Episode 68 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 68 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

قاصدوں نے مالک بن عوف کو بالکل صحیح اطلاع دی تھی کہ طائف کے راستے پر مسلمانوں کا نام و نشان نظر نہیں آتا لیکن مسلمان سیلاب کی طرح طائف کی طرف بڑھے چلے آرہے تھے ۔ انہوں نے رسول اکرم کے حکم سے راستہ بدل لیا تھا۔ بدلا ہوا راستہ بہت لمبا تھا لیکن رسول کریم نے اتنا لمبا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ چھوٹا راستہ پہاڑیوں اور چٹانوں سے گزرتا تھا ۔
کھڈنالے بھی تھے ۔ رسول کریم نے اپنے سالاروں سے کہا تھا کہ حنین کے پہلے تجربے کو نہ بھولو۔ مالک بن عوف بڑا کایاں جنگجو ہے۔ آپ نے فرمایا کہ طائف تک کا تمام علاقہ گھات کے لیے موزوں ہے ۔ مالک بن عوف ویسی ہی گھات لگاسکتا ہے جیسی گھات اس نے خالد بن ولید کو تیروں سے چھلنی کردیا تھا ۔ 
رسول اکرم نے جو راستہ طائف پہنچنے کے لیے اختیار کیا تھا وہ وادی الملیح سے گزرتا تھا اور وادی القرن میں داخل ہوجاتا تھا۔

(جاری ہے)

آپ اپنے لشکر کو وادی القرن میں سے گزارنے کی بجائے طائف کے شمال مغرب میں سات میل دور نکل گئے اور نخب اور صاویرا کے علاقے میں داخل ہوگئے ۔ یہ علاقہ نشیب و فراز کا تھا اس میں پہاڑیاں اور چٹانیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مجاہدین کا یہ لشکر ۵فروری ۶۳۰(۱۵ شوال ۸ ہجری) کے روز طائف کے گردونواح میں اس سمت سے پہنچا جو طائف والوں کے وہم و گمان میں نہیں تھی ۔
مجاہدین اسلام کا کوچ بڑا ہی تیز تھا ۔ ہراول میں بنو سلیم تھے جن کے کمانڈر خالد بن ولید تھے ۔ توقعات کے عین مطابق طائف تک دشمن کہیں بھی نظر نہ آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی (جیسا کہ مورخین نے لکھا ہے ) کہ مالک بن عوف اب کھلے میدان میں لڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا ۔ 
حنین کے معرکے میں زیادہ تر نقصان بنو ہوازن کا ہوا تھا۔ قبیلہ ثقیف لڑا تھا لیکن جو ٹکر بنو ہوازن نے لی تھی وہ بنو ثقیف کو لینے کا موقع نہیں ملا تھا۔
پھر بھی ثقیف پسپا ہوآئے تھے ۔ رسول کریم اس خطرے سے بے خبر نہیں تھے کہ اہل ثقیف تازہ دم ہیں اور وہ اپنے شہر کے دفاع میں لمبے عرصے تک لڑیں گے ۔ 
معلوم نہیں یہ کس کی غلطی تھی کہ مسلمان شہر کی دیوار کے خطرناک حد تک قریب جارکے۔ وہاں وہ پڑاؤ کرنا چاہتے تھے ۔ اچانک اہل ثقیف دیوارو ں پر نمودار ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں پر تیروں کا مینہ برسادیا۔
بہت سے مسلمان زخمی اور کچھ شہید ہوگئے ۔ مسلمان پیچھے ہٹ آئے ۔ رسول کریم نے حضرت ابوبکر صدیق کو محاصرے کا کمانڈر مقرر کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے بڑی تیزی سے شہر کا محاصرہ مکمل کرلیا۔ انہوں نے ان راستوں پر زیادہ نفری کے دستے رکھے جن راستوں سے دشمن کا فرار ممکن تھا ۔ 
شہر کا دفاع بڑا مضبوط تھا ۔ قبیلہ ثقیف پوری طرح تیار تھا۔
مسلمان تیر اندازی کے سوا اور کوئی کارروائی نہیں کرسکتے تھے ۔ مجاہدین نے یہاں تک بے خوفی کے مظاہرے کیے کہ شہر کی دیوار کے قریب جاکر اہل ثقیف کے ان تیر اندازوں پر تیر پھینکے جو دیواروں پر تھے ۔ چونکہ وہ دیوار کے اوپر تھے اور انہیں اوٹ بھی میسر تھی ، اس لیے ان کے تیر مسلمانوں کا زیادہ نقصان کرتے تھے ۔ مسلمان تیر اندازوں کے جیش آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹ آتے۔
مسلمانوں کے زخمیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔ محاصرے کے کمانڈر حضرت ابوبکر  کے اپنے بیٹے عبداللہ بنو ثقیف کے تیروں سے شہید ہوگئے ۔ 
پانچ چھ دن اسی طرح گزر گئے ۔ تاریخ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ لشکر کے ساتھ تھے۔ جنگ خندق میں مدینہ کے دفاع کے لیے جو خندق کھودی گئی تھی وہ سلمان فارسی کی جنگی دانش کا کمال تھا ۔
اس سے پہلے عرب خندق کے طریقہ دفاع سے ناواقف تھے ۔ اب سلمان فارسی نے دیکھا کہ محاصرہ کامیاب نہیں ہورہا تو انہوں نے شہر پر پتھر پھینکنے کے لیے ایک منجینق تیار کروائی لیکن یہ کامیاب نہ ہوسکی ۔ 
سلمان فارسی  نے ایک دبابہ تیار کروائی ۔ یہ لکڑی یا چمڑے کی بہت بڑی ڈھال ہوتی تھی جسے چند آدمی پکڑ کر آگے آگے چلتے تھے خود ا سکی اوٹ میں رہتے تھے اور اس کی اوٹ میں بہت سے آدمی قلعے کے دروازے تک چلے جاتے تھے سلمان فارسی نے جو دبابہ تیار کروائی وہ گائے کی کھال کی بنی ہوئی تھی ایک جیش اس دبابہ کی اوٹ میں شہر کے بڑے دروزے تک پہنچا۔
اوپر سے آنے والے تیروں کی تمام تر بوچھاڑیں دبابے میں لگتی رہیں لیکن دبابہ جب اپنی اوٹ میں جیش کو لے کر دروازے کے قریب پہنچی تو دشمن نے اوپر سے دہکتے ہوئے انگارے اور لوہے کے لال سرخ ٹکڑے دبابے پر اتنے پھینکے کہ کھال کی دبابہ تیر روکنے کے قابل نہ رہی کیونکہ یہ کئی جگہ سے جل گئی تھی ۔ دبابہ چونکہ عربوں کے لیے ایک نئی چیز تھی جو پہلے ہی استعمال میں بیکار ہوگئی تھی اس لیے وہ اسے وہیں پھینک کر پیچھے کو دوڑے ۔
اہل ثقیف نے ان پر تیر برسائے جن سے کئی ایک مجاہدین زخمی ہوگئے ۔ 
دس دن اور گزر گئے ۔ محاصرے اور دفاع کی صورت یہ یہی کہ مسلمان تیر برساتے ہوئے آگے بڑھتے اور تیر کھا کر پیچھے ہٹ آتے تھے ۔ بنو ثقیف پر اس کا یہ اثر ہو اکہ ان پر مسلمانوں کی بے جگری اور بے خوفی کی دہشت طاری ہوگئی یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کسی طرف سے باہر آکر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کی ۔
آخر ایک روز رسول کریم نے اپنے سالاروں کو اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ محاصرے کی کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ آپ نے سالاروں سے مشورہ طلب کیا کہ کیا کیا جائے ۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے کہا کہ محاصرہ اٹھالیا جائے اور مکہ کو کوچ کا حکم دیا جائے ۔ خود رسول کریم محاصرہ اٹھانے کے حق میں تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ مکہ کے انتظامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ کے محتاج تھے ۔
مکہ چند ہی دن پہلے فتح کیا گیا تھا۔ خطرہ تھا کہ طائف کا محاصرہ طول پکڑ گیا تو مکہ میں دشمن کو سر اٹھانے کا موقع مل جائے گا ۔ 
۲۳فروری ۶۳۰ء (۴ذیقعد۸ھ) کے روز محاصرہ اٹھالیا گیا۔ محاصرہ اٹھانے کا اثر اہل ثقیف پر کچھ اور ہونا چاہیے تھا لیکن ان پر اس قسم کا خوف طاری ہوگیا کہ مسلمان جو اب جارہے ہیں معلوم نہیں کس وقت لوٹ آئیں اور شہر پر یلغار کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔
خود مالک بن عوف کی سوچ میں انقلاب آچکا تھا ۔ کاہن کی جھوٹی پیشن گوئی اور معرکہ حنین میں مسلمانوں کی ضرب کاری نے اسے اپنے عقیدوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور کردیا تھا ۔ 
مسلمان ۲۶فروری کے روز جعرانہ کے مقام پر پہنچے جہاں رسول کریم نے مال غنیمت اکٹھا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اس مال غنیمت میں چھ ہزار عورتیں اور بچے تھے اور ہزارہا اونٹ اور بھیڑ بکریاں بھی تھیں۔
فوجی سازوسامان کا انبار تھا۔ رسول کریم نے دشمن کی عورتوں، بچوں اور جانوروں کو اپنے لشکر میں تقسیم کردیا ۔ 
مجاہدین کا لشکر جعرانہ سے ابھی چلا نہ تھا کہ قبیلہ ہوازن کے چند ایک سردار رسول کریم کے حضور پہنچے اور یہ اعلان کیا کہ ہوازن کے تمام تر قبیلے نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ان سرداروں نے رسول اکرم سے درخواست کی کہ ان کا مال غنیمت انہیں واپس دے دیا جائے ۔
رسول کریم نے پوچھا کہ انہیں مال غنیمت میں سے کون سی چیز زیادہ عزیز ہے ۔ اہل و عیال یا اموال؟سرداروں نے کہا کہ ان کی عورتیں اور بچے انہیں واپس دے دیے جائیں اور باقی مال غنیمت مسلمان اپنے پاس رکھ لیں ۔ 
رسول کریم نے مجاہدین کے لشکر سے کہا کہ بنو ہوازن کو ان کی عورتیں اور بچے واپس کردیے جائیں تمام لشکر نے عورتیں اور بچے واپس کردیے ۔
 
بنوہوازن کو توقع نہیں تھی کہ رسول کریم اس قدر فیاضی کا مظاہرہ کریں گے یا مجاہدین کا لشکر اپنے حصے میں آیا ہوا مال غنیمت واپس کردے گا ۔ مسلمانوں کی اس فیاضی کا اثر یہ ہوا کہ قبیلہ ہوازن نے اسلام کو دل و جان سے قبول کرلیا۔ ہوازن کے سردار اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر چلے گئے ۔ مسلمانوں کی فیاضی کے اثرات طائف کے اندر تک پہنچ گئے ۔ مسلمان ابھی جعرانہ میں تھے کہ ایک روز مالک بن عوف مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں آیا او ررسول کریم کے حضور پہنچ کر اسلام قبول کرلیا۔ 
دیوتا لات کی خدائی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط