”مت بھاگو“…خالد بن ولید تیروں کی بوچھاڑوں میں کھڑے چلارہے تھے …”پیٹھ نہ دکھاؤ…مقابلہ کرو۔ ہم دشمن کو …“گھوڑوں اور سواروں کی بھگدڑ ایسی تھی کہ خالد بن ولید کی پکار کسی کے کانوں تک پہنچتی ہی نہیں تھی ۔ کوئی یہ دیکھنے کے لیے بھی نہیں رکتا تھا کہ خالد کے جسم میں کتنے تیر اترگئے ہیں اور وہ پیچھے ہٹنے کی بجائے وہیں کھڑے اپنے دستے کو مقابلے کے لیے للکار رہے ہیں۔
وہ آخر بھگدڑ کے ریلے کی زد میں آگئے اور ان کے دھکوں سے یوں دور پیچھے آگئے جیسے سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔
جب بھگدڑ کا ریلا گزر گیا تو خالد اتنے زخمی ہوچکے تھے کہ گھوڑے سے گرپڑے اور بے ہوش ہوگئے ۔
ہراول کے پیچھے اسلامی فوج آرہی تھی ۔ اس کے رضاکاروں کا بے قاعدہ لشکر بھی تھا۔ ہراول کا دستہ بھاگتا دوڑتا پیچھے کو آیا تو فوج میں بھی بھگدڑ مچ گئی ۔
(جاری ہے)
ہراول کے بہت سے آدمیوں کے جسموں میں تیر پیوست تھے ۔ اور ان کے کپڑے خون سے لال تھے گھوڑوں کو بھی تیر لگے ہوئے تھے مالک بن عوف کی فوج کے نعرے جو پہلے سے زیادہ بلند ہوگئے تھے سنائی دے رہے تھے ۔ یہ حال دیکھ کر اسلامی فوج بکھر کو پیچھے کو بھاگی ۔
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ وہ قریش جو بے دلی سے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی فوج کے ساتھ آگئے تھے ۔
انہوں نے اس بھگدڑ کو یوں بڑھایا جیسے جلتی پر تیل ڈالا جاتا ہے ۔ وہ نہ صرف بھاگے بلکہ انہوں نے خوف و ہراس پھیلایا۔ انہیں ایک خوشی تو یہ تھی کہ لڑائی سے بچے اور دوسری خوشی یہ کہ مسلمان بھاگ نکلے ہیں اور انہیں شکست ہوئی ہے ۔
مسلمانوں کی کچھ نفری وہیں جاپہنچی جہاں سے چلی تھی ۔ اس جگہ کو فوجی اڈہ (بیس) بنایا گیا تھا ۔ زیادہ تعداد ان مسلمانوں کی تھی جنہوں نے پیچھے ہٹ کر ایسی جگہوں میں پناہ لے لی جہاں چھپا جاسکتا تھا لیکن وہ چھپنے کے لیے بلکہ چھپ کر یہ دیکھنے کے لیے وہاں رکے تھے کہ ہوا کیا ہے اور وہ دشمن کہاں ہے جس سے ڈر کر پوری فوج بھاگ اٹھی ہے ۔
وہاں تو حالت یہ ہوگئی تھی کہ بھاگتے ہوئے اونٹ اور گھوڑے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اور پیادے ان کے درمیان آکر کچلے جانے سے بچنے کے لیے ہر طرف بھاگ رہے تھے ۔
###
رسول کریم نے اپنی فوج کی یہ حالت دیکھی تو آپ سن ہوکے رہ گئے ۔ آپ بھاگنے والوں کے راستے میں کھڑے ہوگئے۔ آپ کے ساتھ نو صحابہ کرام تھے۔ ان میں چار قابل ذکر ہیں…حضرت عمر ، حضرت عباس ، حضرت علی اور حضرت ابوبکر۔
”مسلمانو!“…رسول کریم نے بلند آوازسے للکارنا شروع کردیا …”کہاں جارہے ہو۔ میں ادھر کھڑا ہوں…میں جو اللہ کا رسول ہوں…مجھے دیکھو۔ میں محمد ابن عبداللہ یہاں کھڑا ہوں “
مسلمان حضور کے قریب سے بھاگتے ہوئے گزرتے جارہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نہیں سن رہا تھا۔ خالد بن ولید کہیں نظر نہیں آرہے تھے ۔ وہ آگے کہیں بے ہوش پڑے تھے ۔
اتنے میں قبیلہ ہوازن کے کئی آدمی اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار بھاگتے ہوئے مسلمانوں کے تعاقب میں آئے ان کے آگے ایک شتر سوار تھا جس نے جھنڈا اٹھا رکھا تھا ۔ حضرت علی نے ایک مسلمان کو ساتھ لیا اور اس شتر سوار علمبردار کے پیچھے دوڑ پڑے۔ قریب جاکر حضرت علی نے اس کے اونٹ کی پچھلی ٹانگ پر تلوار کا وار کرکے ٹانگ کاٹ دی ۔ اونٹ گرا تو سوار بھی گر پڑا۔
حضرت علی نے اس کے اٹھتے اٹھتے اس کی گردن صاف کاٹ دی۔
حضورﷺایک ٹیکری پر جاکھڑے ہوئے ۔ دشمن کے کسی آدمی کی للکار سنائی دی…وہ رہا محمد قتل کردو”“تاریخ میں ان آدمیوں کو قبیلہ ثقیف کے لکھا گیا ہے جو اپنے آدمی کی للکار پر اس ٹیکری پر چڑھنے لگے جس پر رسول اللہ کھڑے تھے صحابہ کرام جو آپ کے ساتھ تھے ۔ ان آدمیوں پر ٹوٹ پڑے مختصر معرکے سے وہ سب بھاگ نکلے ۔
ان میں سے کوئی بھی رسول اکرم تک نہ پہنچ سکا ۔
”میں مالک بن عوف سے شکست نہیں کھاؤں گا “…رسول اللہ نے کہا …”وہ اتنی آسانی سے کیسے فتح حاصل کرسکتا ہے“
حضورﷺ نے اپنی فوج کو بکھرتے اور بھاگتے تو دیکھ لیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن بھی دیکھ رہے تھے ، بلکہ دشمن کو زیادہ دیکھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عسکری حس نے محسوس کرلیا کہ مالک بن عوف اپنے پہلے بھرپور اور کامیاب وار پر اس قدر خوش ہوگیا ہے کہ اسے اگلی چال کا خیال ہی نہیں رہا وہ اسلامی فوج کی بھگدڑ اور افراتفری کی پسپائی سے فائدہ نہیں اٹھارہا تھا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو توقع تھی کہ مالک بن عوف کی متحدہ فوج مسلمانوں کے تعاقب میں آئے گی لیکن تعاقب میں دشمن کے جو آدمی آئے تھے وہ تعداد میں تھوڑے اور غیر منظم تھے ۔
اس کے علاوہ حضور اکرم نے اپنے ہر اول دستے کو پیچھے آتے بھی دیکھا تھا اور آپ نے معلوم بھی کیا تھا کہ ہراول کے کتنے آدمی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ کئی ایک مجاہدین ، گھوڑے اور اونٹ زخمی ہوئے ہیں، شہید ایک بھی نہیں ہوا۔
اس سے رسول کریم نے یہ رائے قائم کی کہ یہ دشمن تیر انداز میں اناڑی ہے اور جلد باز بھی ہے ۔ اتنی زیادہ تیر اندازی کسی کو زندہ نہ رہنے دیتی ۔
حضور اکرم نے اپنے پاس کھڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ عنہم پر نظر ڈالی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریں حضرت عباس پر ٹھہر گئیں۔ حضرت عباس کی آواز غیرمعمولی طور پر بلند تھی جو بہت دور تک سنائی دیتی تھی ۔
جسم کے لحاظ سے بھی حضرت عباس قوی ہیکل تھے ۔
”عباس رضی اللہ عنہ“…حضور اکرم نے کہا …”تم پر اللہ کی رحمت ہو۔ مسلمانوں کو پکارو۔ انہیں یہاں آنے کے لیے کہو“
”اے انصار!“…حضرت عباس نے انتہائی بلند آواز میں پکارنا شروع کیا …”اے اہل مدینہ …اے اہل مکہ …آؤ…اپنے رسول کے پاس آؤ “…حضرت عباس رضی اللہ عنہ قبیلوں کے اور آدمیوں کے نام لے کر پکارتے رہے اور کہتے رہے کہ اپنے رسول کے پاس ، اپنے اللہ کے رسول کے پاس آؤ ۔
سب سے پہلے انصار آئے ۔ ان کی تعداد معمولی تھی لیکن ایک کو دیکھ کر دوسرا آتا چلا گیا۔ مکہ کے کچھ دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی آگئے ۔ ان کی تعداد ایک سو ہوگئی ۔ رسول کریم نے دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے بہت سے لوگ پسپا ہوتے مسلمانوں کی طرف دوڑے آرہے تھے ۔ آپ نے ان ایک سو مجاہدین کو دشمن کے ان آدمیوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا ۔
مجاہدین ان کے عقب سے ان پر ٹوٹ پڑے۔
ہوازن کے آدمی بوکھلا گئے اور مقابلے کے لیے سنبھلنے لگے لیکن مجاہدین نے انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی ۔ ان میں سے بہت سے بھاگ نکلے۔ ان کے زخمی اور ہلاک ہونے والے پیچھے رہ گئے ۔
###
وہ تو اچانک ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ مجاہدین میں بھگدڑ مچ گئی تھی ورنہ وہ ہمیشہ اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن سے لڑے اور فاتح و کامران رہے تھے ۔
انہوں نے دیکھا کہ عباس کی پکار پر مسلمان رسول اکرم کے حضور اکٹھے ہورہے ہیں اور دشمن مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ کے جوابی حملے کو بھی برداشت نہیں کرسکا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہوازن اور ثقیف ان کے تعاقب میں نہیں آرہے تو کئی ہزار مجاہدین واپس آگئے ۔ رسول اکرم نے انہیں فورا منظم کیا اور دشمن پرحملے کا حکم دے دیا ۔
خالد ن ولید لاپتہ تھے کسی کو ہوش نہیں تھا کہ دیکھتا کہ کون لاپتہ ہے اور کون کہاں ہے ۔
وہی تنگ گھاٹی جہاں مجاہدین پر قہر ٹوٹا تھا ، اب متحدہ قبائل کے لیے موت کی گھاٹی بن گئی ۔ قبیلہ ہوازن چونکہ سب سے زیادہ لڑاکا قبیلہ تھا اس لیے اسی کے آدمیوں کو آگے رکھا گیا تھا ۔ یہ لوگ بلا شک و شبہ ماہر لڑاکے تھے لیکن مسلمانوں نے جس قہر سے حملہ کیا تھا ۔ اس کے آگے ہوازن ٹھہر نہ سکے۔ مسلمان اس خفت کو بھی مٹانا چاہتے تھے جو انہیں غلطی سے اٹھانی پڑی تھی ۔
یہ دست بدست لڑائی تھی ۔ مجاہدین نے تیغ زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ ہوازن گر رہے تھے یا معرکے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ رسول اکرم معرکے کے قریب ایک بلند جگہ کھڑے تھے ۔ آپ نے لکلار للکار کر کہا :
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا اِبْنِ عَبْدُ الْمُطْلِبْ
”یہ جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں میں ابن عبدالمطلب ہوں “
ہوازن پیچھے ہٹتے چلے جارہے تھے ۔
وہ اب وار کرتے کم اور وار روکتے زیادہ تھے ۔ ان کا دم خم ٹوٹ رہا تھا۔ ان کے پیچھے قبیلہ ثقیف کے دستے تیار کھڑے تھے ۔ مالک بن عوف نے چلا چلا کر ہوازن کو پیچھے ہٹالیا۔ قبیلہ ثقیف کے تازہ دم لڑاکوں نے ہوازن کی جگہ لے لی ۔ مسلمان تھک چکے تھے اور ثقیف تازہ دم تھے لیکن مسلمانوں کو اپنے قریب اپنے رسولﷺ کی موجودگی اور للکار نیا حوصلہ دے رہی تھی ۔
مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں کی ضربوں میں جو قہر اور غضب تھا اور ان کے نعروں اور للکار میں جو گرج اور کڑک تھی ، اس نے ثقیف پر دہشت طاری کردی ۔ ثقیف کے لڑاکے جو عرب میں خاصے مشہور تھے ۔ تیزی سے پیچھے ہٹنے لگے پھر ان کے اونٹوں اور گھوڑوں نے بھگدڑ بپاکردی ۔ اس سے دشمن میں وہی کیفیت پیدا ہوگئی جو گھاٹی میں صبح کے وقت مسلمانوں میں پیدا ہوگئی تھی ۔ ہوازن بڑی بری حالت میں پیچھے کو بھاگے تھے ، اب ثقیف بھی پسپا ہوئے تو ان کے اتحادی قبائل کے حوصلے لڑے بغیر ہی ٹوٹ پھوٹ گئے ۔ وہ افراتفری میں بھاگ اٹھے ۔
###