مالک بن عوف تنگ راستے سے دور پیچھے ہوازن کے بھاگے ہوئے دستوں کو یکجا کر رہا تھا۔ اس کا انداز بتارہا تھا کہ وہ جارحانہ کارروائی سے منہ موڑ چکا ہے اور اپنے دستوں کو دفاعی دیوار کے طور پر ترتیب دے رہا ہے ۔
رسول اللہ نے یہ ترتیب دیکھی تو آپ اپنے لشکر کی طرف چل پڑے۔ آپ نے دیکھا کہ جو مجاہدین صبح کے وقت بھاگ گئے تھے ۔ وہ سب واپس آگئے ہیں۔
حضور نے حکم دیا کہ گھوڑ سواروں کو آگے لاؤ ۔ ذرا سی دیر میں سوار پیادروں سے الگ ہوگئے ۔ آپ نے سواروں کو ایک خاص ترتیب میں کرکے حکم دیا کہ ہوازن کو سنبھلنے اور منظم ہونے کا موقع نہ دو اور برق رفتار حملہ کرو۔
ان سواروں میں بنو سلیم کے وہ سوار بھی شامل تھے جن پر سب سے پہلے تیروں کی بوچھاڑیں آئی تھیں اور مسلمانوں کی جمعیت پارہ پارہ ہوگئی تھی لیکن بنو سلیم کا کمانڈر ان کے ساتھ نہیں تھا۔
(جاری ہے)
وہ تھے خالد بن ولید جو ابھی تک کہیں بے ہوش پڑے تھے ۔
رسول اکرم نے اس سوار دستے کی قیادت زبیر ان العوام کے سپرد کی اور انہیں حکم دیا کہ آگے جو درہ ہے اس پر مالک بن عوف قبضہ کیے بیٹھا ہے اسے درے سے بے دخل کردو ۔
رسول کریم نے جنگ کی کمان اپنے دست مبارک میں لے لی تھی ۔ آپ کے اشارے پر زبیر بن العوام نے ایسا برق رفتار اور جچا تلا ہلہ بولا کہ ہوازن جو ابھی تک بوکھلائے ہوئے تھے مقابلے میں جم نہ سکے اور درّے سے نکل گئے ۔
درہ خاصا لمبا تھا ۔ رسول اکرم نے زبیر کے دستے کو درے میں ہی رہنے دیا اور حکم دیا کہ اب درہ جنگی اڈہ ہوگا ۔
آپ نے دوسرا سوار دستہ آگے کیا جس کے کمانڈر ابوعامر تھے ۔ حضور اکرم نے ابوعامر کے سپرد یہ کام کیا کہ اوطاس کے قریب متحدہ قبائل کا جو کیمپ ہے اس پر حملہ کرو۔
”خالد …خالد یہاں ہے “…کسی نے بڑی دور سے للکار کر کہا …”یہ پڑا ہے ۔
“
رسول اکرم دوڑے گئے اور خالد رضی اللہ عنہ تک پہنچے۔ خالد ابھی تک بے ہوش پڑے تھے۔ آپ خالد کے پاس بیٹھ گئے اور ان کے سر سے پاؤں تک پھونک ماری۔ خالد نے آنکھیں کھول دیں۔ رسول اللہ نے خالد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ خالد اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انہیں جو تیر لگے تھے وہ گہرے نہیں اترے تھے ۔ تیر نکال لیے گئے اور بڑی تیزی سے مرہم پٹی کردی گئی۔
”یارسول اللہ “…خالد نے کہا …”میں لڑوں گا ۔ میں لڑنے کے قابل ہوں “
رسول خدا نے خالد بن ولید کے جسم میں اور ان کی روح میں سحر پھونک دیا تھا ۔ آپ نے خالد سے کہا کہ زبیر کے سوار دستے میں شامل ہوجائے ۔ تم ابھی کمان نہیں لے سکو گے ۔
خالد ایک گھوڑے پر سوار ہوگئے ۔ ان کے کپڑے خون سے لال تھے ۔ انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور زبیر کے سوار دستے میں شامل ہوگئے ۔
انہوں نے زبیر سے پوچھا کیا حکم ہے ۔ زبیر نے انہیں بتایا کہ ہوازن کی خیمہ گاہ پر حملہ کرنا ہے جو اوطاس کے قریب ہے لیکن یہ حملہ ابوعامر رضی اللہ عنہ کریں گے ۔
اوطاس وہاں سے کچھ دور تھا ۔ مالک بن عوف نے ہوازن دستے کو وہاں تک ہٹالیا اور اسے اپنی خیمہ گاہ کے ارد گرد پھیلادیا تھا۔ یہ دفاعی حصار تھا جس کی ہوازن کے کیمپ کے گرد ضرورت اس لیے تھی کہ وہاں وہ ہزاروں عورتیں ، بچے اور مویشی تھے جنہیں قبیلہ ہوازن کے سپاہی اپنے ساتھ لائے تھے ۔
مالک بن عوف نے تو یہ سوچا تھا کہ ہوازن اپنی عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ دیکھ کر زیادہ غیرت مندی اور بے جگری سے لڑیں گے مگر اب یہ صورت پیدا ہوگئی تھی کہ درید بن الصمہ مالک بن عوف کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ اس کے منع کرنے کے باوجود مالک عورتوں کو ساتھ لے آیا تھا ۔ ان کے لیے اب اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو مسلمانوں سے بچانا محال دکھائی دے رہا تھا ۔
####
ابوعامر رضی اللہ عنہ کا سوار دستہ اوطاس کی طرف بڑھا۔ قریب گئے تو ہوازن نے جم کر مقابلہ کای۔ اب وہ جنگ جیتنے کے لیے یا مسلمانوں کو تہس نہس کرکے مکہ پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں سے اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو بچانے کے لیے لڑ رہے تھے یہ بھی دست بدست معرکہ تھا جس میں جنگی چالوں کے نہیں۔ ذاتی شجاعت کے مظاہرے ہورہے تھے۔
سوار اور پیادے لڑتے ہوئے وادی میں پھیلتے جارہے تھے ۔
ابو عامر نے دشمن کے نو سواروں کو ہلاک کردیا مگر دسویں ہوازن کو للکارا تو اس کے ہاتھوں خود شہید ہوگئے ۔ رسول اکرم نے پہلے ہی ان کا جانشین مقرر کردیا تھا ۔ وہ تھے ان کے چچا زاد بھائی ابوموسی۔ انہوں نے فوراً کمان سنبھال لی اور اپنے سواروں کو للکارنے لگے ۔
ہوازن زخمی ہوکر گر رہے تھے ۔
صاف نظر آرہا تھا کہ ان کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں ۔ رسول اکرم نے زبیر بن العوم کو جنہیں آپ نے درے میں روک لیا تھا حکم دیا کہ اپنے دستے کو ابو موسیٰ کی مدد کے لیے لے جائیں۔ حضور نے یہ اس لیے ضروری سمجھا تھا کہ دونوں دستے مل کر ہوازن کا کام جلدی تمام کرسکیں گے ۔
زبیر نے اپنے سواروں کو حملے کا حکم دیا۔ جب گھوڑے دوڑے اس وقت خالد بن ولید کا گھوڑا دستے کے آگے تھا۔
ہوازن پہلے ہی ہمت ہار چکے تھے ۔مسلمانوں کے دوسرے سوار دستے کے حملے کی وہ تاب نہ لاسکے۔ ان کے زخمیوں کی تعداد معمولی نہیں تھا۔ وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے کیمپ کو گھیرے میں لے لیا۔
چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے لڑاکوں نے جب ہوازن اور ثقیف جیسے طاقتور قبیلوں کو بھاگتے دیکھا تو وہ وہاں سے بالکل غائب ہوگئے اور اپنی اپنی بستیوں میں جاپہنچے ۔
مالک بن عوف میدان جنگ میں کہیں نظر نہیں آرہا تھا ۔ وہ نظر آہی نہیں سکتا تھا ۔ اسے اپنے شہر طائف کی فکر پیدا ہوگئی تھی ۔ اس نے اپنے قبیلے کے سرداروں سے کہا کہ مسلمان جس رفتار اور جس جذبے سے آرہے ہیں اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ طائف تک پہنچیں گے اور اس بستی کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے ۔ اس خطرے کے پیش نظر اس نے قبیلہ ثقیف کے تمام دستوں کو لڑائی سے نکالا اور طائف جادم لیا۔
پیچھے حنین کی وادی میں کیفیت یہ تھی کہ ہوازن کی عورتیں اور بچے چیخ و پکار کر رہے تھے تمام وسیع و عریض وادی مجاہدین اسلام کی تحویل میں تھی مکہ کے جو غیر فوجی مجاہدین کے ساتھ آئے تھے وہ زخمی مجاہدین کو اٹھارہے تھے ۔ دشمن کے زخمی کراہ رہے تھے مر رہے تھے ، مرنے والوں میں بوڑھا درید بن الصمہ بھی تھا ۔ وہ لڑتا ہوا مار اگیا تھا ۔
مسلمانوں کو دشمن کے زخمیوں اور قیدیوں سے جو ہتھیار اور گھوڑے ملے، ان کے علاوہ چھ ہزار عورتیں اور بچے، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور بے شمار چاندی ہاتھ لگی ۔
مسلمانوں نے جنگ جیت لی تھی لیکن رسول اللہ نے فیصلہ کیا کہ مالک بن عوف کو مہلت نہیں دی جائے گی کہ وہ سستاسکے اور اپنی فوج کو منظم کرسکے۔ آپ نے دراصل سانپ کا سر کچلنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ آپ کے حکم سے مال غنیمت میں آئی ہوئی عورتوں، بچوں، مویشیوں اور دیگر مال کو ایک دستے کے ساتھ جعرانہ بھیج دیا گیا اگلے حکم تک انہیں جعرانہ میں ہی رہنا تھا۔
دوسرے دن رسول اکرم کے حکم سے اسلامی فوج طائف کی طرف پیش قدمی کرگئی جہاں بڑی خونریز جنگ کی توقع تھی ۔
معرکہ حنین کا ذکر قرآن حکیم میں سورہ توبہ میں آیا ہے ۔ بعض صحابہ کرام نے معرکہ شروع ہونے سے پہلے کہا تھا کہ ہمیں شکست کون دے سکتا ہے ، اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کون کرسکتا ہے ۔ سورہ توبہ میںآ یا ہے :
”اللہ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کی اور حنین کے دن بھی جب تم کو اپنی کثرت پر ناز تھا ، حالانکہ وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی وسعت کے تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگے، پھر اللہ نے اپنے رسول اور مسلمانوں پر تسلی نازل کی اور وہ فوجیں اتاریں جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو سزا دی اور کافروں کا بدلہ یہی ہے “
###