مدینہ کی تمام تر آبادی کو معلوم ہوچکا تھا کہ رسول اللہ کا ایلچی دعوت اسلام لے کر بصرہ گیا ہوا ہے ۔ سب ایلچی کی واپسی کے منتظر تھے لیکن تینوں محافظ ایلچی کے بغیر واپس آئے۔ ان کے چہروں پر صرف گرد کی تہہ اور تھکن کے آثار ہی نہیں تھے غم و غصے کے تاثرا ت بھی تھے۔ وہ مدینہ داخل ہوئے تو لوگ ہجوم کرکے آگئے ۔
”خدا کی قسم، ہم انتقام لیں گے “…محافظ باز و لہرا لہرا کر کہتے جارہے تھے …”موتہ کے شرجیل بن عمرو کا قتل ہم پر فرض ہوگیا ہے “
جب یہ خبر رسول اکرم کو ملی تو باہر مدینہ کی آبادی اکٹھی ہوگئی تھی۔
عربوں کے رواج کے مطابق قتل کی سزا قتل تھی۔ باہر لوگ انتقام انتقام کے نعرے لگارہے تھے ۔ اس دور میں بھی، آج کل کی طرح ایک دوسرے کے ایلچیوں کو جن کی حیثیت سفیروں جیسی ہوتی تھی ۔
(جاری ہے)
دشمن بھی تحفظ دیتا تھا ۔ کسی کے ایلچی کو قتل کردینے کا مطلب اعلان جنگ سمجھا جاتا تھا ۔
”اہل مدینہ “…رسول کریم نے باہر آکر مدینہ والوں کے بپھرے ہوئے ہجوم سے فرمایا …”میں نے انہیں لڑائی کے لیے نہیں للکارا تھا ۔
میں نے انہیں سچا دین قبول کرنے کو کہا تھا اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو ہم لڑیں گے “
”ہم لڑیں گے …ہم انتقام لیں گے …مسلمان کمزور نہیں “…ہجوم نعرے لگارہا تھا ۔
”مسلمان کا خون اتنا ارزاں نہیں…ہم اللہ اور رسول کے ناموس پر مرمٹیں گے “
رسول کریم کے حکم سے اسی روز مجاہدین اسلام کی فوج تیار ہوگئی جس کی تعداد تین ہزار تھی ۔
رسول کریم نے سپہ سالار کے فرائض زید بن حارثہ کو سونپے۔
”اگر زید شہید ہوجائے تو سپہ سالار جعفر بن ابی طالب ہوگا “…نبی کریم نے فرمایا…”جعفر بھی شہید ہوجائے تو سپہ سالار عبداللہ بن رواحہ ہوگا ۔ اگر عبداللہ کو بھی اللہ شہادت عطا کردے تو فوج اپنا سپہ سالار خود چن لے “
مورخ ابن سعد اور مغازی لکھتے ہیں کہ رسول کریم نے یہ تین سپہ سالار درجہ بدرجہ مقرر کرکے مجاہدین کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔
آپ نے سپہ سالار زید بن حارثہ سے فرمایا کہ موتہ پہنچ کر سب سے پہلے شرجیل بن عمرو کو جو ہمارے ایلچی کا قاتل ہے قتل کیا جائے پھر موتہ اور اس کے ارد گرد کے لوگوں کو کہا جائے کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ انہیں بتایا جائے کہ اسلام کیا ہے ۔ اگر وہ قبول کرلیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے ۔
مجاہدین کی اس فوج میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ محض سپاہی تھی ، کسی دستے یا جیش کے کماندار بھی نہیں تھے ۔
####
روما کے شہنشاہ ہرقل کی فوج آج کے اردن میں کسی جگہ خیمہ زن تھی۔ یہ قبیلہ غسان کا علاقہ تھا فوج کی تعداد (مورخین کے مطابق) ایک لاکھ تھی ۔ یہ فوج اس علاقے کی بستیوں پر چھاچکی تھی۔ کھڑی فصل گھوڑے اور اونٹ کھارہے تھے لوگوں کے گھروں سے اناج اور کھجوروں کے ذخیرے فوج نے اٹھالیے تھے اور جوان اور خوبصورت عورتیں فوج کے سرداروں اور کمانداروں کے خیموں میں تھیں۔
ہرقل کا خیمہ قناتوں اور شامیانیوں کا محل تھا ۔ قبیلہ غسان کا سردار اعلیٰ ہرقل کے سامنے بیٹھا تھا ۔ اسے ہرقل کی فوج کشی کی اطلاع ملی تھی تو وہ بیش قیمت تحائف اور قبیلے کی بڑی حسین دس بارہ لڑکیاں اپنے ساتھ لے کر ہرقل کے استقبال کو چلا گیا تھا۔ اب ان لڑکیوں میں سے دو تین ہرقل کے پہلوؤں میں بیٹھی تھیں۔
”…اور تم نے بتایا ہے کہ مدینہ سے محمد نے تمہیں پیغام بھیجا تھا کہ تمہارا قبیلہ اس کا مذہب قبول کرلے“ …ہرقل نے کہا
”میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ میرے ایک سردار شرجیل بن عمرو نے مدینہ کے ایلچی کو مجھ تک نہیں پہنچنے دیا “… غسان کے سردار اعلیٰ نے کہا …”اسے موتہ میں قتل کردیا تھا ۔
“
”کیا مدینہ والوں میں اتنی طاقت اور جرات ہے کہ وہ اپنے ایلچی کے قتل کا انتقام لینے آئیں؟“…ہرقل نے پوچھا ۔
”ان کی طاقت کم ہے اور جرات زیادہ ہے “…سردار اعلیٰ نے کہا…”ان لوگوں پر محمد کا جادو سوار ہے ۔ پہلے پہلے مجھے ان کے متعلق اطلاعیں ملیں تو میں نے انہیں کوئی اہمیت نہ دی مگر انہوں نے ہر میدان میں فتح پائی ہے اور ہر میدان میں ان کی تعداد بہت تھوڑ ی تھی ۔
میں نے سنا ہے کہ محمد اور اس کے سالاروں کی جنگی چالوں کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔ اس نے مجھے اپنے مذہب کا جو پیغام بھیجا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھنے لگا ہے “
”تم کیا چاہتے ہو ؟“…ہرقل نے ایک نیم برہنہ لڑکی کے ہاتھ سے شراب کا پیالہ لیتے ہوئے پوچھا۔
”بات صاف کہہ دوں تو میرے لیے بھی اچھا ہے ، آپ کے لیے بھی “…سردار اعلیٰ نے کہا …”میں نے آپ کی فوج دیکھ لی ہے ۔
میرا قبیلہ کوئی چھوٹا قبیلہ نہیں۔ اگر زیادہ نہیں تو آپ جتنی فوج میرے پاس بھی ہے ۔ آپ اپنے ملک سے دور ہیں۔ اگر ہم لڑیں گے تو میں اپنی زمین پر لڑوں گا جہاں کا بچہ بچہ آپ کا دشمن ہوگا “
”کیا تم مجھے دھمکی دے رہے ہو ؟“…ہرقل نے مسکرا کر پوچھا۔
”اگر یہ دھمکی ہے تو یہ میں اپنے آپ کو بھی دے رہا ہوں “…غسان کے سردار اعلیٰ نے کہا …”میں آپ کو آپس کی لڑائی کے نتائج بتارہا ہوں جو ہم دونوں کے لیے اچھے نہیں ہوں گے ۔
اس کا فائدہ مدینہ والوں کو پہنچے گا کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم دونوں مل کر مسلمانوں کو ختم کردیں؟میں فتح کی صورت میں آپ سے کچھ نہیں مانگوں گا ۔ مفتوحہ علاقہ آپ کا ہوگا۔ میں اپنے علاقے میں واپس آجاؤں گا …ہم آپس میں لڑ کر اپنی طاقت ضائع نہ کریں پہلے ایک ایسی طاقت کو ختم کریں جو مدینہ میں ہم دونوں کے خلاف تیار ہورہی ہے “
”میں تمہاری تجویز کو قبول کرتا ہوں “…شہنشاہ ہرقل نے کہا
”پھر اپنی فوج کو حکم دے دیں کہ غسان کی بستیوں میں لوٹ مار بند کردیں “
”دے دوں گا “…ہرقل نے کہا…”ہمیں مدینہ والوں کے انتظار میں نہیں رہنا چاہیے ہم مدینہ کی طرف بڑھیں گے“
###
انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا۔
مدینہ کے تین ہزار مجاہدین مدینہ سے بہت دور نکل گئے تھے۔ موتہ سے کچھ فاصلے پر معان نام کا ایک مقام تھا ، وہاں انہوں نے پڑاؤ کیا۔ اس علاقے اور اس سے آگے کے علاقے میں مجاہدین اجنبی تھے۔ انہیں کچھ خبر نہیں تھی کہ آگے کیا ہے معلوم یہ کرنا تھا کہ آگے دشمن کی فوج موجود ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو کتنی ہے اور کیسی ہے ۔ یہ معلوم کرنے کے لیے تین چار مجاہدین کو غریب سے شتر سواروں کے بھیس میں آگے بھیج دیا گیا ۔
ان آدمیوں نے رات آگے کہیں جاکر گزاری اور اگلی شام کو واپس آئے ۔ وہ جو خبر لائے وہ اچھی نہیں تھی ۔ وہ دور آگے چلے گئے تھے۔ پہلے انہیں غسان کے دو کنبے نظر آئے جو نقل مکانی کرکے کہیں جارہے تھے دونوں کنبوں میں نوجوان ، لڑکیاں اور جوان عورتیں زیادہ تھیں۔ وہ لوگ امیر کبیر معلوم ہوتے تھے ۔ ان کا سامان کئی اونٹوں پر لدا ہوا تھا ۔ یہ قافلہ ایک جگہ آرام کے لیے رکا ہوا تھا۔
مجاہدین بھی رہیں رک گئے اور انہوں نے قافلے والوں کے ساتھ راہ و رسم پیدا کرلی اور یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ مسلمان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بصرہ جارہے ہیں اور وہاں سے تجارت کا سامان لائیں گے
”یہیں سے واپس چلے جاؤ“…قافلے کے آدمیوں نے انہیں بتایا…”روما کے بادشاہ ہرقل کا لشکر لوٹ مار اور قتل و غارت کرتا چلا آرہا ہے ۔ تم سے اونٹ اور مال و دولت چھین لیں گے اور ہوسکتا ہے تمہیں قتل بھی کردیں “
پھر ہرقل کی فوج کشی کی باتیں ہوتی رہیں۔
پتہ چلا کہ انہوں نے ہرقل کی فوج دیکھی نہیں، صرف سنا ہے کہ یہ فوج اردن میں داخل ہوکر لوٹ مار کر رہی ہے ۔ ان کنبوں میں چونکہ عورتیں زیادہ تھیں اس لیے انہیں بچانے کے لیے یہ لوگ بھاگ نکلے۔
مجاہدین کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ وہ ہرقل کے متعلق صحیح صورت حال معلوم کریں۔ یہ بہت بڑا خطرہ تھا۔ مجاہدین اور آگے چلے گئے۔ انہیں غسان کی ایک بستی نظر آگئی۔
وہ بستی میں چلے گئے اور بتایا کہ وہ بصرہ جارہے تھے مگر راستے میں راہزنوں نے انہیں لوٹ لیا ہے ۔ بستی والوں نے انہیں کھانا کھلایا اور خاصی آؤبھگت کی ۔ وہاں سے انہیں صحیح اطلاع مل گئی ۔
صحیح صورت حال یہ تھی کہ ہرقل اور قبیلہ غسان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا تھا قبیلہ غسان نے اپنی فوج ہرقل کی فوج میں شامل کردی تھی اور دونوں فوجوں کا رخ مدینہ کی طرف تھا۔
مورخوں نے ہرقل کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ اور ایک لاکھ غسان کی فوج کی تعداد لکھی ہے لیکن بعض مورخ اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔ وہ دونوں فوجوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ بتاتے ہیں بہرحال مدینہ کی اسلامی فوج کی تعداد سب نے تین ہزار لکھی ہے ۔
اس صورت حال نے مجاہدین کے سالاروں کو پریشان کردیا۔ حالات کا تقاضا یہ تھا کہ دشمن کی اس ہیبت ناک جنگی قوت اور اپنی قلیل تعداد کو دیکھتے ہوئے واپس جاتے لیکن انہوں نے واپسی کی نہ سوچی۔
البتہ معان سے آگے پیش قدمی روک دی ۔
”اگر ہم واپس چلے گئے تو ہرقل اور غسان کے لیے دعوت ہوگی کہ بے دھڑک مدینہ تک چلے آؤ “…عبداللہ بن رواحہ نے کہا …”ہم دشمن کو یہیں روکیں گے “
”کیا ہم اتنی تھوری تعداد میں اتنے بڑے لشکر کو روک سکیں گے ؟“…زید بن حارثہ نے پوچھا۔
”کون سے میدان میں ہم تھوڑی تعداد میں نہیں تھے ؟“…جعفر بن ابی طالب نے کہا …”اگر ہم مل کر کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے تو ہم میں سے کوئی مدینہ چلا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام لے آئے “
”ہم اتنا وقت ضائع نہیں کرسکتے “…عبداللہ نے کہا …”دشمن ہمیں اتنی مہلت نہیں دے گا خدا کی قسم، میں دشمن کو یہ تاثر نہیں دوں گا کہ ہم اس کے لشکر سے ڈر گئے ہیں “
”اور میں مدینہ میں یہ کہنے کے لیے داخل نہیں ہوں گا کہ ہم پسپا ہوآئے ہیں “…زید نے کہا …”ہم جانیں قربان کرکے زندہ رہنے والوں کے لیے مثال قائم کرجائیں گے ۔
یہ مت بھولو کہ غسان کی فوج میں عیسائیوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ عیسائی اپنے مذہب کی خاطر لڑیں گے “
عبداللہ بن رواحہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے مجاہدین کو اکٹھا کرکے اتنے جوشیلے لہجے میں خطاب کیا کہ تین ہزار مجاہدین کے نعرے زمین و آسمان کو ہلانے لگے۔ سپہ سالازید بن حارثہ نے آگے کو کوچ کا حکم دے دیا۔
مورخین لکھتے ہیں کہ مجاہدین اسلام نے اپنے آپ کو بڑے ہی خطرناک امتحان میں ڈال دیا، ہرقل اور غسان کے سردار اعلیٰ کو معلوم ہوگیا تھا کہ مدینہ سے چند ہزار نفری کی فوج اپنے ایلچی کے قتل کا انتقام لینے آرہی ہے ۔ مجاہدین کو کچل ڈالنے کے لیے ہرقل اور غسان کے لشکر آرہے تھے ۔
####