Episode 53 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 53 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری تفصیل سے بتادیا گیا کہ ایک عورت بڑی تیز رفتاراونٹنی پر ابوسفیان کے نام پیغام اپنے بالوں میں چھپا کر لے گئی ہے ۔ اسے ابھی راستے میں ہونا چاہیے تھا۔ رسول کریم نے اسی وقت حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس عورت اور اس کی اونٹنی کی نشانیاں بتائیں اور انہیں اس عورت کو راستے میں پکڑنے کو بھیج دیا۔
 
حضرت علی اور حضرت زبیر کے گھوڑے عربی نسل کے تھے۔ انہوں نے اسی وقت گھوڑے تیار کیے اور ایڑیں لگادیں۔ اس وقت سورج غروب ہورہا تھا ۔ دونوں شاہسوار مدینہ سے دور نکل گئے تو سورج غروب ہوگیا۔ 
اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو حضرت علی اور حضرت زبیر کے گھوڑے مدینہ میں داخل ہوئے ان کے درمیان ایک اونٹنی تھی جس پر ایک عورت سوار تھی ۔

(جاری ہے)

مدینہ کے کئی لوگوں نے اس عورت کو پہچان لیا۔ اسے رسول کریم کے پاس لے گئے اس کے بالوں سے جو پیغام نکالا گیا تھا وہ حضور کے حوالے کیا گیا۔ آپ نے پیغام پڑھا تو چہرہ لال ہوگیا۔ یہ بڑا ہی خطرناک پیغام تھا۔ اس عورت نے اقبال جرم کرلیا اور پیغام دینے والے یہودی کا نام بھی بتادیا۔ رسول اکرم نے اس عورت کو سزائے موت دے دی لیکن یہودی اس کے گھر سے غائب ہوگیا تھا …اگر یہ پیغام مکہ پہنچ جاتا تو مسلمانوں کا انجام بہت برا ہوتا۔
مکہ پر فوج کشی کی قیادت رسول اللہ فرمارہے تھے ۔ 
رسول اللہ نے تیاریوں کا جائزہ لیا اور کوچ کا حکم دے دیا ۔ 
اس اسلامی لشکر کی تعداد دس ہزار پیادہ اور سوار تھی ۔ اس لشکر میں مدینہ کے ارد گرد کے وہ قبیلے بھی شامل تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے ۔ مورخین نے لکھا ہے کہ یہ لشکر مکہ جارہا تھا تو راستے میں دو تین قبیلے اس لشکر میں شامل ہوگئے۔
تقریباً تمام مسلم اور غیر مسلم مورخوں نے لکھا ہے کہ رسول خدا کی قیادت میں اس لشکر کی پیش قدمی غیر معمولی طور پر تیز تھی اور یہ مسلمانوں کا پہلا لشکر تھا جس کی نفری دس ہزار تک پہنچی تھی ۔ 
یہ لشکر مکہ کے شمان مغرب میں ایک وادی مرّالظہر میں پہنچ گیا جو مکہ سے تقریباً دس میل دور ہے اس وادی کا ایک حصہ وادی فاطمہ کہلاتا ہے رسول اکرم اس مقصد میں کامیاب ہوچکے تھے کہ اہل مکہ کو اسلامی لشکر کی آمد کی خبر نہ ہو۔
اب خبر ہوبھی جاتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ اب قریش دوسرے قبیلوں کو مدد کے لیے بلانے نہیں جاسکتے تھے ۔ رسول کریم نے کسی نہ کسی بہروپ میں اپنے آدمی مکہ کے قریب گردونواح میں بھیج دیے تھے ۔ 
###
تھوڑی دیر آرام کرکے اسلامی لشکر مکہ کی طرف چل پڑا۔ جعفہ ایک مقام ہے جہاں لشکر کا ہراول دستہ پہنچا تو مکہ کی طرف سے چھوٹا سا ایک قافلہ آتا دکھائی دیا۔
اسے قریب آنے دیا گیا ۔ دیکھا وہ قریش کا ایک سرکردہ آدمی عباس تھا جو اپنے پورے خاندان کو ساتھ لیے مدینہ کو جارہا تھا ۔ یہ وہ شخص تھا جس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے تاریخ اسلام میں شہرت حاصل کی ۔ انہیں رسول اکرم کے حضور لے جایا گیا ۔ آپ انہیں اچھی طرح جانتے تھے ۔ 
”کیوں عباس“…رسول اکرم نے کہا …”کیا تو اس لیے مکہ سے بھاگ نکلا ہے کہ مکہ پر قیامت ٹوٹنے والی ہے“
”خدا کی قسم، مکہ والوں کو خبر ہی نہیں کہ محمد کا لشکر ان کے سر پر آگیا ہے “…عباس نے کہا …”اور میں تیری اطاعت قبول کرنے مدینہ کو جارہا تھا ۔
”میری نہیں عباس “…رسول خدا نے کہا …”اطاعت اس اللہ کی قبول کر جو واحدہ لاشریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے میں اس کا بھیجا ہوا رسول ہوں “
حضرت عباس نے اسلام قبول کرلیا۔ رسول کریم نے انہیں گلے لگالیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسرت اس سے ہوئی کہ اہل قریش مکہ میں بے فکر اور بے غم بیٹھے تھے ۔ 
حضرت عباس نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے رسول اللہ سے کہا کہ اہل قریش آخر ہمارا اپنا خون ہے ۔
دس ہزار کے اس لشکر کے قدموں میں قریش کے بچے اور عورتیں بھی کچلی جائیں گی ۔ عباس نے رسول اللہ کو یہ بھی بتایا کہ قریش میں اسلام کی قبولیت کی ایک لہر پیدا ہوگئی ہے ۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ انہیں صلح کا ایک موقع دے دیا جائے ؟
رسول اکرم نے عباس سے کہا کہ وہی مکہ جائیں اور ابوسفیان سے کہیں کہ مسلمان مکہ پر قبضہ کرنے آرہے ہیں اگر اہل مکہ نے مقابلہ کیا تو کسی کو زندہ نہیں چھوڑا جائے گا مکہ شہر مسلمانوں کے حوالے کردیا جائے ۔
 
رسول اکرم نے عباس کو نہ صرف مکہ جانے کی اجازت دی بلکہ انہیں اپنا خنجر بھی دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کے علاوہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ۔ 
###
ابو سفیان مدینہ سے جو تاثر لے کر گیا تھا وہ اس کے لئے بڑا ہی ڈراؤنا اور خطرناک تھا۔ وہ تجربہ کار آدمی تھا اور وہ مسلمانوں کی شجاعت اور عزم کی پختگی سے بھی واقف تھا اسے ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ مسلمان مکہ پر حملہ کریں گے اس کی بیوی ہند، اس کے سالار عکرمہ اور صفوان اس کا حوصلہ بڑھاتے رہتے تھے لیکن اسے اپنے ذاتی وقار کی اور اپنے قبیلے کی تباہی نظر آرہی تھی وہ ہر وقت بے چین رہنے لگا تھا ۔
 
ایک روز وہ اس قدر بے چین ہوا کہ گھوڑے پر سوار ہوکر مکہ سے باہر چلا گیا ۔ اس کی کوئی حس اسے بتارہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے ۔ اس کے دل پر گھبراہٹ طاری ہوتی چلی گئی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا کہ ہوگا یہی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آجائیں گے ۔ یہ سوچ کر وہ یہ دیکھنے کے لیے مدینہ کے راستے پر ہولیا کہ مدینہ کی فوج آ تو نہیں رہی ؟اسے ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے ہوا کی بو بھی بدلی بدلی سی ہو ۔
 
وہ ان سوچوں میں گم مکہ سے چند میل دور نکل گیا ۔ اسے عباس ایک خچر پر سوار اپنی طرف آتے دکھائی دیے۔ وہ رک گیا ۔ 
”عباس!“…اس نے پوچھا …”تم اپنے پورے خاندان کے ساتھ نہیں گئے تھے ؟واپس کیوں آگئے ہو ؟“
”میرے خاندان کی مت پوچھ ابوسفیان!“…عباس نے کہا …”مسلمانوں کے دس ہزار پیادوں گھوڑ سواروں اور شتر سواروں کا لشکر مکہ کے اتنا قریب پہنچ چکا ہے جہاں سے چھوڑے ہوئے تیر مکہ کے دروازوں میں لگ سکتے ہیں۔
کیا تو مکہ کو اس لشکر سے بچاسکتا ہے ۔ کسی کو مدد کے لیے بلاسکتا ہے تو ؟صلح کا معاہدہ تیرے سالاروں نے توڑا ہے ۔ محمد جسے میں اللہ کا رسول مان چکا ہوں سب سے پہلے تجھے قتل کرے گا۔ اگر تو میرے ساتھ رسول اللہ کے پاس چلا چلے تو میں تیری جان بچاسکتا ہوں “
”خدا کی قسم، میں جانتا تھا مجھ پر یہ وقت بھی آئے گا “…ابوسفیان نے کہا …”چل میں تیرے ساتھ چلتا ہوں “
###
شام کے بعد عباس ابوسفیان کو ساتھ لیے مسلمانوں کے پڑاؤ میں داخل ہوئے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیمپ کے پہرے داروں کو دیکھتے پھر رہے تھے ۔ انہوں نے ابوسفیان کو دیکھا تو آگ بگولا ہوگئے ۔ کہنے لگے کہ اللہ کے دین کا یہ دشمن ہمارے پڑاؤ میں رسول اللہ کی اجازت کے بغیر آیا ہے ۔ عمر رسول اللہ کے خیمے کی طرف دوڑ پڑے۔ وہ ابو سفیان کے قتل کی اجازت لینے گئے تھے لیکن عباس بھی پہنچ گئے ۔ رسول اکرم نے انہیں صبح آنے کو کہا ۔
عباس نے ابو سفیان کو رات اپنے پاس رکھا۔ 
”ابوسفیان!“صبح رسول کریم نے ابوسفیان سے پوچھا …”کیا تو جانتا ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور وہی معبود ہے اور وہی ہم سب کا مددگار ہے ؟“
”میں نے یہ ضرور مان لیا ہے کہ جن بتوں کی عبادت میں کرتا رہا ہوں وہ بتوں کے سوا کچھ بھی نہیں“…ابوسفیان نے کہا …”وہ میری کوئی مدد نہیں کرسکے “
”پھر یہ کیوں نہیں مان لیتا کہ میں اس اللہ کا رسول ہوں جو معبود ہے ۔
“…رسول کریم نے پوچھا …”میں شاید یہ نہ مانوں کہ تم اللہ کے رسول ہو “…ابوسفیان ہاری ہوئی سی آواز میں بولا۔ 
”ابوسفیان!“…عباس نے قہر بھری آواز سے کہا …”کیا تو میری تلوار سے اپنا سر تن سے جدا کرانا چاہتا ہے؟“عباس نے رسول کریم سے کہا …”یارسول اللہ !ابوسفیان ایک قبیلے کا سردار ہے ۔ باوقار اور خوددار بھی ۔ یہ ملتجی ہوکے آیا ہے۔
ابوسفیان پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس نے بے اختیار کہا…”محمد اللہ کے رسول ہیں …میں نے تسلیم کرلیا…میں نے مان لیا۔ “
”جاؤ“…رسول کریم نے کہا …”مکہ میں اعلان کردو کہ مکہ کے وہ لوگ مسلمانوں کی تلواروں سے محفوظ رہیں گے جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائیں گے اور وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو مسجد میں داخل ہوجائیں گے اور وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو اپنے دروازے بند کرکے اپنے گھروں میں رہیں گے “
ابوسفیان اسی وقت مکہ کو روانہ ہوگیا اور رسول اکرمنے صحابہ کرام کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال شروع کردیا کہ مکہ میں عکرمہ اور صفوان جیسے ماہر اور دلیر سالار موجود ہیں وہ مقابلہ کیے بغیر مکہ پر قبضہ نہیں ہونے دیں گے ۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط