طائف ایک مقام ہے جو مکہ معظمہ سے چند میل دور ہے جنوری ۶۳۰ء (شوال۵۸) کی ایک رات وہاں جشن کا سماں تھا۔ فضا شراب کی بو سے بوجھل اور رات مخمور تھی ۔ رقص کے لیے طائف کے ارد گرد کے علاقے کی چنی ہوئی ناچنے والیاں آئی ہوئی تھیں۔ ان کے رقص اور حسن نے مہمانوں کو مدہوش کردیا تھا ۔
مہمان مکہ کے شمال مشرقی علاقے کے مشہور جنگجو قبیلے ہوازن کے سرکردہ افراد تھے۔
ان کے میزبان طائف اور گردونواح میں پھیلے ہوئے قبیلے ثقیف کے سردار تھے جنہوں نے اپنے مہمانوں پر اپنی امارت اور فیاضی اور کشادہ ظرفی کا رعب جمانے کے لیے اتنی شاہانہ ضیافت اور اتنے شاندار جشن کا اہتمام کیا تھا ۔
دو لڑکیاں رقص کے کمال دکھارہی تھی کہ میزبان قبیلے کا سردار مالک بن عوف اٹھ کھڑا ہوا اس نے تالی بجائی۔
(جاری ہے)
ساز خاموش ہوگئے۔
ناچنے والیاں بت بن گئیں اور ان کی نظریں مالک بن عوف پر جم گئیں۔ مہمانوں پر سناٹا طاری ہوگیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے رات کے گزرتے لمحوں کا قافلہ رک گیا ہو۔ ہر کوئی مالک بن عوف کی طرف دیکھ رہا تھ ا۔
مالک بن عوف کی عمر تیس سال تھی ۔ رقص اور مے نوشی کی محفلوں میں وہ عیاش شہزادہ تھا لیکن میدان جنگ میں وہ آگ کا بگولہ تھا۔ وہ صرف تیغ زنی، تیر اندازی اور گھوڑ سواری میں ہی مہارت نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ فن حرب و ضرب کا بھی ماہر تھا ۔
انہی اوصاف کی بدولت وہ قبیلے کا سالار تھا۔ جنگ کے معاملے میں وہ انتہا پسند تھا ۔ یوں لگتا تھا جیسے ٹھنڈے دل سے سوچنا اسے آتا ہی نہیں۔ اس کی جنگی چالیں اس کے دشمن کے لیے بڑی خطرناک ہوتی تھیں۔ قبیلہ قریش میں جو حیثیت کسی وقت خالد بن ولید کو حاصل تھی ویسا ہی دبدبہ مالک بن عوف کا اپنے قبیلے پر تھا ۔
”ہم نے بہت کھالیا ہے “…مالک بن عوف نے رقص رکوا کر میزبانوں اور مہمانوں سے خطاب کیا …”ہم شراب کے مٹکے خالی کرچکے ہیں ہم تھرکتی ہوئی جوانیوں سے لطف اندوز ہوچکے ہیں کیا ہمارے مہمانوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس ضیافت اور اس جشن کی تقریب کیا ہے ؟میں نے تمہیں کوئی خوشی منانے کے لیے اکٹھا نہیں کیا ۔
اے اہل ہوازن! میں نے تمہاری غیرت کو جگانے کے لیے تمہیں اپنے ہاں بلایا ہے “
”ہوازن کی غیرت سوئی کب تھی مالک بن عوف؟“…قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا…”بتا ہماری غیرت کو کس نے للکارا ہے ؟“
”مسلمانوں نے !“…مالک بن عوف نے کہا…”محمد نے …کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جانتے …کیا تم بھول گئے ہو اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے بھاگ کر یثرپ(مدینہ) چلا گیا تھا َ؟“
”جانتے ہیں “…دو تین آوازیں اٹھیں۔
…”اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتا ہے “
”ہم اسے نبی نہیں مانتے “…ایک اور آوا ز اٹھی …”کوئی نبی ہوتا تو ہم میں سے ہوتا جو اہل ثقیف ہیں ہوازن کے قبیلے سے ہوتا “
”وہ نبی ہے یا نہیں “…مالک بن عوف نے کہا …”میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس مکہ سے محمد بھاگا تھا۔ اس مکہ کا اب وہ حاکم ہے ۔ مکہ میں اس کا حکم چلتا ہے اور اس کی جنگی طاقت بڑھتی جارہی ہے ۔
قبیلہ قریش اس کے آگے ہتھیار ڈال چکا ہے اور اس کے مذہب کو قبول کرتا چلا جارہا ہے ۔ ابوسفیان، عکرمہ اور صفوان جیسے جابر جنگجو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب قبول کرچکے ہیں۔ خالد بن ولید نے پہلے ہی یہ نیا مذہب قبول کرلیا تھا …مسلمانوں نے مکہ میں تمام بت توڑ ڈالے ہیں “
”اہل قریش کو اپنی غیرت اور اپنے مذہب کا پاس ہوتا تو وہ اپنی تلواریں اپنے پیٹوں میں گھونپ لیتے “…کسی اور نے کہا۔
”اب ستاروں سے بھرا ہو ا آسمان یہ دیکھے گا کہ ہوازن اور ثقیف کو اپنی غیرت کا کتنا پاس ہے “…مالک بن عوف نے کہا۔
”کیا تو چاہتا ہے کہ ہم میں سے کوئی محمد کو قتل کردے ؟“…قبیلہ ہوازن کے ایک سردار نے کہا …”اگر تو یہی کہنا چاہتا ہے تو یہ کام میرے سپرد کر“
”اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردینے سے کچھ حاصل نہ ہوگا “…مالک بن عوف نے کہا …”اسے قتل کردو گے تو اس کے پیروکار اسے اپنے دلوں میں زندہ رکھیں گے ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اب ایک آدمی کے قتل سے وہ اس راستے سے نہیں ہٹیں گے جس پر انہیں ڈال دیا گیا ہے ۔
“
”کہتے ہیں محمد کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا “…ہوازن کے ایک سردار نے کہا …”وہ جس پر نگاہ ڈالتا ہے وہ اس کا مطیع ہوجاتا ہے “
”جہاں تلوار چلتی ہے وہاں کوئی جادو نہیں چل سکتا “…ہوازن قبیلے کے ایک اور سردار نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر کہا …”مالک ! آگے بول تو کیا کہتا ہے ۔ ہم تیرے ساتھ ہیں “
”میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہم نے محمد کے اسلام کو نہ روکا تو یہ سیلاب کی طرح بڑھتا ہوا ہم سب کو بہا لے جائے گا“…مالک بن عوف نے کہا …”نہ ہوازن رہیں گے نہ ثقیف کا وجود ہوگاقبیلہ قریش کو محکوم بنانے والوں کو ہم مکہ کے اندر ہی ختم کریں گے …کیا تم محکوم بن جانے کا مطلب سمجھتے ہو؟“…مالک بن عوف نے سب کی طرف دیکھا اور بولا …”اگر نہیں سمجھتے تو میں تمہیں بتاتا ہوں “…اس نے پیچھے دیکھا ۔
مالک بن عوف کے پیچھے مہمانوں میں ایک معمر سفید ریش بیٹھا تھا ۔ اس کا رنگ دوسروں کی نسبت صاف اور سپیدی مائل تھا۔ وہ ضعیف اتنا تھا کہ اس کا سر ہلتا تھا اور کمر میں ہلکا سا خم تھا اس کے ہاتھ میں اپنے قد جتنا لمبا عصا تھا ۔ کندھوں سے ٹخنوں تک چُغہ بتاتا تھا کہ وہ کوئی عالم یا مذہبی پیشوا ہے ۔ مالک بن عوف کے اشارے پر وہ اٹھااور مالک کے پاس آگیا ۔
”تم پر اس کی رحمت ہو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے “…بوڑھے نے کہا …”اور وہ دیوتا تمہارے بچوں کے محافظ ہوں جن کی تم پوجا کرتے ہو۔ تم محکومی اور غلامی کا مطلب نہیں سمجھتے تو مجھ سے پوچھو۔ میری چار جوان بیٹیاں مسلمانوں کی لونڈیاں ہیں اور میرے دو جوان بیٹے مسلمانوں کے غلام ہیں۔ وہ تیغ زن اور شہسوار تھے لیکن اب انہیں تلوار ہاتھ میں لینے کی اور گھوڑے پر سوار ہونے کی اجازت نہیں۔
ہمیں گھروں سے نکال دیا گیا ہے …“
”کیا تمہیں یاد نہیں کہ قریش نے مدینے کا محاصرے کیا تھا تو مسلمانوں نے شہر کے ارد گرد خندق کھودلی تھی َقریش اس خندق کو پھلانگ نہیں سکے تھے ۔ پھر اس قدر تند و تیز طوفان آیا کہ قریش جو پہلے ہی بددل ہوچکے تھے بکھر گئے اور مکہ کو واپس چلے گئے تھے جب مسلمانوں کے سر سے خطرہ ٹل گیا تو انہوں نے ان یہودیوں پر ہلہ بول دیا جو ان کے ساتھ مدینہ میں امن سے رہتے تھے ۔
ان یہودیوں کو انہوں نے قتل کردیا اور ان کی عورتوں کو اور ان کے بچوں کو آپس میں بانٹ کر انہیں لونڈیاں اور غلام بنالیا “
”اے بزرگ!“قبیلہ ثقیف کے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا…”اگر تو یہودی ہے تو کیا ہم نے غلط سنا تھا کہ تیرے قبیلے نے مسلمانوں کو دھوکہ دیا تھا ؟“
”تم نے جو سنا درست سنا تھا “…بوڑھے نے ہا …”ہمارا دھوکہ کامیاب نہیں ہوا تھا ۔
ہم مسلمانوں کی بیٹھ میں خنجر اتارنا چاہتے تھے ۔ لیکن قریش پیٹھ دکھاگئے مسلمانوں کو دھوکہ دے کر کمزور کرنا ہمارا فرض تھا لیکن مسلمانوں کی تلواروں نے ہمیں کمزور کردیا “
”تو جو بنی اسرائیل سے ہے کیا ہمیں اکسانے آیا ہے کہ ہم مسلمانوں سے تیرے قبیلے کے خون کا انتقام لیں؟“…ثقیف کے قبیلے سے ایک سردار نے پوچھا ۔
ایک اور ضعیف العمر اٹھ کھڑا ہوا ۔
اس کا نام درید بن الصمہ تھا۔ اس کا نام تاریخ میں تو ملتا ہے لیکن یہ پتہ نہیں ملتا کہ وہ قبیلہ ہوازن سے تھا یا قبیلہ ثقیف سے ۔
”خاموش رہو “…درید بن الصمہ نے گرج کر کہا …”ہم بنی اسرائیل کے خون کا انتقام نہیں لیں گے ۔ کیا تم ابھی تک شک میں ہو …کیا تم ابھی تک نہیں سمجھے کہ ہم نے مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کا خون اپنی تلواروں کو نہ پلایا اور ان کے زخمیوں کو گھوڑے تلے نہ روندا تو وہ ہمیں بھی قتل کرکے تمہاری بیٹیوں کو، تمہاری بہنوں کو اور تمہاری بیویوں کو اپنی لونڈیاں او رہمارے بچوں کو اپنا غلام بنالیں گے ؟“
”اس سے پہلے کہ ان کے گھوڑے طائف کی گلیوں میں ہنہنائیں، کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہمارے گھوڑے ان کی لاشوں کو مکہ کی گلیوں میں کچلتے پھریں…“…مالک بن عوف نے جوش سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا …”بنی اسرائیل کا یہ بزرگ ہماری پناہ میں آیا ہے ۔
اس نے اپنے قبیلے کا جو انجام بتایا ہے ۔ میں تمہیں اس انجام سے بچانا چاہتا ہوں …اٹھو اور لات کے نام پر حلف اٹھاؤ کہ ہم محمد اور اس کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے تمام بت توڑ ڈالے ہیں ، ختم کرکے اپنی عورتوں کو منہ دکھائیں گے “
###