شہدوں کو دل سے اتاردیں۔ ذہن سے ان کا نام و نشان مٹادیں۔ ان کی یادوں کو شراب میں ڈبودیں۔ اس زمین پر جو خدا نے ہمیں شہیدوں کے صدقے عطا کی ہے ۔ بادشاہ بن کر گردن اکڑا لیں اور کہیں کہ میں ہوں اس زمین کا شہنشاہ۔ شہیدوں کے نام پر مٹی ڈال دیں۔ کسی شہید کی کہیں قبر نظر آئے تو اسے زمین سے ملادیں مگر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر آپ کو شہید کھڑے نظر آئیں گے ۔
آپ کے ذہن کے کسی گوشے سے شہید اٹھیں گے اور شراب اور شہنشاہیت کا نشہ اتاردیں گے کہ جس نے تحت و تاج کے نشے میں شہیدوں سے بے وفائی کی وہ شاہ سے گدا اور ذلیل و خوار ہوا کیونکہ اس نے قرآن کے اس فرمان کی حکم عدولی کی کی شہید زندہ ہیں۔ انہیں مردہ مت کہو ۔
عرب کے ملک اردن میں گمنام سا ایک مقام ہے جس کا نام موتہ ہے اس کے قریب سے گزر جانے والوں کو بھی شاید پتہ نہ چلتا ہوگا کہ وہاں ایک بستی ہے اس کی حیثیت چھوٹے سے ایک گاؤں سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں لیکن شہیدوں نے اردن کے بادشاہ کو اپنی موجودگی کا اور اپنی زندگی کا جو انہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے احساس دلایا ہے ۔
(جاری ہے)
وہ جس معرکے میں شہید ہوئے تھے وہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے اس مقام پر لڑا گیا تھا۔ پھر یہ مقام گزرتے زمانے کی اڑتی ریت میں دبتا چلا گیا۔
کچھ عرصے سے موتہ کے رہنے والے ایک عجیب صورت حال سے دوچار ہونے لگے آج بھی وہاں چلے جائیں اور وہاں کے رہنے والوں سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی آدمی رات کو خواب میں دیکھتا ہے کہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے کے مجاہدین اسلام چل پھر رہے ہیں کفار کا ایک لشکر آتا ہے اور مجاہدین اس کے مقابلے میں جم جاتے ہیں۔
ان کی تعداد تھوڑی ہے اور لشکر کفار مانند سیلاب ہے ۔ معرکہ بڑا خونریز ہے ۔
یہ خواب ایک دو آدمیوں نے نہیں۔ وہاں کے بہت سے آدمیوں نے دیکھا ہے اور کسی نہ کسی کو یہ خواب ابھی تک نظر آتا ہے ۔ یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں انہیں معلوم نہیں تھا کہ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے یہاں حق و باطل کا معرکہ لڑا گیا تھا مگر ان کے خوابوں میں شہید آنے لگے۔ یہ خبر اردن کے ایوانوں تک پہنچی۔
تب یاد آیا کہ یہ وہ موتہ ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی ایک لڑائی ہوئی تھی۔ یہ عیسائی عرب کے باشندے تھے ۔
شہیدوں نے اپنے زندہ ہونے کاایسا احساس دلایا کہ اردن کی حکومت نے جنگ موتہ اور اس جنگ کے شہیدوں کی یادگار کے طور پر ایک نہایت خوبصورت مسجد تعمیر کرنے کے احکام جاری کردیے۔ مسجد کی تعمیر ۱۹۶۸ء میں شروع ہوئے تھی ۔ اس جنگ میں تین سپہ سالار…زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ…یکے بعد دیگرے شہید ہوگئے تھے ۔
ان تینوں کی قبریں موتہ سے تقریباً دو میل دور ہیں جو ابھی تک محفوظ ہیں۔
مدینہ میں آکر خالد بن ولید نے اسلام قبول کیا تو ان کی ذات میں عظیم انقلاب آگیا۔ تین مہینے گزر گئے تھے ۔ خالد زیادہ تر وقت رسول کریمﷺ کے حضور بیٹھے فیض حاصل کرتے رہتے مگر انہیں ابھی عسکری جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ وہ فن حرب و ضرب کے ماہر جنگجو تھے ۔
ان کا حسب و نسب بھی عام عربوں سے اونچا تھا لیکن انہوں نے ایسا دعویٰ نہ کیا کہ انہیں سالار کا رتبہ ملنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے آپ کو سپاہی سمجھا اور اسی حیثیت میں خوش رہے ۔
###
آج کے شام اور اردن کے علاقے میں اس زمانے میں قبیلہ غسان آباد تھا جو اس علاقے میں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ قبیلہ طاقت کے لحاظ سے زبردست مانا جاتا تھا کیونکہ جنگجو ہونے کے علاوہ اس کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔
اس قبیلے میں عیسائی بھی شامل تھے ۔
اس وقت روما کا شہنشاہ ہر قل تھا جس کی جنگ پسندی اور جنگی دہشت دور دور تک پہنچی ہوئی تھی۔ اسلام تیزی سے پھل پھول رہا تھا۔ قبیلہ قریش کے ہزارہا لوگ اسلام قبول کرچکے تھے۔ ان کے مانے منجھے ہوئے سردار اور سالار بھی مدینہ جاکر رسول کریمﷺ کے دست مبارک پر بیعت کرچکے تھے اور مسلمان ایک جنگی طاقت بنتے جارہے تھے کئی ایک چھوٹے چھوٹے قبائل حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تھے ۔
مدینہ اطلاعیں پہنچ رہی تھیں کہ قبیلہ غسان مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اسلام کی مقبولیت کو روکنے کے لیے مسلمانوں کو للکارنا چاہتا ہے اور جنگی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ یہ بھی سنا گیا کہ غسان کا سردار اعلیٰ روما کے بادشاہ ہرقل کے ساتھ دوستی کرکے اس کی جنگی طاقت بھی مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ رسول کریم نے اپنا ایک ایلچی جس کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں غسان کے سردار اعلیٰ کے ہاں اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ واحدہ لاشریک ہے اور اسلام ایک مذہب اور ایک دین ہے باقی تمام عقیدے جو مختلف مذاہب کی صورت اختیار کرگئے ہیں توہمات ہیں اور یہ انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔
رسول اکرم نے غسان کے سردار اعلیٰ کو قبول اسلام کی دعوت دی ۔
نبی کریم نے یہ پیغام اس خیال سے بھیجا تھا کہ پیشتر اس کے کہ قبیلہ غسان روما کے شہنشاہ ہرقل کی جنگی قوت سے مرعوب ہوکر عیسائیت کی آغوش میں چلا جائے۔ یہ قبیلہ اسلام قبول کرلے اور اس سے اپنا اتحادی بناکر ہرقل سے بچایا جائے ۔
”خدا کی قسم، اس سے بہتر فیصلہ اور کوئی نہیں ہوسکتا“…خالد نے ایک محفل میں کہا …”ہرقل نے فوج کشی کی تو یوں سمجھو کہ باطل کا طوفان آگیا جو سب کو اڑا لے جائے گا “
”غسان کی خیریت اسی میں ہے کہ رسول اللہ کی دعوت کو قبول کرلے “…کسی اور نے کہا ۔
”نہیں کرے گا تو ہمیشہ کے لیے ہرقل کا غلام ہوجائے گا “…ایک اور نے کہا ۔
اس وقت ہرقل قبیلہ غسان کے علاقے میں داخل ہوچکا تھا ۔ اس کے ساتھ جو فوج تھی اس کی تعداد ایک لاکھ تھی غسان کے سردار اعلیٰ کو اطلاع مل چکی تھی مگر وہ پریشان نہیں تھا۔ وہ ہرقل کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کرچکا تھا ۔
نبی کریم کا ایلچی بصرہ کو جارہا تھا ۔
غسان کا دارالحکومت بصرہ تھا۔ ایلچی کے ساتھ ایک اونٹ پر لدے ہوئے زادراہ کے علاوہ تین محافظ بھی تھے ۔
بڑی لمبی مسافت کے بعد ایلچی موتہ پہنچا اور اس نے ذرا سستانے کے لیے اپنا مختصر سا قافلہ روک لیا۔ قریب ہی قبیلہ غسان کی ایک بستی تھی ۔ اس کے سردار کو اطلاع ملی کہ چار اجنبی بستی کے قریب پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔ سردار نے جس کا نام شرجیل بن عمرو تھا ،مدینہ کے ایلچی کو اپنے ہاں بلایا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں جارہا ہے ۔
”میں مدینہ کا ایلچی ہوں اور بصرہ جارہا ہوں “…ایلچی نے جواب دیا …”میں اللہ کے رسول کا پیغام تمہارے سردار اعلیٰ کے لیے لے جارہا ہوں “
”کیا تم قبیلہ قریش کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کر رہے ہو ؟“…شرجیل بن عمرو نے طنزیہ لہجے میں پوچھا …”پیغام کیا ہے؟“
”پیغام یہ ہے کہ اسلام قبول کرلو“…ایلچی نے کہا …”اور باطل کے عقیدے کو ترک کردو“
”کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اپنے سردار اعلیٰ کی اور اپنے مذہب کی توہین برداشت کرلوں گا ؟“…شرجیل بن عمرو نے کہا …”اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہیں سے واپس مدینہ چلے جاؤ“
”میں بصرہ کے راستے سے ہٹ نہیں سکتا“…ایلچی نے کہا…”یہ رسول اللہ کا حکم ہے جس کی تعمیل میں میں فخر سے اپنی جان دے دوں گا “
”اور میں بڑے فخر سے تمہاری جان لوں گا“…شرجیل بن عمرو نے کہا اور اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا ۔
ایلچی کے تینوں محافظ باہر بیٹھے تھے ۔ اندر سے تین آدمی نکلے۔ وہ کسی کی خون آلود لاش گھسیٹتے ہوئے باہر لارہے تھے ۔ محافظوں نے دیکھا کہ لاش کی گردن کٹی ہوئی تھی ۔ انہوں نے پہچان لیا یہ ان کے ایلچی کی لاش تھی شرجیل بن عمرو باہر آیا۔
”تم اس کے ساتھی تھے “…شرجیل نے محافظوں سے کہا …”مجھے یقین ہے کہ اس کے بغیر تم بصرہ نہیں جاؤ گے “
”نہیں“…ایک محافظ نے جواب دیا …”پیغام اس کے پاس تھا “
”جاؤ مدینہ کو لوٹ جاؤ “…شرجیل نے کہا …”اور محمد سے کہنا کہ ہم اپنے قبیلے اور اپنے عقیدے کی توہین برداشت نہیں کیا کرتے اگر یہ شخص بصرہ پہنچ جاتا تو وہاں قتل ہوجاتا “
”خدا کی قسم!“…ایک محافظ نے کہا …”ہم اپنے مہمان کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا کرتے “
”میں تمہیں مہمان سمجھ کر تمہاری جان بخشی کر رہا ہوں “…شرجیل نے کہا …”اور مجھے یہ نہ کہنا کہ میں تمہیں اس کی لاش دے دوں “
###