Episode 61 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 61 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

مورخ لکھتے ہیں کہ ہوازن اور ثقیف دو طاقتور قبیلے تھے ۔ مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا تو ان دونوں قبیلوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ دونوں کے لوگ الگ الگ بستیوں میں رہتے ہیں اور بستیوں کی تعداد زیادہ ہے اور یہ ایک دوسری سے دور دور بھی ہیں۔ مسلمان ہر بستی پر قابض ہوکر دونوں قبیلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے ۔ انہوں نے سوچا کہ قبیلوں کو متحد کرکے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا جائے ۔
 
دونوں قبیلے لڑنے والے آدمیوں کو ساتھ لے کر حنین کے قریب اوطاس کے مقام پر لے گئے۔ ان کے سرداروں نے چھوٹے چھوٹے کئی اور قبائل کو اس قسم کے پیغام بھیج کر کہ مسلمان ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے آرہے ہیں اپنے اتحادی بنالیا تھا ۔ اس متحدہ لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوگئی۔ اس کا سپہ سالار مالک بن عوف تھا۔

(جاری ہے)

اس نے لشکر کے ہر آدمی کو اجازت دے دی تھی کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کو ساتھ لے آئے۔

اس نے اس اجازت کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ مکہ کا محاصرہ بہت لمبا بھی ہوسکتا ہے اگر ایسا ہوا تو لشکریوں کو اپنے بیوی بچوں اور مویشیوں کا غم ہوگا کہ معلوم نہیں کیسے ہوں۔ اس اجازت سے تقریباً سب نے فائدہ اٹھایا تھا ۔ اس طرح جتنا لشکر لڑنے والوں کا تھا ۔ اس سے کہیں زیادہ تعداد عورتوں ور بچوں کی تھی ۔ اونٹ بھی بیشمار تھے ۔ 
درید بن الصمہ بہت بوڑھا تھا ۔
وہ میدان جنگ میں جانے کے قابل نہیں تھا لیکن لڑنے اور لڑانے کا جو تجربہ اسے تھا وہ اور کسی کو نہیں تھا۔ سپہ سالار مالک بن عوف کو بنایا گیا تھا لیکن اس میں خوبی صرف یہ تھی کہ وہ بہت جوشیلا تھا ۔ درید کو اس کے تجربے کی وجہ سے بلایا گیا تھا۔ 
درید بن الصمہ اس وقت اس لشکر میں شامل ہوا جب لشکر اوطاس کے مقام پر خیمہ زن تھا ۔ وہ شام کے وقت پہنچا ، اسے بچوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیں۔
اس نے بکریوں اور گدھوں کی آوازیں بھی سنیں۔ اس نے کسی سے پوچھا کہ لشکر کے ساتھ بچے، بکریاں اور گدھے کون لایا ہے ؟اسے بتایا گیا کہ سپہ سالار نے بال بچے اور مویشی ساتھ لے جانے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ انہیں ساتھ لانے کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ 
”مالک!“…درید بن الصمہ نے مالک بن عوف کے خیمے میں جاکر پوچھا …”یہ تو نے کیا کیا ہے؟میں نے ایسا لشکر پہلی بار دیکھا ہے جو لڑنے والے لشکر کی بجائے نقل مکانی کرنے والوں کا قافلہ معلوم ہوتا ہے “
”مجھے تمہاری جنگی فہم و فراست پر ذرا سا بھی شک نہیں میرے بزرگ!“…مالک بن عوف نے کہا …”لیکن میں نے جو سوچا ہے وہ تم ساری عمر نہیں سوچ سکے۔
میں نے لشکریوں سے کہا تو یہ ہے کہ محاصرہ لمبا ہونے کی صورت میں انہیں اپنے اہل و عیال اور مال مویشی کے متعلق پریشانی پیدا ہوجائے گی لیکن میں نے سوچا کچھ اور ہے ۔ میں مکہ کو محاصرے میں نہیں لوں گا بلکہ یلغار کروں گا۔ مسلمانوں کو ہم بے خبری میں جالیں گے ۔ تمہیں معلوم ہے کہ لڑنے میں مسلمان کتنے تیز اور عقل مند ہیں۔ وہ پینترے بدل بدل کر لڑیں گے ۔
ہوسکتا ہے ہمارے آدمی ان کی بے جگری کے آگے ٹھہر نہ سکیں۔ وہ جب دیکھیں گے کہ ان کی عورتیں اور جوان بیٹیاں اور بچے اور دودھ دینے والے مویشی بھی ساتھ ہیں تو وہ انہیں بچانے کے لیے جان کی بازی لگا کر لڑیں گے اور زیادہ بہادری سے لڑیں گے ۔ بھاگیں گے نہیں “
”تجربہ عمر سے حاصل ہوتا ہے مالک!“درید نے کہا …”تیرے پاس جذبہ ہے ۔ غیرت ہے ۔ جرأت ہے لیکن عقل تیری ابھی خام ہے ۔
لڑائی میں ان لوگوں کا دھیان آگے نہیں پیچھے ہوگا ۔ یہ یہی دیکھتے رہیں گے کہ دشمن پہلو یا عقب سے ان کے بال بچوں تک تو نہیں آگیا۔ دشمن جب ان پر جوابی حملہ کرے گا تو یہ تیزی سے اپنے بیوی بچوں تک پہنچیں گے کہ یہ دشمن سے محفوظ رہیں…تو بہت بڑی کمزوری اپنے ساتھ لے آیا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی قیادت کو تو نہیں جانتا میں جانتا ہوں۔
اس کے پاس ایک سے ایک بڑھ کر قابل سالار ہے ۔ وہ تیری اسی کمزور رگ پر وار کریں گے ۔ وہ کوشش کریں گے کہ تیرے لشکر کی عورتوں اور بچوں کو یرغمال میں لے لیں۔ انہیں دور پیچھے رہنے دو اور مکہ کو کوچ کرو “
”احترام کے قابل بزرگ!“…مالک بن عوف نے کہا …”تم بہت پرانی باتیں کر رہے ہو تم نے محسوس نہیں کیا کہ اتنی لمبی عمر نے تمہیں تجربوں سے تو مالامال کردیا ہے لیکن عمر نے تمہاری عقل کمزور کردی ہے ۔
اگر میں سپہ سالار ہوں تو میرا حکم چلے گا۔ میں جہاں ضرورت سمجھوں گا تم سے مشورہ لے لوں گا “
مورخوں نے لکھا ہے کہ درید بن الصمہ یہ سوچ کر چپ ہوگیا کہ یہ موقع آپس میں الجھنے کا نہیں تھا۔ 
”تم لشکر سے کچھ اور کہنا چاہتے ہو تو کہہ دو “…مالک بن عوف نے کہا 
”جو کام مجھے کرنا ہے وہ میں تمہیں بتائے بغیر کروں گا“…درید نے کہا …”مجھ میں لڑنے کی طاقت نہیں رہی۔
لڑاسکتا ہوں “
اس نے اپنے خیمے میں جاکر قبیلوں کے سرداروں کو بلایا اور اتنا ہی کہا …”جب حملہ کروگے تو تمہار ااتحاد نہ ٹوٹے۔ تمام لشکر سے کہہ دو کہ حملے سے پہلے تکوار کی نیا میں توڑ کر پھینک دیں ۔ “
عربوں میں یہ رسم تھی کہ لڑائی میں جب کوئی اپنی نیام توڑ دیتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ شخص لڑتا ہوا جان دے دے گا پیچھے نہیں ہٹے گا اور شکست نہیں کھائے گا نیام توڑنے کو وہ فتح یا موت کا اعلان سمجھتے تھے ۔
 
کسی بھی تاریخ میں ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ درید بن الصمہ نے قبیلوں کے سرداروں سے کہا ہو کہ وہ اپنے اہل و عیال کو اوطاس میں ہی رہنے دیں لیکن دو مورخوں نے لکھا ہے کہ لڑائی کے وقت صرف ہوان قبیلہ تھا جس نے اپنی عورتوں ، بچوں اور بکریوں وغیرہ کو اپنے ساتھ رکھا تھا ۔ 
###
یہ دوسرا موقع تھا کہ اتنے زیادہ قبیلوں کی متحدہ فوج مسلمانوں کو تہس نہس کرنے آرہی تھی ۔
اس سے پہلے جنگ خندق میں اتنے زیادہ قبیلے مسلمانوں کے خلاف متحد ہوئے تھے ۔ اب مالک بن عوف اس امید پر متحدہ فوج کو لے جارہا تھا کہ وہ مکہ پر اچانک ٹوٹ پڑے گا ۔ اس لشکر کو اب اوطاس سے مکہ کو کوچ کرنا تھا اور اس کوچ کی رفتار بہت تیز رکھنی تھی ۔ اوطاس میں لشکر کا قیام اس لیے زیادہ ہوگیا تھا کہ دوسرے قبیلوں کو وہاں اکٹھے ہونا تھا ۔ 
اگر اس لشکر میں صرف لڑنے والے ہوتے تو لشکر فوراً مکہ کی طرف پیش قدمی کرجاتا۔
اس میں عورتیں اور بچے بھی تھے اور ان کا سامان بھی تھا اس لیے وہاں سے کوچ میں خاصی تاخیر ہوگئی ۔ اس دوران مکہ کی گلیوں میں ایک للکار سنائی دی ۔ 
”مسلمانو!ہوشیار…تیار ہوجاؤ“…ایک شتر سوار تھا جو رسول اکرمﷺ کے گھر کی طرف جاتے ہوئے اعلان کرتا جارہا تھا …”خدا کی قسم جو میں دیکھ آیا ہوں وہ تم میں سے کسی نے نہیں دیکھا “
”کیاشور مچاتے جارہے ہو “…کسی نے اسے کہا …”رکو اور بتاؤ کیا دیکھ آئے ہو “
”رسول اللہ کو بتاؤں گا “…وہ کہتا جارہا تھا …”تیار ہوجاؤ…ہوازن اور ثقیف کا لشکر…“
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع مل گئی کہ ہوازن اور ثقیف کے قبیلوں کے ساتھ دوسرے قبیلوں کے ہزاروں لوگ اوطاس کے قریب خیمہ زن ہیں اور ان کا ارادہ مکہ پر حملے کا ہے اور وہ کوچ کرنے والے ہیں۔
تاریخوں میں اس شخص کا نام نہیں ملتا جس نے اوطاس میں اس متحدہ لشکر کو دیکھا اور یہ بھی معلوم کرلیا تھا کہ لشکر کا ارادہ کیا ہے ۔ مورخوں نے اتنا ہی لکھا ہے کہ رسول کریم کو قبل از وقت غیر مسلم قبیلوں کے اجماع کی خبر مل گئی۔ 
ان مورخوں کے مطابق (اور بعد کے مبصروں کی تحروں کے مطابق) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ جنگ وجدل سے گریز کیا جائے اور ان غیر مسلموں کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو او رمسلمانوں کو دشمن سمجھتے اور آپ کے خلاف سازشیں تیار کرتے رہے تھے انہیں خیر سگالی اور بھائی چارے کے پیغام دیے جائیں۔
 
اس خواہش اور کوشش کے علاوہ جنوری ۶۳۰ء میں حضور اکرم لڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ آپ نے مکہ کو چند ہی دن پہلے اپنی تحویل میں لیا تھا اور شہر کے انتظامات میں مصروف تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورے دیے گئے کہ شہری انتظامات کوملتوی کرکے دفاعی انتظامات کی طرف فوری توجہ دی جائے اور دشمن کے حملے یا محاصرے کا انتظار کیا جائے۔
 
رسول اللہ نے مشورہ دینے والوں ے یہ کہہ کر ان کا مشورہ مسترد کردیا کہ ہم یہاں دفاعی مورچے بناکر ان میں بیٹھ جائیں اور جب دشمن کو خبر ملے کہ ہم بیدار ہیں اور قلعہ بند ہوگئے ہیں تو دشمن مکہ سے کچھ دور خیمہ زن ہوکر اس انتظار میں بیٹھ جائے کہ ہم دفاع میں ذرا سی بھی کوتاہی کریں اور وہ شہر کو محاصرے میں لے لے یا سیدھی یلغار کردے تو یہ دشمن کو دعوت دینے والی بات ہوگی کہ مسلسل خطرہ بن کر ہمارے سروں پر بیٹھا رہے ۔
 
اس دور کی مختلف تحریروں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم نے یہ اصول وضع کیا اور مسلمانوں کو ذہن نشین کرایا تھا کہ دشمن اگر اپنے گھر بیٹھ کر ہی للکارے تو اس کی للکار کا جواب ٹھوس طریقے یعنی عملی طریقے سے دو۔ دوسرا یہ کہ دشمن کی نیت اور اس کے عزائم کا علم ہوجائے تو اپنی سرحدوں کے اندر بیٹھ کر اس کا انتظار نہ کرتے رہو۔ اس پر حملہ کردو اور حضور نے اپنی امت کو تیسرا اصول یہ دیا کہ ہر وقت تیاری کی حالت میں رہو اور دشمن کو احساس دلادو کہ وہ تمہیں للکارے گا یا تمہارے لیے خطرہ بننے کی کوشش کرے گا تو تم بجلی کی طرح اس پر کوندو گے ۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط