مجاہدین بڑھتے چلے گئے اور بلقاء پہنچے۔ انہیں اور آگے جانا تھا لیکن غسان کی فوج کے دو دستے جن کی تعداد مجاہدین کی نسبت تین گنا تھی۔ راستے میں حائل ہوگئے ۔ زید بن حارثہ نے مجاہدین کو دور ہی روک لیا اور ایک بلند جگہ کھڑے ہوکر علاقے کا جائزہ لیا۔ انہیں یہ زمین لڑائی کے لیے موزوں نہ لگی دوسرے سالاروں سے مشورہ کرکے زید بن حارثہ مجاہدین کو پیچھے لے آئے ۔
غسان کی فون نے اسے پسپائی سمجھ کر مجاہدین کا تعاقب کیا۔
زید موتہ کے مقام پر رک گئے اور فوراً اپنے مجاہدین کو لڑائی کی ترتیب میں کرلیا۔ انہوں نے فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا …دایاں اور بایاں پہلو اور قلب…دائیں پہلو کی کمان قطبہ بن قتاوہ کے پاس اور بائیں پہلو کی عبایہ بن مالک کے ہاتھ تھی۔
(جاری ہے)
زید خود قلب میں رہے ۔
”اللہ کے سچے نبی کے عاشقو!“…زید بن حارثہ نے بڑی بلند آواز سے مجاہدین کو للکارا…”آج ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم حق کے پرستار ہیں ، آج باطل کے نیچے سے زمین کھینچ لو۔
اپنے سامنے باطل کا لشکر دیکھو اور اس سے مت ڈرو …یہ لڑائی طاقت کی نہیں یہ جرأت ، جذبے اور دماغ کی کی جنگ ہے ۔ میں تمہارا سپہ سالار بھی ہوں اور علم بردار بھی دشمن کا لشکر اتنا زیادہ ہے کہ تم اس میں گم ہوجاؤ گے لیکن اپنے ہوش گم نہ ہونے دینا ۔ ہم اکٹھے لڑیں گے اور اکٹھے مریں گے “…زید نے علم اٹھا لیا۔
دشمن کی طرف سے تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی۔
زید کے حکم سے مجاہدین کے دائیں اور بائیں پہلو پھیل گئے اور آگے بڑھے۔ یہ آمنے سامنے کا تصادم تھا مجاہدین دائیں اور بائیں پھیلتے آگے بڑھتے چلے گئے اور زید نے قلب کو آگے بڑھادیا۔ وہ خود آگے تھے ۔ یہ معرکہ ایسا تھا کہ مجاہدین کا حوصلہ اور جذبہ برقرار رکنے کے لیے سپہ سالار کا آگے ہونا ضروری تھا ۔
چونکہ علم بھی سپہ سالار زید بن حارثہ کے پاس تھا اس لیے دشمن انہی پر تیر برساتا اور ہلے بول رہا تھا۔
زید رضی اللہ عنہ کو تیر لگ چکے تھے جسم سے خون بہہ رہا تھا لیکن انہوں نے علم نیچے نہ ہونا دیا اور ان کی للکار خاموش نہ ہوئی ۔ علم اٹھائے ہوئے وہ تلوار بھی چلارہے تھے ۔ پھر ان کے جسم میں برچھیاں لگیں۔ آخر وہ گھوڑے سے گرپڑے اور شہید ہوگئے ۔ علم گرتے ہی مجاہدین کچھ بددل ہوئے لیکن جعفر بن ابی طالب نے بڑھ کر علم اٹھالیا۔
”رسول اللہ کے شیدائیو!“…جعفر نے علم اوپر کرکے بڑی ہی بلند آواز سے کہا …”خدا کی قسم ، اسلام کا علم گر نہیں سکتا “…اور انہوں نے زید بن حارثہ شہید کی جگہ سنبھال لی ۔
مجاہدین لشکر کفار میں گم ہوگئے تھے لیکن ان کا جذبہ قائم تھا۔ ان کی للکار اور ان کے نعرے سنائی دے رہے تھے سالار سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے ۔ ان کا علم بلند تھا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد علم گرنے لگا ۔ علم گرتا تھا، اٹھتا تھا ۔ عبداللہ بن رواحہ نے دیکھ لیا اور سمجھ گئے کہ علم بردار زخمی ہے اور وہ علم کو سنبھال نہیں سکتا ۔ علم بردار سپہ سالار خود تھا۔
وہ جعفر بن ابی طالب تھے ۔ عبداللہ ان کی طرف دوڑے۔ ان تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا ۔
عبداللہ رضی اللہ عنہ جعفر رضی اللہ عنہ تک پہنچے ہی تھے کہ جعفر رضی اللہ عنہ گرپڑے۔ ان کا جسم خون میں نہا گیا تھا۔ جسم پر شاہد ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں تیر، تلوار یا برچھی کا زخم نہیں تھا۔ جعفر گرتے ہی شہید ہوگئے ۔ عبداللہ نے پرچم اٹھا کر بلند کیا اور نعرہ لگا کر مجاہدین کو بتایا کہ انہوں نے علم اور سپہ سالاری سنبھال لی ہے ۔
یہ دشمن کی فوج کا ایک حصہ تھا جس کی تعداد دس سے پندرہ ہزار تک تھی ۔ یہ تمام تر نفری عسانی عیسائیوں کی تھی جو اس معرکے کو مذہبی جنگ سمجھ کر لڑ رہے تھے۔ اتنی زیادہ تعداد کے خلاف تین ہزار مجاہدین کیا کرسکتے تھے لیکن اکی قیادت اتنی دانش مند اور عسکری لحاظ سے اتنی قابل تھی کہ اس کے تحت مجاہدین جنگی طریقے اور سلیقے سے لڑ رہے تھے ۔
ان کا انداز لٹھ بازوں والا نہیں تھا مگر دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مجاہدین بکھرنے لگے۔ یہاں تک کہ بعض اس انتشار اور دشمن کے دباؤ اور زور سے گھبرا کر معرکے سے نکل گئے لیکن وہ بھاگ کر کہیں گئے نہیں قریب ہی کہیں موجود رہے باقی مجاہدین انتشار کا شکار ہونے سے یوں بچے کہ وہ چار چار پانچ پانچ اکٹھے ہوکر لڑتے رہے ۔
جنگی مبصرین نے لکھا ہے کہ غسانی مسلمانوں کی اس افراتفری کی کیفیت سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھاسکے جس کی وجہ یہ ہے جکہ مسلمان اتنی بے جگری سے اور ایسی مہارت سے لڑ رہے تھے کہ غسانیوں پر ان کا رعب طاری ہوگیا تھا۔
وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کا بکھر جانا بھی ان کی چال ہے ۔ مورخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سالاروں اور کمانداروں نے اس صورت حال کو یوں سنبھالا کہ اپنے آدمیوں کو معرکے سے نکالنے لگے تاکہ انہیں منظم کیا جاسکے۔
اس دوران علم ایک بار پھر گر پڑا۔ تیسرے سپہ سالار عبد اللہ بن رواحہ بھی شہید ہوگئے ۔ اب کے مجاہدین میں بددلی نظر آنے لگی ۔
علم کا تیسری بار گرنا اچھا شگون نہیں تھا۔ رسول کریمﷺ نے یہی تین سالار مقرر کیے تھے اب مجاہدین کو سپہ سالار خود مقرر کرنا تھا ۔
علم گرا ہوا تھا جو شکست کی نشانی تھی ۔ ایک سرکردہ مجاہد ثابت بن ارقم نے علم اٹھا کر بلند کیا اور نعرہ لگانے کے انداز سے کہا …”اپنا سپہ سالار کسی کو بنالو ۔ علم میں بلند رکھوں گا …میں ثابت بن ارقم“
مورخ ابن سعد نے لکھا ہے کہ ثابت اپنے آپ کو سپہ سالاری کے قابل نہیں سمجھتے تھے اور وہ مجاہدین کی رائے کے بغیر سپہ سالار بننا بھی نہیں چاہتے تھے کیونکہ نبی کریمﷺ کا حکم تھا کہ تین سالار اگر شہید ہوجائے تو چوتھے سالار کا انتخاب مجاہدین خود کریں۔
ثابت کی نظر خالد بن ولید پر پڑی جو قریب ہی تھے مگر خالد بن ولید کو مسلمان ہوئے ابھی تین ہی مہینے ہوئے تھے ۔ اس لیے انہیں اسلامی معاشرت میں ابھی کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوئی تھی ۔ثابت بن ارقم خالد کے عسکری جوہر اور جذبے سے واقف تھے ۔ انہوں نے علم خالد کی طرف بڑھایا۔
”بیشک اس رتبے کے قابل تم ہو خالد“
”نہیں“…خالد نے جواب دیا …”میں ابھی اس کا مستحق نہیں “…خالد نے علم لینے سے انکار کردیا ۔
لڑائی کا زور کچھ ٹوٹ گیا تھا۔ ثابت نے للکار کر مجاہدین سے کہا کہ خالد سے کہو کہ علم اور سپہ سالاری لے لے۔ بیشتر مجاہدین خالد کی عسکری قابلیت سے واقف تھے اور قبیلہ قریش میں ان کی حیثیت سے بھی بے خبر نہیں تھے ۔
”خالد…خالد…خالد…“ہر طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں …”خالد ہمارا سپہ سالار ہے ۔ “
خالد نے لپک کر علم ثابت سے لے لیا ۔
###
غسانی لڑ تو رہے تھے لیکن ذرا پیچھے ہٹ گئے تھے ۔ خالد رضی اللہ عنہ کو پہلی بار آزادی سے قیادت کے جوہر دکھانے کا موقع ملا، انہوں نے چند ایک مجاہدین کو اپنے ساتھ رکھ لیا اور ان سے قاصدوں کا کام لینے لگے۔ خود بھی بھاگ دوڑ کرنے لگے لڑتے بھی رہے اس طرح انہوں نے ان مجاہدین کو جو لڑنے کے قابل رہ گئے تھے یکجا کرکے منظم کرلیا اور انہیں پیچھے ہٹالیا۔
غسانی بھی پیچھے ہٹ گئے اور دونوں طرف سے تیروں کی بوچھاڑیں برسنے لگیں۔ فضا میں ہر طرف تیر اڑ رہے تھے ۔
خالد نے صورت حال کا جائزہ لیا، اپنی نفری اور اس کی کیفیت دیکھی تو ان کے سامنے یہی ایک صورت رہ گئی تھی کہ معرکہ ختم کردیں۔ دشمن کو کمک بھی مل رہی تھی لیکن خالد پسپا نہیں ہونا چاہتے تھے۔ پسپائی بجا تھی لیکن خطرہ یہ تھا کہ دشمن تعاقب میں آئے گا جس کا نتیجہ مجاہدین کی تباہی کے سوا کچھ نہ وہگا ۔
خالد نے سوچ سوچ کر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا وہ مجاہدین کے آگے ہوگئے اور غسانیوں پر ہلہ بول دیا۔ مجاہدین نے جب اپنے سپہ سالار اور اپنے علم کو آگے دیکھا تو ان کے حوصلے تروتازہ ہوگئے ۔ یہ ہلہ اتنا دلیرانہ اور اتنا تیز تھا کہ کثیر تعداد غسانی عیسائیوں کے قدم اکھڑ گئے ۔ مجاہدین کے ہلے اور ان کی ضربوں میں قہر تھا ۔ مورخ لکھتے ہیں (اور حدیث بھی ہے ) کہ اس وقت تک خالد کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ چکی تھیں۔
خالد دراصل غسانیوں کو بکھیر کر مجاہدین کو پیچھے ہٹانا چاہتے تھے ۔ اس میں وہ کامیاب رہے ۔ انہوں نے اپنے اور مجاہدین کے جذبے اور اسلام کے عشق کے بل بوتے پر دلیرانہ حملہ کیا تھا ۔ حملے اور ہلے کی شدت نے پورا کام کیا لیکن غسانی مجاہدین کی اس غیر معمولی دلیری سے مرعوب ہوگئے اور پیچھے ہٹ گئے ۔ ان میں انتشار پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مجاہدین کے دائیں پہلو کے سالار قطبہ بن قتاوہ نے غسانیوں کے قلب میں گھس کر ان کے سپہ سالار مالک کو قتل کردیا۔
اس سے غسانیوں کے حوصلے جواب دے گئے اور وہ تعدا دکی افراط کے باوجود بہت پیچھے چلے گئے اور منظم نہ رہ سکے ۔
خالد نے اسی لیے یہ دلیرانہ ہلہ کرایا تھا کہ مجاہدین کو تباہی سے بچایا جاسکے۔ وہ انہوں نے کرلیا اور مجاہدین کو واپسی کا حکم دے دیا۔ اس طرح یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ختم ہوگئی ۔
جب مجاہدین خالد بن ولید کی قیادت میں مدینہ داخل ہوئے تو مدینہ میں پہلے ہی خبر پہنچ چکی تھی کہ مجاہدین پسپا ہوکر آرہے ہیں مدینہ کے لوگوں نے مجاہدین کو طعنے دینے شروع کردیے کہ وہ بھاگ کر آئے ہیں۔
خالد نے رسول اکرمﷺ کے حضورمعرکے کی تمام تر روئیداد پیش کی ۔ لوگوں کے طعنے بلند ہوتے جارہے تھے ۔
”خاموش ہوجاؤ “…رسول کریم نے بلند آواز سے فرمایا …”یہ میدان جنگ کے بھگوڑے نہیں۔ یہ لڑ کر آئے ہیں اور آئندہ بھی لڑیں گے …خالد اللہ کی تلوار ہے “
ابن ہشام، واقدی اور مغازی لکھتے ہیں کہ رسول کریم کے یہ الفاظ خالد بن ولید کا خطاب بن گئے ۔
”سیف اللہ “…اللہ کی شمشیر، اس کے بعد یہ شمشیر اللہ کی راہ میں ہمیشہ بے نیام رہی ۔
###