شام کے بعد صفوان اپنے گھر گیا اس کی بیوی جس کا نام فاختہ تھا ۔ خالد بن ولید کی بہن تھی وہ بھی ابوسفیان کی باتیں سن چکی تھی ۔
”کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ تم اپنے قبیلے کے سردار کی نافرمانی کر رہے ہو ؟“…فاختہ نے صفوان سے پوچھا۔
”اگر فرمانبرداری کرتا ہوں تو پورے قبیلے کا وقار تباہ ہوتا ہے “…صفوان نے کہا …”قبیلے کا سردار بزدل ہوجائے تو قبیلے والوں کو بزدل نہیں ہونا چاہیے۔
سردار اپنے قبیلے کے دشمن کو دوست بنالے تو وہ قبیلے کا دوست نہیں ہوسکتا “
”کیا تم مسلمانوں کا مقابلہ کرو گے ؟“…فاختہ نے پوچھا ۔
”تو کیا تم یہ پسند کرو گی کہ تمہارا شوہر اپنے گھر کے دروازے بند کرکے اپنی بیوی کے پاس بیٹھ جائے اور دشمن اس کے دروازے کے سامنے دندناتا پھرے؟کیا میرے بازو ٹوٹ گئے ہیں…کیا میری تلوار ٹوٹ گئی ہے …کیا تم اس لاش کو پسند نہیں کرو گی جو تمہارے گھر میں لائی جائے گی اور سارا قبیلہ کہے گا کہ یہ ہے تمہارے خاوند کی لاش جو بڑی بہادری سے لڑتا ہوا مار ا گیا ہے …یا تم اس شوہر کو پسند کرو گی جو تمہارے پاس بیٹھا رہے گا اور لوگ تمہیں کہیں گے کہ یہ ہے ایک بزدل اور بے وقار آدمی کی بیوی جس نے اپنی بستی اور عبادت گاہ اپنے دشمن کے حوالے کردی ہے …تم مجھے کس حال میں دیکھنا پسند کرو گی ؟“
”میں نے تم پر ہمیشہ فخر کیا ہے صفوان!“…فاختہ نے کہا …”عورتیں مجھے کہتی ہیں کہ تمہارا خاوند قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے ۔
(جاری ہے)
لیکن اب حالات کچھ اور ہیں تمہارا ساتھ دینے والے بہت تھوڑے ہیں سنا ہے مدینہ والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اب میرا بھائی خالد رضی اللہ عنہ بھی اسن کے ساتھ ہے تم جانتے ہو وہ لڑنے مرنے والا آدمی ہے “
”کیا تم مجھے اپنے بھائی سے ڈرا رہی ہو فاختہ؟“
”نہیں“…فاختہ نے کہا …”مجھے خالد رضی اللہ عنہ مل جاتا تو میں اسے بھی یہی کہتی جو میں تمہیں کہہ رہی ہوں …وہ میرا بھائی ہے ۔
وہ تمہارے ہاتھ سے ماراجاسکتا ہے ۔ تم اس کے ہاتھ سے مارے جاسکتے ہو۔ تم ایک دوسرے کے مقابلے میں نہ آؤ۔ میں اس کی بہن اور تمہاری بیوی ہوں ۔ لاش تمہاری ہو یا خالد کی ، میرا غم ایک جیسا ہوگا ۔ “
”یہ کوئی عجیب بات نہیں فاختہ!“…صفوان نے کہا …”دشمنی ایسی پیدا ہوگئی ہے کہ باپ بیٹے کا اور بھائی بھائی کا دشمن ہوگیا ہے ۔ اگر میں تمہارے رشتے کا خیال رکھوں تو…“
”تم میرے رشتے کا خیال نہ رکھو “…فاختہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا …”قبیلے کا سردار تمہیں کہہ رہا ہے کہ لڑائی نہیں ہوگی۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاقت قبول کرلیں گے ۔ پھر تم لڑائی کا ارادہ ترک کیوں نہیں کردیتے؟تمہارے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہوں گے “
”میں اطاعت قبول کرنے والوں میں سے نہیں “…صفوان نے کہا …
”پھر میری ایک بات مان لو “…فاختہ نے کہا …”خالد کے سامنے نہ آنا ۔ اسے میری ماں نے جنم دیا ہے ۔ ہم دونوں نے ایک ماں کا دودھ پیا ہے وہ جہاں کہیں بھی ہے بہن یہی سننا چاہتی ہے کہ اس کا بھائی زندہ ہے …میں بیوہ بھی نہیں ہونا چاہتی صفوان!“
”پھر اپنے بھائی سے جاکے کہو کہ مکہ کے قریب نہ آئے “…صفوان نے کہا …”وہ میرے سامنے آئے گا تو ہمارے رشتے ختم ہوجائیں گے “
فاختہ کے آنسو صفوان کے ارادوں کو ذرا سا بھی متزلزل نہ کرسکے
###
رسول اکرم نے ایک اور انتظام کیا۔
انہوں نے چند ایک آدمی مختلف بہروپوں میں مکہ کے ارد گرد چھوڑ رکھے تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ مکہ سے کوئی آدمی باہر نکل کر کہیں جاتا نظر آئے تو اسے پکڑ لیں۔ جاسوسی کا یہ اہتمام اس لیے کیا گیا تھا کہ قریش اپنے دوست قبیلوں کو مدد کے لیے نہ بلاسکیں۔
دوسرے ہی دن دو شتر سواروں کو پکڑا گیا جو عام سے مسافر معلوم ہوتے تھے ۔ انہیں مسلمانوں کے پڑاؤ میں لے جایا گیا ۔
ایک دو دھمکیوں سے ڈر کر انہوں نے اپنی اصلیت ظاہر کردی۔ ان میں سے ایک یہودی تھا اور دوسرا قریش قبیلے کا ۔ وہ مکہ سے چند میل دور رہنے والے قبیلے بنوبکر کے ہاں یہ اطلاع لے کر جارہے تھے کہ مسلمان مرّا لظہر میں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں بنوبکر کو پیغام بھیجا جارہا تھا کہ وہ مسلمانوں پر شب خون ماریں اور دو اور قبیلوں کو بھی اپنے ساتھ ملالیں۔پیغام میں یہ بھی تھا کہ مسلمان مکہ کو محاصرے میں لیں تو بنوبکر اور دوسرے قبیلے عقب سے ان پر حملہ کردیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ مکہ میں لڑائی کی تیاریاں کس پیمانے پر ہورہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابوسفیان لڑائی نہیں چاہتا اور مکہ والوں کی اکثریت اس کے ساتھ ہے۔ صرف عکرمہ اور صفوان لڑیں گے لیکن ان کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی ہیں۔ ان دونوں آدمیوں کو ابوسفیان نے نہیں، عکرمہ اور صفوان نے بھیجا تھا ۔
رسول کریم نے اپنے سالاروں وغیرہ سے کہا کہ مکہ میں یہ فرض کرکے داخل ہواجائے گا کہ قریش شہر کے دفاع میں لڑیں گے ۔
آپ نے اپنی فوج کو چار حصوں میں تقسیم کیا۔ اس زمانے میں مکہ کی طرف چار راستے جاتے تھے جو مکہ کے ارد گرد کھڑی پہاڑیوں سے گزرتے تھے۔ فوج کے ہر حصے کو ایک ایک راستہ دے دیا گیا۔ انہیں اپنے اپنے راستے سے مکہ شہر کی طرف پیش قدمی کرنی تھی ۔
فوج کے ان حصوں میں ایک کی نفری سب سے زیادہ رکھی گئی ۔ اس کی کمان ابوعبیدہ کو دی گئی حضرت رسول کریم کو اس دستے کے ساتھ رہنا تھا۔
ایک حصے کی کمان علی کے پاس تھی۔ ایک کے کماندار زبیر تھے اور چوتھے حصے کی کمان خالد کے پاس تھی ۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ اس سکیم میں غیر معمولی دانش کار فرما تھی ۔ چار سمتوں سے پیش قدمی کا مقصد یہ تھا کہ مکہ کے دفاعی دستوں کو چار حصوں میں بکھیر دیا جائے ۔ اگر وہ مسلمانوں کی پیش قدمی کو کسی ایک یا دو راستوں پر روک بھی لیں تو دوسرے دستے آگے بڑھ کر شہر میں داخل ہوسکیں۔
اس کے علاوہ فوج کی اس تقسیم کا مقصد یہ بھی تھا کہ قریش اگر دفاع میں نہ لڑیں تو وہ کسی راستے سے بھاگ بھی نہ سکیں۔
رسول اکرم نے اس سکیم کے علاوہ جو احکام دیے، وہ یہ تھے کہ قریش دفاع میں نہ لڑیں تو ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ امن کا جواب پرامن طریقے سے دیا جائے۔ اگر کہیں جھڑپ ہوجائے تو زخمیوں کو قتل نہ کیا جائے بلکہ ان کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کی جائے۔ لڑنے والوں میں جو پکڑا جائے اس پر نہ تشدد کیا جائے نہ اسے قتل کیا جائے اور اسے جنگی قیدی بھی نہ سمجھا جائے اور ان میں سے کوئی بھاگ نکلے تو اسے بھاگ جانے دیا جائے ۔
اسلامی لشکر کے چاروں حصوں کو پیش قدمی کا حکم دے دیا گیا ۔
###