اونٹ بہت تیز دوڑا آرہا تھا۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچا تو اس کے سوار نے چلانا شروع کردیا…”عزیٰ اور ہبل کی قسم، مدینہ والوں کا لشکر مراالظہر میں پڑاؤ کیے ہوئے ہے اور میں نے اپنے سردار ابوسفیان کو وہاں جاتے دیکھا ہے …اہل قریش! ہوشیار ہوجاؤ۔ محمد کا لشکر آرہا ہے “…اس نے اونٹ کو روکا اور اسے بٹھا کر اترنے کی بجائے اس کی پیٹھ سے کود کر اترا ۔
اس کی پکار جس نے سنی وہ دوڑا آیا۔ وہ گھبراہٹ کے عالم میں یہی کہے جارہا تھا کہ مدینہ کا لشکر مرا الظہر تک آن پہنچا ہے اور ابوسفیان کو اس لشکر کے پڑاؤ کی طرف جاتے دیکھا ہے ۔ مکہ کے لوگ اس کے ارد گرد اکٹھے ہوتے چلے گئے۔
”ابوحسنہ!“…ایک معمر آدمی نے اسے کہا…”تیرا دماغ صحیح نہیں یا تو جھوٹ بول رہا ہے ۔ “
”میری بات کو جھوٹ سمجھو گے تو اپنے انجام کو بہت جلدی پہنچ جاؤ گے “شترسوار ابوحسنہ نے کہا …”کسی سے پوچھو ہمارا سردار ادھر کیوں گیا ہے ؟“…اس نے پھر چلانا شروع کردیا…”اے قبیلہ قریش! مسلمان اچھی نیت سے نہیں آئے “
ابوحسنہ کا واویلا مکہ کی گلیوں سے ہوتا ہوا ابوسفیان کی بیوی ہند کے کانوں تک پہنچا۔
(جاری ہے)
وہ آگ بگولہ ہوکے باہر ٓائی اور اس ہجوم کو چیرنے لگی جس نے ابوحسنہ کو گھیر رکھا تھا ۔
”ابوحسنہ!“…اس نے ابو حسنہ کا گریبان پکڑ کر کہا …”میری تلوار محمد کے خون کی پیاسی ہے تو میری تلوار سے اپنی گردن کٹوانے کیوں آگیا ہے ۔ کیا تو نہیں جانتا کہ جس پر تو جھوٹا الزام تھوپ رہا ہے وہ میرا شوہر اور قبیلے کا سردار ہے ؟“
”اپنی تلوار گھر سے لے آ خاتون!“…ابوحسنہ نے کہا …”لیکن تیرا شوہر آجائے تو اس سے پوچھنا وہ کہاں سے آیا ہے “
”اور تو کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لیکر آیا ہے َ؟“…ہند نے پوچھا ۔
”خدا کی قسم !“…ابوحسنہ نے کہا …”میں وہ کہتا ہوں جو میں نے دیکھا ہے “
”اگر تو سچ کہتا ہے تو مسلمانوں کو موت ادھر لے آئی ہے “…ہند نے کہا …
ابوسفیان واپس آرہا تھا ۔
###
اہل مکہ ایک میدان میں جمع ہوچکے تھے ۔ رسول کریمﷺ کی پیش قدمی اب راز نہیں رہ گئی تھی لیکن اب کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ اہل قریش اب کسی کو مدد کے لیے نہیں بلاسکتے تھے ابوسفیان آرہا تھا۔
لوگوں پر خاموشی طاری ہوگئی۔ ابو سفیان کی بیوی ہند لوگوں کو دائیں بائیں دھکیلتی آگے چلی گئی۔ اس کے چہرے پر قہر اور غضب تھا اور اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے ابوسفیان نے لوگوں کے سامنے آکر گھوڑا روکا۔ اس نے اپنی بیوی کی طرف توجہ نہ دی۔
”اہل قریش!“…ابوسفیان نے بلند آواز سے کہا …”پہلے میری بات ٹھنڈے دل سے سن لینا، پھر کوئی اور بات کہنا۔
میں تمہارا سردار ہوں مجھے تمہارا وقار عزیز ہے …محمد اتنا زیادل لشکر لے کر آیا ہے جس کے مقابلے میں تم قتل ہونے کے سوا کچھ نہیں کرسکو گے ۔ اپنی عورتوں کو بچاؤ، اپنے بچوں کو بچاؤ ۔ قبول کرلو ں حقیقت کو جو تمہارے سر پر آگئی ہے ۔ تمہارے لیے بھاگ جانے کا بھی کوئی راستہ نہیں رہا “
”ہمیں یہ بتا ہمارے سردار، ہم کیا کریں ؟“…لوگوں میں سے کسی کی آواز آئی ۔
”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں “…ابوسفیان نے کہا ۔
”خدا کی قسم، مسلمان ہمیں پھر بھی نہیں بخشیں گے “…ایک اور آواز اتھی۔ …”وہ اپنے مقتولوں کا بدلہ لیں گے ۔ وہ سب سے پہلے تمہیں قتل کریں گے ۔ احد میں تمہاری بیوی نے ان کی لاشوں کو چیرا پھاڑا تھا ۔ “
ہند الگ کھڑی پھنکار رہی تھی ۔
”میں تم سب کی سلامتی کی ضمانت لے آیاہوں “…ابوسفیان نے کہا …”میں محمد سے مل کر آرہا ہوں ۔ اس نے کہا ہے کہ تم میں سے جو میرے گھر میں آجائیں گے وہ مسلمانوں کے جبروتشدد سے محفوظ رہیں گے “
”کیا مکہ کے سب لوگ تمہارے گھر میں سماسکتے ہیں ؟“…کسی نے پوچھا ۔
”نہیں “…ابوسفیان نے کہا …”محمد نے کہا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے اور ان کے دروازے بند رہیں گے ان پر بھی مسلمان ہاتھ نہیں اٹھائیں گے …اور جو لوگ خانہ خدا کے اندر چلے جائیں گے ، ان کو بھی مسلمان اپنا دوست سمجھیں گے ۔
وہ دشمن صرف اسے جائیں گے جو ہتھیار لے کر باہر آئے گا “…ابوسفیان گھوڑے سے اتر آیا اور بولا …”تمہاری سلامتی اسی میں ہے ، تمہاری عزت اسی میں ہے کہ تم دوستوں اور بھائیوں کی طرح ان کا استقبال کرو “
”ابوسفیان!“…قریش کے مشہور سالار عکرمہ نے للکار کر کہا …”ہم اپنے قبیلے کے قاتلوں کا استقبال تلواروں اور برچھیوں سے کریں گے “
”ہمارے تیر ان کا استقبال مکہ سے دور کریں گے “…قریش کے دوسرے دلیر اور تجربہ کار سالار صفوان نے کہا …”ہمیں اپنے دیوتاؤں کی قسم، ہم دروازے بند کرکے اپنے گھروں میں بند نہیں رہیں گے “
”حالات کو دیکھو عکرمہ!“…ابوسفیان نے کہا …”ہوش کی بات کرو صفوان ! وہ ہم میں سے ہیں۔
آج خالد محمد کے ساتھ جاملا ہے تو مت بھول کہ اس کی بہن فاختہ تمہاری بیوی ہے ۔ کیا تو اپنی بیوی کے بھائی کو قتل کرے گا …کیا تجھے یاد نہیں کہ میری بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہے کیا تو یقین نہیں کرے گا کہ میں اپنے قبیلے کی عزت اور ناموس کی خاطر مدینہ گیا تو میری اپنی بیٹی نے میری بات سننے سے انکار کردیا تھا۔
میں محمد کے گھر میں چارپارئی پر بیٹھنے لگا تو ام حبیبہ نے میرے نیچے سے چارپائی پر بچھائی ہوئی چادر کھینچ لی تھی …باپ اپنی بیٹی کا دشمن نہیں ہوسکتا صفوان!“
مکہ کے لوگوں میں عکرمہ اورصفوان اور دو تین اور آدمیوں کے سوا کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔ مورخوں نے لکھا ہے کہ قبیلہ قریش کی خاموشی ظاہر کرتی تھی کہ ان لوگوں نے ابوسفیان کا مشورہ قبول کرلیا ہے ۔
ْ ابوسفیان کے چہرے پر اطمینان کا تاثر آگیا مگر اس کی بیوی ہند جو الگ کھڑی پھنکار رہی تھی تیزی سے ابوسفیان کی طرف بڑھی اور اس کی مونچھیں جو خاصی بڑی تھی، اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑلیں۔
”میں سب سے پہلے تجھے قتل کردوں گی“…ہند نے ابوسفیان کی مونچھیں زور زور سے کھینچتے ہوئے کہا …”بزدل بوڑھے! تو نے قبیلے کی عزت خاک میں ملادی ہے “…اس نے ابوسفیان کی مونچھیں چھوڑ کر اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مارا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر بولی …”تم لوگ اس بوڑھے کو قتل کیوں نہیں کر دیتے جو تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار کرنے کی باتیں کر رہا ہے ۔
“
مورخ مغازی اور ابن سعد لکھتے ہیں کہ ہند نے اپنے خاوند کے ساتھ اتنا توہین آمیز سلوک کیا تو لوگوں پر سناٹا طاری ہوگیا۔ ابوسفیان جیسے بت بن گیا ہو۔ عکرمہ اور صفوان ان کے درمیان آگئے ۔
”ہم لڑیں گے ہند !“…صفوان نے کہا …”اسے جانے دے۔ اس پر محمد کا جادو چل گیا ہے ۔ “
ابوسفیان خاموش رہا ۔
شام تک اہل قریش دو حصوں میں بٹ چکے تھے۔ زیادہ تر لوگ لڑنے کے حق میں نہیں تھے۔ باقی سب عکرمہ، صفوان اور ہند کا ساتھ دے رہے تھے ۔
###