اس زمانے میں جب اسلام کی کرنیں مکہ سے پھیل رہی تھی۔ عرب میں بت پرستی عام تھی۔ وہ خدا کو بھی مانتے تھے لیکن خدا تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وہ بتوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے ۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ بتوں کو راضی کیے بغیر خدا کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔ بتوں کی خوشنودی کے لیے وہ کچھ رسمیں ادا کرتے تھے طائف کے علاقے میں جس بت کو پوجا جاتا تھا۔ اس کا نام لات تھا جو انسانی یا حیرانی شکل کا نہیں تھا۔
وہ بہت بڑا پتھر تھا جسے چٹان کہا جاسکتا ہے ۔ یہ چٹان باقاعدہ مربع شکل کی تھی ۔ بعض مورخون نے لکھا ہے کہ یہ مربع شکل کا قدرتی طور پر بنا ہوا چبوترہ تھا جس پر شاید کسی زمانے میں کوئی بت رکھا گیا ہو لیکن طلوع اسلام کے دور میں یہ صرف چبوترہ تھا اور ارد گرد کے قبائل اسی کو پوجتے تھے ۔
(جاری ہے)
جنوری ۶۳۰ء کی اس رات جب قبیلہ ہوازن کے سردار قبیلہ ثقیف کی دعوت پر طائف آئے اور مالک بن عوف اور درید بن الصمہ انہیں مکہ پر حملے کے لیے اکسارہے تھے ۔
ہوازن کے ایک سردار نے مشورہ دیا کہ کاہن کو بلاکر فال نکلوائی جائے کہ ہمارا حملہ کامیاب ہوگا یا نہیں۔ یہ فال تیروں کے ذریعے نکالی جاتی تھی جسے ازلام کہتے تھے ۔ بہت سے تیر اکٹھے رکھے ہوتے تھے کسی پر ہاں لکھا ہوتا تھا کسی پر نہیں۔ بت کا کوئی مجاور یا کاہن یعنی مذہبی پیشوا اس ترکش سے ایک تیر نکالتا اور دیکھتا تھا کہ اس پر ہاں لکھا ہے یا نہیں۔
یہ فال کا جواب ہوتا تھا ۔
مجاور کی نسبت کاہن کو بہتر سمجھا جاتا تھا ۔ کاہن دانشمند ہوتے تھے ۔ ان کے پاس پراثر اور دل میں اتر جانے والے الفاظ کا ذخیرہ ہوتا تھا ۔اور ان کے بولنے کا انداز تو ہر کسی کو متاثر کرلیتا تھا ۔ کاہن فال نکالے بغیر غیب کی خبریں دیا کرتے اور لوگ انہیں سچ مانا کرتے تھے ۔
اگلی صبح ہوازن اور ثقیف کے سردار ایک کاہن کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
ان میں سے کسی نے بھی ابھی بات نہیں کی تھی کہ کاہن بول پڑا۔
”اگر میں غیب کی خبر دے سکتا ہوں اور آنے والے وقت میں بھی جھانک کر بتاسکتا ہوں کہ کیسا ہوگا اور کیا ہوگا تو میں کیا میں یہ نہیں بتاسکوں گا کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے ؟“…اس نے کہا …”تم اپنی زبانوں کو ساکن رکھو اور میری زبان سے سنو کہ تم کیا کہنے آئے ہو …تم جس دشمن پر حملہ کرنے جارہے ہو یوں سمجھو کہ سویا ہوا ہے ۔
اس نے مکہ پر قبضہ کرلیا ہے اور وہاں کے انتظامات سیدھے کر رہا ہے ۔ وہ اپنی بادشاہی کی بنیادیں پکی کر رہا ہے ،۔ مکہ میں اس کے دشمن بھی موجود ہیں۔ ہر کسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب قبول نہیں کیا “
”مقدس کاہن“…درید بن الصمہ نے کہا …”ہمیں یہ بتا کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہونے سے پہلے اس کو دبوچ سکتے ہیں؟کیا ہمارا اچانک حملہ مکہ کے مسلمانوں کو گھٹنوں بٹھاسکے گا ؟“
کاہن نے آسمان کی طرف دیکھا۔
کچھ بڑبڑایا اور بولا …”آنے والے وقت کے پردوں کو چاک کرکے دیکھا ہے …تمہارا حملہ اچانک ہوگا ۔ مسلمانوں کو اس وقت پتہ چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی ۔ کون ہے جو برستی تلواروں میں سنبھل کر اپنے آپ کو بچانے کی ترکیب کرسکتا ہے …یہی وقت ہے یہی موقع ہے مسلمان اگر سنبھل گئے تو تم اپنے ارادو ں میں کامیاب نہیں ہوسکو گے ۔ پھر مسلمان تمہارے گھروں تک تمہارا پیچھا کریں گے اور تمہارے خزانوں کو اور تمہاری عورتوں کو تمہاری لاشوں کے اوپر سے گزار کر اپنے ساتھ لے جائیں گے …ازلام کی ضرورت نہیں۔
لات نے اشارہ دے دیا ہے اور پوچھا ہے کہ مجھے پوجے والوں کی تلواریں ابھی تک نیاموں میں کیوں ہیں ؟“
”کوئی قربانی ؟“…ایک سردار نے پوچھا ۔
”حام“…کاہن نے کہا …”ایک حام۔ اگر ہے تو دے دو۔ نہیں ہے تو اپنے قبیلے سے کہو کہ پیٹھ نہ دکھائیں۔ اپنے خون کی اور اپنی جانوں کی قربانی دیں…حام کی تلاش میں وقت ضائع نہ کریں …جاؤ میں نے تمہیں خبر دے دی ہے مکہ میں مسلمان دوسرے کاموں میں مصرف ہیں۔
وہ لڑنے کے لیے تیار نہیں یہ وقت پھر نہیں آئے گا “
حام اس اونٹ کو کہتے تھے جس کی چوتھی نسل پیدا ہوجاتی تھی ۔ اسے یہ لوگ اپنے بت کے نام پر کھلا چھوڑ دیتے تھے ۔ اس اونٹ کو متبرک سمجھ کر اس پر نہ کوئی سواری کرسکتا تھا نہ اس سے کوئی اور کام لیا جاتا تھا ۔ اس پر خاص نشان لگادیا جاتا تھا ۔ اسے جو کوئی دیکھتا تھا ۔ اس کا احترام کرتا اور اسے اپنے کھانے کی چیزیں کھلادیتا تھا ۔
جب ہوازن اور ثقیف کے سردار کاہن کی اشیر باد لے کر چلے گئے تو کاہن اندرونی کمرے میں چلا گیا۔ وہاں وہ بوڑھا یہودی تھا جسے گزشتہ رات ضیافت کے دوران مالک بن عوف نے اشارے سے کہا تھا کہ وہ سب کو بتائے کہ محکومی اور غلامی کیا ہوتی ہے۔
”میں نے تمہارا کام کردیا ہے “…کاہن نے اسے کہا …”اب یہ لوگ مکہ کی طرف کوچ میں تاخیر نہیں کریں گے “
”کیا انہیں کامیابی حاصل ہوگی ؟“…بوڑھے یہودی نے پوچھا ۔
”کامیابی کا انحصار ان کے لڑنے کے جذبے اورعقل پر ہے “…کاہن نے کہا …”اگر انہوں نے صرف جوش اور جذبے سے کام لیا اور عقل کو استعمال نہ کیا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عسکری قابلیت انہیں بہت بری شکست دے گی …میر ا انعام؟“
”تمہارا انعام ساتھ لایا ہوں “…بوڑھے نے کہا اور آواز دی ۔
دوسرے کمرے سے ایک حسین لڑکی آئی۔
بوڑھے یہودی نے اپنے چغے کے اندر ہاتھ ڈال کر سونے کے دو ٹکڑے نکالے اور کاہن کو دے دیے ۔
”میں کل صبح اس لڑکی کو لے جاؤں گا “…بوڑھے نے کہا ۔
”میں تمہیں ایک بات بتادینا چاہتا ہوں “…کاہن نے کہا …”میں نے تمہارے کہنے پر ان لوگوں کو کہا ہے کہ فوراً حملہ کریں لیکن ان سرداروں میں سمجھ بوجھ ہے ۔ حالات کو سمجھ لیتے ہیں ان کا بوڑھا سردار درید بن الصمہ پہلے سے جانتا تھا کہ مسلمان مکہ میں ابھی جم کے نہیں بیٹھ سکے۔
ان کے سامنے اور بہت سے مسئلے ہیں۔ ان پر حملے کے لیے یہی وقت موزوں ہے ۔ ہوازن اور ثقیف کے سردار اپنے ارادے کی تصدیق کے لیے میرے پاس آئے تھے ۔ اچھا ہوا کہ ان سے پہلے تم چوری چھپے میرے پاس آگئے تھے ۔ “
”میرا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو ختم کیا جائے “…بوڑھے یہودی نے کہا …
###