان!“…خالد نے کہا …”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ہی کچھ ایسی ہیں “
مشہور مورخ واقدی نے لکھا ہے کہ ابو سفیان قبیلے کا سردار تھا ۔ اس نے خالد کا فیصلہ بدلنے کے لیے اسے قتل کی دھمکی دی۔
خالد اس دھمکی پر مسکرادیا مگر عکرمہ برداشت نہ کرسکا حالانکہ وہ خود خالد کے فیصلے کے خلاف تھا۔ 
”ابوسفیان!“…عکرمہ نے اسے کہا …”میں تمہیں اپنے قبیلے کا سردار مانتا ہوں لیکن خالد کو جو تم نے دھمکی دی ہے وہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔ تم خالد کو اپنا مذہب بدلنے سے نہیں روک سکتے۔ اگر تم خالد کے خلاف کوئی کارروائی کرو گے تو ہوسکتا ہے کہ میں بھی خالد کے ساتھ مدینے چلا جاؤں “
###
اگلے ہی روز مکہ میں ہر کسی کی زبان پر یہ الفا ظ تھے …”خالد بن ولید محمد کے پاس چلا گیا ہے ۔
خالد یادوں کے ریلے میں بہتا مدینہ کو چلا جارہا تھا اسے اپنا ماضی اس طرح یاد آیا تھا جیسے وہ گھوڑے پر سوار مدینہ کو نہیں بلکہ پیادہ اپنے ماضی میں چلا جارہا ہو۔ اسے مدینہ کے اونچے مکانوں کی منڈیریں نظر آنے لگی تھیں۔ 
”خالد! “…اسے کسی نے پکارا لیکن اسے گزرے ہوئے وقت کی آواز سمجھ کر اس نے نظر انداز کردیا۔ اسے گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دیے تب اس نے دیکھا۔
اسے دو گھوڑے اپنی طرف آتے دکھائی دیے۔ وہ رک گیا ۔ گھوڑے اس کے قریب آکر رک گئے ۔ ایک سوار اس کے قبیلے کا مشہور جنگجو عمرو بن العاص تھا اور دوسرے عثمان بن طلحہ۔ ان دونوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔ 
”کیا تم دونوں مجھے واپس مکہ لے جانے کے لیے آئے ہو ؟“…خالد نے ان سے پوچھا ۔ 
”تم کہاں جارہے ہو ؟“…عمر و بن العاص نے پوچھا ۔
 
”اور تم دونوں کہاں جارہے ہو ؟“…خالد نے پوچھا ۔ 
”خدا کی قسم، ہم تمہیں بتائیں گے تو تم خوش نہیں ہوگے “…عثمان بن طلحہ نے کہا …”ہم مدینہ جارہے ہیں“
”بات پوری کرو عثمان!“…عمرو بن العاص نے کہا …”خالد!ہم محمد کامذہب قبول کرنے جارہے ہیں۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا سچا نبی مان لیا ہے “
”پھر ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں “…خالد نے کہا …”آؤ، اکٹھے چلیں“
وہ ۳۱مئی ۶۲۸ء کا دن تھا جب تاریخ اسلام کے دو عظیم جرنیل خالد بن ولید اور عمرو بن العاص مدینہ میں داخل ہوئے۔
ان کے ساتھ عثمان بن طلحہ تھے۔ تینوں رسول کریم کے حضور پہنچے۔ سب سے پہلے خالد بن ولید اندر گئے ۔ ان کے پیچھے عمرو بن العاص اور عثمان بن طلحہ گئے۔ تینوں نے قبول اسلام کی خواہش ظاہر کی ۔ 
رسول اللہ اٹھ کھڑے ہوئے اور تینوں کو باری باری گلے لگایا۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط