”یارسول اللہ “…خالد نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی …”میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہو ں “…کہاں تھا یہ بت؟…حضور اکرم نے پوچھا ۔
خالد نے وہ مندر اور اس کا وہ کمرہ بتایا جہاں انہوں نے بت دیکھا اور توڑا تھا ۔
”تم نے عزیٰ کا بت نہیں توڑا خالد “…رسول کریم نے کہا …”واپس جاؤ اور اصلی بت توڑ کر آؤ “
مورخ لکھتے ہیں کہ عزیٰ کے دو بت تھے ۔
ایک اصلی جس کی پوجا ہوتی تھی ۔ دوسرا نقلی تھا یہ غالباً مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
خالد کا خون کھولنے لگا ۔ انہوں نے اپنے سوارو ں کو ساتھ لیا اور نخلہ کو روانہ ہوگئے ۔ مندر کے پروہت نے دور سے گھوڑ سواروں کو آتے دیکھا تو اس نے مندر کے محافظوں کو بلایا۔
”وہ پھر آرہے ہیں “…پروہت نے کہا …”انہیں کسی نے بتادیا ہوگا کہ اصلی بت ابھی مندر میں موجود ہے …کیا تم عزیٰ کی عزت کی حفاظت کرو گے ؟اگر کرو گے تو عزیٰ دیوی تمہیں مالا مال کردے گی“
”کچھ سوچ کر بات کر مقدس پیشوا!“…ایک محافظ نے کہا …”کیا ہم دو تین آدمی اتنے زیادہ گھوڑ سواروں کا مقابلہ کرسکتے ہیں “
”اگر عزیٰ دیوی ہے تو یہ اپنے آپ کو ضرور بچالے گی“…اور ایک اور محافظ نے کہا …اس کے لہجے میں طنز تھا۔
(جاری ہے)
کہنے لگا …”دیوی دیوتا انسانوں کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔ انسان دیوتاؤں کی حفاظت نہیں کیا کرتے “
”پھر عزیٰ اپنی حفاظت خود کرے گی“…پروہت نے کہا ۔
خالد کے گھوڑے قریب آگئے تھے ۔ محافظ مندر کی پجارنوں کو ساتھ لے کر بھاگ گئے ۔ پروہت کو یقین تھا کہ اس کی دیوی اپنے آپ کو مسلمانوں سے بچالے گی۔ اس نے ایک تلوار لی اور اسے عزیٰ کے گلے میں لٹکادیا ۔
پروہت مندر کے پچھلے دروازے سے نکلا اور بھاگ گیا۔
خالد مندر میں آن پہنچے اور تمام کمروں میں عزیٰ کا بت ڈھونڈنے لگے۔ انہیں ایک بڑا ہی خوشنما کمرہ نظر آیا۔ اس کے دروازے میں کھڑے ہوکر دیکھا ۔ عزیٰ کا بت سامنے چبوترے پر رکھا تھا ۔اس کے گلے سے تلوار لٹک رہی تھی ۔ یہ بت ویسا ہی تھا جیسا خالد پہلے توڑ گئے تھے۔ اس بت کے قدموں میں لوبان جل رہا تھا۔
کمرے کی سجاوٹ اور خوشبو سے پتہ چلتا تھا کہ یہ عبادت کا کمرہ ہے۔
خالد نے دہلیز سے آگے قدم رکھا تو سانولے رنگ کی ایک جوان عورت جو بالکل برہنہ تھی خالد کے سامنے آن رکی ۔ وہ رورہی تھی اور فریادیں کرتی تھی کہ بت کو نہ توڑا جائے ۔ مورخ لکھتے ہیں کہ یہ عورت خالد کے ارادے کو متزلزل کرنے کے لیے برہنہ ہوکے آئی تھی اور اس کے رونے کا مقصد خالد کے جذبات پر اثر ڈالنے کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا ۔
خالد آگے بڑھے تو اس عورت نے بازو پھیلا کر خالد کا راستہ روک لیا ۔ خالد نے نیام سے تلوار نکالی اور اس عورت پر ایسا زور دار وار کیا کہ اس کا ننگا جسم دو حصوں میں کٹ گیا ۔ خالد غصے سے بپھرے ہوئے بت تک گئے اور اس کے کئی ٹکڑے کردیے …طاقت اور خوشحالی کی دیوی اپنے آپ کو ایک انسان سے نہ بچاسکی ۔
خالد مندر سے نکل کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور ایڑ لگائی ۔
ان کے سوار ان کے پیچھے جارہے تھے مکہ پہنچ کر خالد رسول اکرم کے حضور پہنچے ۔
”یارسول اللہ !“…خالد نے کہا …”میں عزیٰ کا بت توڑ آیا ہوں “
”ہاں خالد !“…رسول اللہ نے کہا …”اب تم نے عزیٰ کا اصلی بت توڑا ہے ۔ اب اس خطے میں بت پرستی نہیں ہو گی“
####
قریش کا مشہور اور جوشیلا سالار عکرمہ مکہ کے راستے میں خالد کے خلاف آخری معرکہ لڑ کر روپوش ہوگیا تھا۔
اس نے اور صفوان نے اپنے قبیلے کے سردار کی حکم عدولی کی تھی۔ اسے اپنا انجام بہت برا نظر آرہا تھا ۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ رسول کریم اس کی یہ خطا نہیں بخشیں گے کہ اس نے اسلامی فوج کے ایک دستے پر حملہ کیا اور اس دستے کے دو آدمی شہید کردیے تھے ۔ عکرمہ کی بیو مکہ میں تھی۔
تاریخوں میں واضح اشارہ ملتا ہے کہ رسول کریم نے فتح مکہ کے بعد قریش کی چار عورتوں اور چھ آدمیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچائی تھیں۔
عکرمہ کی بیوی مکہ میں تھی ۔ فتح مکہ کے دو تین روز بعد ایک آدمی عکرمہ کے گھر آیا ۔
”میں تمہارے لیے اجنبی ہوں بہن !ً“…اس شخص نے عکرمہ کی بیوی سے کہا …”عکرمہ میرا دوست ہے ۔ میں قبیلہ بنوبکر کا آدمی ہوں …تمہیں معلوم ہوگا کہ عکرمہ اور صفوان نے مسلمانوں کا راستہ روکا تھا اور ان کے خلاف سازشیں تیار کی تھیں۔
انہیں مرتد کہا گیا تھا ۔ ان میں ہند اور عکرمہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ابوسفیان کی بیوی ہند ہر اس انسان کے خون کی پیاسی ہوجاتی تھی جو اسلام قبول کرلیتا تھا ۔ “
روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھی ۔ اس کا مقابلہ خالد سے تھا جو تجربہ کار جنگجو ہے اور اس کے ساتھ آدمی بھی زیادہ تھے ۔
”میں جانتی ہوں “…عکرمہ کی بیوی نے کہا …”میں پہلے سن چکی ہوں …میرے اجنبی بھائی مجھے بتاؤ وہ کہاں ہے ؟وہ زندہ تو ہے ؟“
”وہ مجھے بتاگیا تھا کہ یمن جارہا ہے “…اجنبی نے کہا …”وہ کہہ گیا ہے کہ تجھے وہاں بلالے گا ۔
مجھے یہ بھی معلوم ہے وہ کس کے پاس گیا ہے ۔ میں تجھے یہی بتانے آیا تھا۔ وہ واپس نہیں آئے گا “
”اسے یہاں آنا بھی نہیں چاہیے “…عکرمہ کی بیوی نے کہا …”وہ آگیا تو اسے قتل کردیا جائے گا “
”تم تیار رہنا“…اجنبی نے کہا …”اس کا پیغام آئے گا تو میں تمہیں اس کے پاس پہنچادوں گا ۔ تم اس کے پاس پہنچ جاؤ گی تو وہ تمہیں ساتھ لے کر حبشہ کو چلا جائے گا “
اجنبی اسے اپنی بستی کا اور اپنا نام بتا کر چلا گیا ۔
دو روز بعد عکرمہ کی بیوی بنوبکر کی بستی میں گئی اور اس آدمی سے ملی جس نے اسے عکرمہ کا پیغام دیا تھا ۔
”کیا تو عکرمہ کے پاس جانے کو آئی ہے ؟“…عکرمہ کے دوست نے پوچھا ۔
”میں اسے واپس لانے کے لیے جارہی ہوں “…عکرمہ کی بیوی نے کہا …
”کیا تو نہیں جانتی کہ وہ آیا تو اسے قتل کردیا جائے گا؟“
”اسے قتل نہیں کیا جائے گا “…عکرمہ کی بیوی نے کہا …”میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور رسول اللہ نے میری فریاد پر میرے شوہر کو معاف کردیا ہے “
”کیا تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مان لیا ہے ؟“
”مان لیا ہے “
”محمد نے تمہارے ساتھ سودا کیا ہوگا “…عکرمہ کے دوست نے کہا …”اس نے تمہارے آگے یہ شرط رکھی ہوگی کہ تم اور عکرمہ اسلام قبول کرلو تو …“
”نہیں“…عکرمہ کی بیوی نے کہا…”محمد نے جو اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں میرے ساتھ ایسا کوئی سودا نہیں کیا …اور محمد ان میں سے نہیں جو سودا کرکے اپنی بات منوایا کرتے ہیں ۔
میں وہاں اپنے شوہر کی جان بخشی کی فریاد لے کر گئی تھی ۔ یہ وہی محمد ہیں جنہیں میں بڑی اچھی طرح جانتی تھی لیکن اب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو میں نے دل سے کہا کہ یہ وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نہیں جو کبھی ہم میں سے تھے۔ یہ محمد جن کے پاس میں اب فریاد لے کر گئی ، آپ کی آنکھوں میں مجھے کوئی ایسی چیز نظر آئی جو کسی اور انسان میں نہیں ہوتی ۔
مجھے ڈر تھا کہ محمد جو اللہ کے رسول ہیں کہیں گے کہ یہ عکرمہ کی بیوی ہے ، اسے یرغمال بناکر رکھو تاکہ عکرمہ آجائے اور اسے قتل کردیا جائے لیکن آپ نے مجھے ایک مجبور عورت جان کر عزت سے بٹھایا۔ میں نے فریاد کی کہ فتح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے ، میرے بچوں کو یتیم نہ کریں۔ میرے شوہر کی بدعہدی کی سزا مجھے اور میرے بچوں کو نہ دیں۔ آپ نے کہا میں نے عکرمہ کو معاف کیا …معلوم نہیں وہ کون سی طاقت تھی جس نے مجھ سے کہلوایا …میں نے تسلیم کیا کہ محمد اللہ کا رسول ہے ۔
اب میں اس خدا کو مانتی ہوں جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت دی ہے “
”اور تو مسلمان ہوگئی “…عکرمہ کے دوست نے کہا ۔
”ہاں“…عکرمہ کی بیوی نے کہا …”میں مسلمان ہوگئی …مجھے اس کے پاس لے چل میرے شوہر کے دوست ! میں اسے واپس لاؤں گی “
”میں دوستی کا حق ادا کروں گا “…عکرمہ کے دوست نے کہا…”چل میں تیرے ساتھ یمن چلتا ہوں “
####