قبیلہ قریش کا سردار اعلیٰ ابو سفیان جو کسی وقت للکار کر بات کیا کرتا اور مسلمانوں کو محمد کا گروہ کہہ کر انہیں پلے ہی نہیں باندھتا تھا ۔ اب بجھ کے رہ گیا تھا۔ خالد بن ولید کے قبول اسلام کے بعد تو ابوسفیان صرف سردار رہ گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے جنگ و جدل کے ساتھ اس کا کبھی تعلق رہا ہی نہیں تھا۔ عثمان بن طلحہ اور عمرو بن العاص جیسے ماہر جنگجو بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔
اس کے پاس ابھی عکرمہ اور صفوان جیسے سالار موجود تھے لیکن ابو سفیان صاف طور پر محسوس کرنے لگا تھا کہ اس کی یعنی قریش کی جنگی طاقت بہت کمزور ہوگئی ہے ۔
”تم بزدل ہوگئے ہو ابوسفیان!“…اس کی بیوی ہند نے ایک روز اسے کہا…”تم مدینے والوں کو مہلت اور موقع دے رہے ہو کہ وہ لشکر اکٹھا کرتے چلے جائیں اور ایک روز آکر مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں“
”میرے ساتھ رہ ہی کون گیا ہے ہند“…ابوسفیان نے مایوسی کے عالم میں کہا ۔
(جاری ہے)
”مجھے اس شخص کی بیوی کہلاتے شرم آتی ہے جو اپنے خانداان اور قبیلے کے مقتولین کے خون کا انتقام لینے سے ڈرتا ہے ۔ “…ہند نے کہا
”میں قتل کرسکتا ہوں “…ابوسفیان نے کہا …”میں قتل ہوسکتا ہوں ۔ میں بزدل نہیں ڈر پوک بھی نہیں لیکن میں اپنے وعدے سے نہیں پھرسکتا…کیا تم بھول گئی ہو کہ حدیبیہ میں محمد کے ساتھ میرا کیا معاہدہ ہوا تھا …اہل قریش اور مسلمان دس سال تک آپس میں نہیں لڑیں گے ۔
اگر میں معاہدہ توڑ دوں اور میدان جنگ میں مسلمان ہم پر غالب آجائیں تو …“
”تم مت لڑو“…ہند نے کہا …”قریش نہیں لڑیں گے ہم کسی اور قبیلے کو مسلمانوں کے خلاف لڑاسکتے ہیں۔ ہمارا مقصد مسلمانوں کی تباہی ہے ۔ ہم مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں کو درپردہ مدد دے سکتے ہیں “
”قریش کے سوا کون ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی جرات کرے گا ؟“…ابو سفیان نے کہا …”موتہ میں ہرقل اور غسان کے ایک لاکھ کے لشکر نے مسلمانوں کا کیا بگاڑ لیا تھا ۔
کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ ایک لاکھ کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی …میں اپنے قبیلے کے کسی آدمی کو مسلمانو ں کے خلاف لڑنے والے کسی قبیلے کی مدد کے لیے جانے کی اجازت نہیں دوں گا “
”مت بھول ابوسفیان!“…ہند نے غضب ناک لہجے میں کہا …”میں وہ عورت ہوں جس نے احد کی لڑائی میں حمزہ کا پیٹ چاک کرکے اس کا کلیجہ نکالا اور اسے چبایا تھا ۔
تم میرے خون کو کس طرح ٹھنڈا کرسکتے ہو “
”تم نے حمزہ کا نہیں اس کی لاش کا پیٹ چاک کیا تھا ۔ “…ابوسفیان نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لاکر کہا …”مسلمان لاشیں نہیں…اور وہ جو کچھ بھی ہیں، خدا کی قسم میں معاہدہ نہیں توڑوں گا “
”معاہدہ تو میں بھی نہیں توڑوں گی“…ہند نے کہا …”لیکن مسلمانوں سے انتقام ضرور لوں گی اور یہ انتقام بھیانک ہوگا ۔
قبیلہ قریش میں غیرت والے جنگجو موجود ہیں “
”آخر تم کرنا کیا چاہتی ہو ؟“…ابوسفیان نے پوچھا ۔
”تمہیں جلدی پتہ چل جائے گا “…ہند نے کہا ۔
####
مکہ کے گردونواح میں خزاعہ ور بنو بکر دو قبیلے آباد تھے ان کی آپس میں بڑی پرانی عداوت تھی حدیبیہ میں جب مسلمانوں اور قریش میں صلح ہوگئی اور دس سال تک عدم جارحیت کا معاہدہ ہوگیا تھا یہ دونوں قبیلے اس طرح اس معاہدے کے فریق بن گئے کہ قبیلہ خزاعہ نے مسلمانوں کا اور قبیلہ بنوبکر نے قریش کا اتحادی بننے کا اعلان کردیا تھا۔
معاہدہ جو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہوا خزاعہ اور بنوبکر کے لیے یوں فائدہ مند ثابت ہوا کہ دونوں قبیلوں کی آئے دن کی لڑائیاں بند ہوگئیں۔
اچانک یوں ہوا کہ بنوبکر نے ایک رات خزانہ کی ایک بستی پر حملہ کردیا۔ یہ کوئی بھی نہ جان سکا کہ بنو بکر نے معاہدہ کیوں توڑ دیا ہے ۔ ایک روایت ہے کہ اس کے پیچھے ہند کا ہاتھ تھا ۔ خزاعہ چونکہ مسلمانوں کے اتحادی تھے اس لیے ہند نے اس توقع پر خزانہ پر بنو بکر سے حملہ کرایا تھا کہ خزاعہ مسلمانوں سے مدد مانگیں گے اور مسلمان ان کی مدد کو ضرور آئیں گے اور وہ جب بنوبکر پر حملہ کریں گے تو قریش مسلمانوں پر حملہ کردیں گے ۔
ایک روایت یہ ہے کہ یہ غسانی عیسائیوں اور یہودیوں کی ساز ش تھی ۔ انہوں نے سوچا تھا کہ قریش اور مسلمانوں کے اتحادیوں کو آپس میں لڑادیا جائے تو قریش اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہوجائے گی بنوبکر خزاعہ کے مقابلے میں طاقتور قبیلہ تھا۔ غسانیوں ور یہودیوں نے بنوبکر کی ایک لڑکی اغوا کرکے قبیلہ خزاعہ کی ایک بستی میں پہنچادی اور بنوبکر کے سرداروں سے کہا کہ خزاعہ نے ان کی لڑکی کو اغوا کیا ہے ۔
بنوبکر نے جاسوسی کی اور پتہ چلا کہ ان کی لڑکی واقعی خزاعہ کی ایک بستی میں ہے ۔
ہند نے اپنے خاوند ابو سفیان کو بتائے بغیر قریش کے کچھ آدمی بنو بکر کو دے دیے ۔ ان میں قریش کے مشہور سالار عکرمہ اور صفوان بھی تھے چونکہ رات کو حملہ کیا گیا تھا اس لیے خزاعہ کے بیس آدمی بارے گئے ۔ یہ راز ہر کسی کو معلوم ہوگیا کہ بنوبکر کے حملے میں قریش کے آدمی مدد کے لیے گئے تھے ۔
خزاعہ کا سردار اپنے ساتھ دو تین آدمی لے کر مدینہ چلا گیا۔ خزاعہ غیر مسلم قبیلہ تھا خزاعہ کے یہ آدمی حضرت رسول اکرمﷺ کے حضور پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ بنوبکر نے قریش کی پشت پناہی سے حملہ کیا تھا اور قریش کے کچھ جنگجو بھی اس حملے میں شریک تھے ۔ خزاعہ کے ایلچی نے رسول اکرم کو بتایا کہ عکرمہ اور صفوان بھی حملے میں شامل تھے ۔
رسول اکرم غصے میں آگئے۔ یہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی ۔ آپ نے مجاہدین کو تیاری کا حکم دے دیا۔
مورخ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ کا ردعمل بڑا ہی شدید تھا ۔ اگر معاملہ صرف بنوبکر اور خزاعہ کی آپس میں لڑائی کا ہوتا تو حضور شاید کچھ اور فیصلہ کرتے لیکن بنوبکر کے حملے میں قریش کے نامی گرامی سالار عکرمہ اور صفوان بھی شامل تھے اس لیے آپ نے فرمایا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ذمہ داری اہل قریش پر عائد ہوتی ہے ۔
”ابوسفیان نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی ہے “…مدینہ کی گلیوں اور گھروں میں آوازیں سنائی دینے لگیں…”رسول اللہ کے حکم پر ہم مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے …اب قریش کو ہم اپنے قدموں میں بٹھا کر دم لیں گے “
رسول اللہ نے مکہ پر حملے کی تیاری کا حکم دے دیا ۔
####