Episode 52 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 52 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

مدینہ میں مسلمانوں نے راتوں کو بھی سونا چھوڑ دیا۔ جدھر دیکھو تیر تیار ہورہے ہیں تیروں سے بھری ہوئی ترکشوں کے انبار لگتے جارہے تھے برچھیاں بن رہی تھیں۔ گھوڑے اور اونٹ تیار ہورہے تھے۔ تلواریں تیز ہورہی تھین نئی بن رہی تھی عورتیں اور بچے بھی جنگی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ رسول اکرم اور صحابہ کرام بھاگتے دوڑتے نظر آتے تھے ۔ 
مدینہ میں ایک گھر تھا جس کے اندر کچھ اور سرگرمی تھی ۔
وہ غیر مسلم گھرانہ تھا۔ وہاں ایک اجنبی آیا بیٹھا تھا۔ گھر میں ایک بوڑھا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر آدمی، ایک جوان لڑکی، ایک ادھیڑ عمر عورت اور دو تین بچے تھے ۔ 
”میں مسلمانوں کے ارادے دیکھ آیا ہوں “…اجنبی نے کہا …”ان کا ارادہ ہے کہ مکہ والو کو بے خبری میں جالیں۔ بلاشک و شبہ محمد جنگی چالوں کا ماہر ہے ۔

(جاری ہے)

اس نے جو کہا ہے وہ کرکے دکھا دے گا “

”ہم کیا کرسکتے ہیں؟“…بوڑھے نے پوچھا ۔
 
”میرے بزرگ!“…اجنبی نے کہا …”ہم اور کچھ نہیں کرسکتے لیکن ہم مکہ والوں کو خبردار کرسکتے ہیں کہ تیار رہو اور ادھر ادھر کے قبیلوں کو اپنے ساتھ ملا لو اور مکہ کے راستے میں کہیں گھات لگاکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑو۔ مکہ پہنچے تک ان پرشب خون مارتے رہو۔ مسلمان جب مکہ پہنچیں گے تو ان کا دم خم ٹوٹ چکا ہوگا “
”قسم اس کی جسے میں پوجتا ہوں “…بوڑھے نے جوشیلی آواز میں کہا …”تم عقل والے ہو۔
تم خدائے یہودہ کے سچے پجاری ہو ۔ خدائے یہودہ نے تمہیں عقل و دانش عطا کی ہے ۔ کیا تم مکہ نہیں جاسکتے؟“
”نہیں“…اجنبی نے کہا …”مسلمان ہر غیر مسلم کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں میں یہودی ہوں۔ وہ مجھ پر شک کریں گے …میں اپنی جان پر کھیل جاؤں گا مجھے ان یہودیوں کے خون کا انتقام لینا ہے جنہیں مسلمانوں نے قتل کیا تھا۔
میری رگوں میں بنو قریظہ کا خون دوڑ رہا ہے یہ میرا فرض ہے کہ میں مسلمانوں کو ضربیں لگاتا رہوں۔ اگر میں اپنا یہ فرض ادا نہ کروں تو خدائے یہودہ مجھے اس کتے کی موت مارے جس کے جسم پر خارش اور پھوڑے ہوتے ہین اور وہ تڑپ تڑپ کر مرتا ہے لیکن میں نہیں چاہتا کہ میں پکڑا جاؤں۔ میں مسلمانوں کو ڈنک مارنے کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہوں “
”میں بوڑھا ہوں “…بوڑھے نے کہا …”مکہ دور ہے ۔
گھوڑے یا اونٹ پر اتنا تیز سفر نہیں کرسکوں گا کہ مسلمانوں سے پہلے مکہ پہنچ جاؤں۔ یہ کام بچوں اور عورتوں کا بھی نہیں۔ میرا بیٹا ہے مگر بیمار ہے “
”اس انعام کو دیکھو جو ہم تمہیں دے رہے ہیں “…اجنبی یہودی نے کہا …”یہ کام کردو، انعام کے علاوہ ہم تمہیں اپنے مذہب میں شامل کرکے اپنی حفاظت میں لے لیں گے “
”کیا یہ کام میں کرسکتی ہوں ؟“…ادھیڑ عمر عورت نے کہا …”تم نے میری اونٹنی نہیں دیکھی۔
تم نے مجھے اونٹنی کی پیٹھ پر کبھی نہیں دیکھا؟اتنی تیز اونٹنی مدینہ میں کسی کے پاس نہیں “
”ہاں!“…یہودی نے کہا …”تم یہ کام کرسکتی ہو۔ اونٹوں اور بکریوں کو باہر لے جاؤ۔ تمہاری طرف کوئی دھیان نہیں دے گا ۔ تم انہیں چرانے کے لیے ہر روز لے جاتی ہو ۔ آج بھی لے جاؤ اور مدینہ سے کچھ دور جاکر اپنی اونٹنی پر سوار ہوجاؤ “…اس نے ایک کاغذ اس عورت کو دیتے ہوئے کہا …”اسے اپنے سر کے بالوں میں چھپالو۔
اونٹنی کو دوڑاتی لے جاؤ اور مکہ میں ابو سفیان کے گھر جاؤ اور بالوں میں سے یہ کاغذ نکال کر اسے دے دو “
”لاؤ“…عورت نے کاغذ لے کر کہا …”پورا انعام میرے دوسرے ہاتھ پر رکھ دو اور اس یقین کے ساتھ میرے گھر سے جاؤ کہ مسلمان مکہ سے واپس آئیں گے تو ان کی تعداد آدھی بھی نہیں ہوگی اور ان کے سر جھکے ہوئے ہوں گے اور شکست ان کے چہروں پر لکھی ہوئی ہوگی “
یہودی نے سونے کے تین ٹکڑے عورت کو دیے اور بولا …”یہ اس انعام کا نصف ہے جو ہم تمہیں اس وقت دیں گے جب تم یہ پیغام ابو سفیان کے ہاتھ میں دے کر واپس آجاؤ گی “
”اگر میں نے کام کردیا اور زندہ واپس نہ آسکی ؟“
”باقی انعام تمہارے بیمار خاندکو ملے گا “…یہودی نے کہا …
###
یہ عورت(کسی بھی تاریخ میں نام نہیں دیا گیا ) اپنے اونٹ اور بکریاں چرانے کے لیے لے گئی۔
انہیں وہ ہانکتی لے جارہی تھی کسی نے بھی نہ دیکھا کہ اونٹوں کی پیٹھیں ننگی تھیں لیکن ایک اونٹنی سواری کے لیے تیار کی گئی تھی ۔ اس کے ساتھ پانی کا مشکیرزہ اور ایک تھیلا بھی بندھا ہوا تھا۔ عورت اس ریوڑ کو شہر سے دور لے گئی ۔ 
بہت دیر گزر گئی تو یہودی نے اس جوان لڑکی کو جو گھر میں تھی، کہا…”وہ جاچکی ہوگی۔ تم جاؤ اور اونٹوں اور بکریوں کو شام کے وقت واپس لے آنا “
وہ لڑکی ہاتھ میں گڈریوں والی لاٹھی لے کر باہر نکل گئی لیکن وہ شہر سے باہر جانے کی بجائے شہر کے اندر چلی گئی ۔
وہ اس طرح ادھر ادھر دیکھتی جارہی تھی جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو ۔ وہ گلیوں میں سے گزری اور ایک میدان میں جارکی۔ وہاں بہت سے مسلمان ڈھالیں اور تلواریں لیے تیغ زنی کی مشق کر رہے تھے ۔ ایک طرف شتر دوڑ ہورہی تھی ۔ تماشائیوں کا بھی ہجوم تھا۔ 
لڑکی اس ہجوم کے ارد گرد گھومنے لگی ۔ وہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے جو بڑھتے جارہے تھے ۔
اس کے قدم تیزی سے اٹھنے لگے ایک جواں سال آدمی نے اسے دیکھ لیا اور بڑی تیز چلتا اس کے پیچھے گیا۔ قریب پہنچ کر اس نے دھیمی سی آوا زمیں کہا …”زاریہ لڑکی نے چونک پر پیچھے دیکا اور اس کے چہرے سے پریشانی کا تاثر اڑ گیا “
”وہیں آجاؤں “…زاریہ نے کہا اور وہ دوسری طرف چلی گئی ۔ 
زاریہ کو وہاں پہنچتے خاصا وقت لگ گیا جہاں وہ عورت اونٹوں اور بکریوں کو لے جایا کرتی تھی ۔
اونٹ اور بکریاں وہیں تھیں ، وہ عورت اور اس کی اونٹنی وہاں نہیں تھی۔ زاریہ وہاں اس انداز سے بیٹھ گئی جیسے بکریاں چرانے آئی ہو۔ وہ بار بار اٹھتی اور شہر کی طرف دیکھتی تھی ۔ اسے اپنے طرف کوئی آتا نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ ایک بار پھر پریشان ہونے لگی ۔ 
سورج ڈوبنے کے لیے افق کی طرف جارہا تھا جب وہ آتا دکھائی دیا۔ زاریہ نے سکون کی آہ بھری اور بیٹھ گئی ۔
 
”اوہ عبید!“…زاریہ نے اسے اپنے پاس بٹھا کر کہا …”تم اتنی دیر سے کیوں آئے ہو ۔ میں پریشان ہورہی ہوں“
”کیا میں نے تمہیں پریشانی کا علاج بتایا نہیں ؟“…عبید نے کہا …”میرے مذہب میں آجاؤ اور تمہاری پریشانی ختم ہوجائے گی ۔ جب تک تم اسلام قبول نہیں کرتیں میں تمہیں اپنی بیتی نہیں بناسکتا ۔ سوچو زاریہ سوچو۔ ہم کب تک اس طرح چھپ چھپ کر ملتے رہیں گے“
”یہ باتیں پھر کرلیں گے “…زاریہ نے کہا …”میری محبت مذہب کی پابند نہیں میں تمہاری ہی پوجا کرتی ہوں خوابوں میں بھی تمہیں ہی دیکھتی ہوں لیکن آج میرے دل پر بوجھ آپڑا ہے ،۔
”کیسا بوجھ؟“
”مسلمان مکہ پر حملہ کرنے جارہے ہیں “…زاریہ نے کہا …”تم نہ جاؤ عبید!تمہیں اپنے مذہب کے قسم ہے نہ جانا …کہیں ایسا نہ ہو …“
”مکہ والوں میں اتنی جان نہیں رہی کہ ہمارے مقابلے میں جم سکیں “…عبید نے کہا …”لیکن زاریہ!ان میں جان ہو نہ ہو، مجھے اگر میرے رسول آگ میں کود جانے کا حکم دیں گے تو میں آپ کا حکم مانو ں گا …دل پر بوجھ نہ ڈالو زاریہ ہمارا یہ حملہ ایسا ہوگا کہ انہیں اس وقت ہماری خبر ہوگی جب ہماری تلواریں ان کے سروں پر چمک رہی ہوں “
”ایسا نہیں ہوگا عبید!“…زاریہ نے پریشانی اور جذبات کی شدت سے عبید کا سر اپنے سینے سے لگا کر کہا …”ایسا نہیں ہوگا۔
وہ گھات میں بیٹھے ہوں گے ۔ آج رات کے پچھلے پہر یا کل صبح ابو سفیان کو پیغام مل جائے گا کہ مسلمان تمہیں بے خبری میں دبوچنے کے لیے آرہے ہیں…تم نہ جانا عبید!قریش اور ان کے دوست قبیلے تیار ہوں گے “
”کیا کہہ رہی ہو زاریہ؟“…عبید نے بدک کر اپنا سر اس کے سینے سے ہٹاتے ہوئے پوچھا …”ابوسفیان کو کس نے پیغام بھیجا ہے ؟“
”ایک یہودی نے “…زاریہ نے کہا …”اور پیغام میرے بڑے بھائی کی بیوی لے کر گئی ہے ۔
میری محبت کا اندازہ کرو عبید! میں نے تمہیں وہ راز دے دیا ہے جو مجھے نہیں دینا چاہیے تھا یہ صرف اس لیے دیا ہے کہ تم کسی بہانے رک جاؤ۔ قریش اور دوسرے قبیلے مسلمانوں کا کشت و خون کریں گے کہ کوئی قسمت والا مسلمان زندہ واپس آئے گا “
عبید نے اس سے پوچھ لیا کہ اس کے بھائی کی بیوی کس طرح اور کس وقت روانہ ہوئی ہے عبید اٹھ کھڑا ہوا اور زاریہ جیسی حسین اور نوجوان لڑکی اور اس کی والہانہ محبت کو نظر انداز کرکے شہر کی طرف دوڑ پڑا۔ اسے زاریہ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں…”عبید…رک جا عبید“…اور عبید زاریہ کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ 
####

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط