”نہیں ایسا نہیں ہوسکتا “… مالک بن عوف نے اپنے خیمے میں غصے سے بارہا زمین پر پاؤں مارتا اور کہتا تھا …”وہ اتنی جلدی کس طرح یہاں تک پہنچ سکتے ہیں ؟کیا ہم اپنے ساتھ غداروں کو بھی لائے تھے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دن پہلے خبردار کردیا تھا کہ ہم آرہے ہیں …“
”خود جاکر دیکھ لے مالک!“…بوڑھے درید بن الصمہ نے کہا…”اپنی آنکھوں سے دیکھ لے “
”اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو اپنے دیوتا لات کو دھوکہ دے رہا ہوں “…اس آدمی نے کہا جو دیکھ آیا تھا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر جس کی تعداد کم و بیش دس ہزار تھی حنین کے قریب آکر پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔
اس نے کہا …”انہوں نے خیمے نہیں گاڑے وہ تیاری کی حالت میں ہیں…اور یہ بھی جھوٹ نہیں کہ اس لشکر کا سپہ سالار محمد خود ہے “
مالک بن عوف غصے سے باؤلا ہوا جارہا تھا ۔
(جاری ہے)
وہ مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے چلا تھا ۔ اس نے اوطاس سے مکہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دے دیا گیا مگر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان اپنے رسول اللہﷺ کی قیادت میں اس کی جمعیت سے تھوڑی ہی دور حنین کے گردونواح میں آگئے ہیں اور مقابلے کے لیے تیار ہیں ۔
”غصہ تیری عقل کو کمزور کر رہا ہے مالک !“…درید نے اسے کہا …”اب محاصرے اور یلغار کو دماغ سے نکال اور اس زمین سے فائدہ اٹھا جس پر مسلمانوں سے تیرا مقابلہ ہوگا ۔ تو اچھی چالیں سوچ سکتا ہے تو دشمن کو دھوکہ دے سکتا ہے تجھ میں جرأت ہے پھر تو کیوں پریشان ہورہا ہے ؟میں تیرے ساتھ ہوں…میں تجھے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ہوزن کے لوگوں نے اپنی عورتیں اور اپنے بچوں اور اپنے مویشیوں کو ساتھ لاکے اچھا نہیں کیا …آمیرے ساتھ ، حنین کی وادی کو دیکھیں“
وہ دونوں اس علاقے کو دیکھنے چل پڑے جہاں لڑائی متوقع تھی ۔
###
رسول اکرمﷺ کے ساتھ مجاہدین کی جو فوج تھی اس کی تعداد بارہ ہزار تھی اس میں مکہ کے دو ہزار ایسے افراد تھے جنہیں اسلام قبول کیے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے ۔ لیکن صحابہ کرام ان نومسلموں پر بھروسہ کرنے پر آمادہ نہیں تھے لیکن اللہ کے رسولﷺ کو اپنے اللہ پر بھروسہ تھا ۔ ابوسفیان، عکرمہ اور صفوان بھی نومسلم تھے ۔ یہ تینوں سرداری اور سالاروں کے رتبوں کے افراد تھے جن کا نومسلم قریش پر اثرورسوخ بھی تھا لیکن دیکھا گیا کہ یہ سب اپنی مرضی سے اس لشکر میں شامل ہوئے تھے۔
ایک مورخ نے لکھا ہے کہ ان تینوں نے مجاہدین کے لیے کم و بیش ایک سو زرہ بکتر دیے تھے ۔
یہ لشکر ۲۷جنوری ۶۳۰ء (۶شوال۸ھ کو صبح مکہ سے روانہ ہوا اور ۳۱جنوری کی شام حنین کے گردونواح میں پہنچ) گیا تھا۔ کوچ برق رفتار تھا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ قبیلہ ہوازن اور قبیلہ ثقیف لڑنے والے قبیلے ہیں اور ان کے قائد ردید اور مالک جنگی فہم و فراست اور چالوں سے بخوبی واقف ہیں۔
اس لیے آپ نے ہراول جن سات سو مجاہدین کو رکھا وہ بنو سلیم کے تھے اور ان کے کمانڈر خالد بن ولید تھے۔
حنین ایک وادی ہے جو مکہ سے گیارہ میل دور ہے ۔ بعض جگہوں پر یہ وادی سات میل چوڑی ہے۔ کہیں اس کی چوڑائی اس سے بھی کم ہے اور حنین کے قریب جاکر وادی کی چوڑائی کم ہوتے ہوئے بمشکل دو فرلانگ رہ جاتی ہے ۔ یہاں سے وادی کی سطح اوپر کو اٹھتی ہے یعنی یہ چڑھائی ہے ۔
آگے ایک درہ نما راستہ ہے جو دائیں بائیں مڑتا ایک اور وادی میں داخل ہوتا اس وادی کا نام نخلتہ الیمانیہ ہے ۔ راستہ خاصہ تنگ ہے ۔
مسلمانوں نے اپنے جاسوسوں کی آنکھوں سے دیکھا کہ قبیلوں کی متحدہ فوج ابھی اوطاس کے قریب خیمہ زن ہے مگر جاسوس رات کی تاریکی میں نہ جھانک سکے یا انہوں نے ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ رات کو بھی دیکھ لیتے کہ دشمن کوئی نقل و حرکت تو نہیں کر رہا ۔
دن کے دوران متحدہ قبیلوں کے کیمپ میں کوچ یا پیش قدمی کی تیاری کے کوئی آثار نظر نہ آئے ۔ کیمپ پر مردنی سی چھائی ہوئی تھی ۔ کوئی سرگرمی نہیں تھی ۔
یکم فروری ۶۳۰ء (۱۱شوال۸ھ) کی سحر مجاہدین نے اوطاس کی طرف پیش قدمی کی ۔ سکیم یہ تھی کہ دشمن کے کیمپ پر یلغار کی جائے گی ۔ امید یہی تھی کہ دشمن کو بے خبری میں جا لیں گے پیش قدمی مکمل طور پر پرمنظم تھی ۔
ہراول میں بنوسلیم کے مجاہدین تھے جن کے قائد خالد بن ولید تھے۔ اس حیثیت میں خالد سب سے آگے تھے ۔ اسلامی فوج کی نفری تو بارہ ہزار تھی لیکن اس باقاعدہ فوج کے ساتھ ایک بے قاعدہ فوج بھی تھی جس کی نفری بیس ہزار تھی یہ مکہ اور گردونواح کے لوگ تھے جو فوج کی مدد کے لیے ساتھ آئے تھے ۔
ایک واقعہ قابل ذکر ہے ۔ اتنا زیادہ لشکر دیکھ کر بعض صحابہ کرام نے بڑے فخر سے کہا …”کون ہے جو ہمیں شکست دے سکتا ہے ۔
“…دومورخوں نے لکھا ہے کہ اس فخر میں تکبر کی جھلک بھی تھی ۔
خالد اسلامی لشکر کے آگے تھے ۔ وہ جب وادی حنین کے تنگ راستے میں داخل ہوئے تو صبح طلوع ہورہی تھی ۔ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رفتار تیز کردی خالد جوشیلے جنگجو تھے اور جارحانہ قیادت میں یقین رکھتے تھے ۔ وہ جب مسلمان نہیں ہوئے تھے تو قبیلہ قریش کے سردار اعلیٰ ابوسفیان سے انہیں سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ انہیں کھل کر لڑنے نہیں دیتے تھے ۔
ان کے قبول اسلام کی ایک وجہ یہ بھی کہ انہوں نے رسول کریم کی عسکری قیادت میں وہ جذبہ دیکھا تھا جو انہیں پسند تھا۔ خالد نے قبول اسلام سے پہلے عکرمہ سے کہا بھی تھا کہ میرے عسکری جذبے اور میدان جنگ میں جارحانہ انداز کی قدر صرف مسلمان کرسکتے ہیں۔
رسول اللہ نے خالد کی عسکری اہلیت اور قابلیت کی جو قدر کی تھی اس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اتنے بڑے لشکر کے ہراول کے کمانڈر تھے ۔
###
صبح طلوع ہورہی تھی جب خالد بن ولین کا ہراول دستہ گھاٹی والے تنگ راستے میں داخل ہوا۔ اچانک زمین و آسمان جیسے پھٹ پڑے ہوں۔ ہوازن، ثقیف اور دیگر قبیلوں کی متحدہ فوج کے نعرے گھٹاؤں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک کی طرح بلند ہوئے اور موسلا دھار بارش کی طرح تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔ یہ تیر دائیں بائیں کی چٹانوں اور ٹیکریوں سے آرہے تھے ۔
یہ دشمن کی گھات تھی ۔ مالک بن عوف اور درید بن الصمہ نے دن کے وقت اپنے کیمپ میں کوئی سرگرمی ظاہر نہیں ہونے دی تھی ۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے یہ جنگی کیمپ نہیں کسی قافلے کا پڑاؤ ہے ۔ شام کے بعد مالک بن عوف اپنی فوج کو حنین کے تنگ راستے پر لے گیا اور تیر انداوں کو دونوں طرف چھپا کر بٹھادیا تھا ۔
تیروں کی بوچھاریں اچانک بھی تھیں اور بہت زیادہ بھی۔ مجاہدین کے گھوڑے تیر کھا کر بے لگا م ہوکر بھاگے۔ جو سوار تیروں سے محفوظ رہے وہ بھی پیچھے کو بھاگ اٹھے۔ تیروں کی بوچھاڑیں اور تیز و تند ہوگئیں۔ گھوڑے بے قابو اور سوار بھی بے قابو ہوگئے۔ بھگدڑ مچ گئی ۔
####