Episode 74 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 74 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

اگلی شام فیروز اس جگہ سے گزرا جو اس نے قیس بن ہبیرہ کو بتائی تھی ۔ فیروز کے اشارے پر قیس گداگروں کے انداز سے اٹھ کر فیروز کے پیچھے پیچھے ہاتھ پھیلا کر چل پڑا۔ 
”رسول خدا تک پیغام پہنچادینا کہ آپ کے نام پر جان قربان کرنے والا ایک آدمی اسود عنسی کے سائے میں بیٹھا ہے “…فیروز نے چلتے چلتے ادھر ادھر دیکھے بغیر دھیمی سی آواز میں کہا …”اور میں حیران ہوں کہ اتنی جنگی طاقت کے باوجود رسول اللہ نے یمن پر حملہ کیوں نہیں کیا “
”ہرقل کا لشکر اردن میں ہمارے سر پر کھڑا ہے “…قیس نے کہا …”ہمارا لشکر رومیوں پر حملہ کرنے جارہا ہے۔
کیا ہم دو آدمی پورے لشکر کا کام نہیں کرسکیں گے ؟“
”کیا تو نے یہ سوچا ہے کہ دو آدمی کیا کرسکتے ہیں ؟“…فیروز نے پوچھا ۔

(جاری ہے)

 

”قتل“…قیس نے جواب دیا اور کہنے لگا …”مجھ سے یہ نہ پوچھنا کہ اسود کو کس طرح قتل کیا جاسکتا ہے کیا تو نے اپنے چچا کی بیٹی آزاد کو دل سے اتاردیا ہے ؟“
فیروز چلتے چلتے رک گیا۔ اس کے چہرے پر کچھ اور ہی طرح کی رونق آگئی جیسے خون اچانک ابل پڑا ہو۔
 
”تو نے مجھے روشنی دکھادی ہے “…اس نے کہا …”قتل کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ میری چچا زاد بہن کا نام لے کر تو نے میرا کام آسان کردیا ہے ۔ یہ کام میں کروں گا ۔ تو اپنا کام کر تارہ…جاقیس زندہ رہے تو ملیں گے “
مورخوں نے لکھا ہے کہ فیروز کے دل میں اسود کی جو نفرت دبی ہوئی تھی وہ ابھر کر سامنے آگئی اس نے اسود عنسی کے ایرانی سالار قیس بن عبدالغیوث اور داذویہ کو اپنا ہمراز بنالیا۔
اسود کا قتل ایک وزیر کے لیے بھی آسان نہیں تھا جو اس کے ساتھ رہتا تھا ۔ اسود کے محافظ اسے ہر وقت اپنے نرغے میں رکھتے تھے ۔ سوچ سوچ کر ان تینوں ایرانیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آزاد کو اس کام میں شریک کیا جائے لیکن قتل آزاد کے ہاتھوں نہ کرایا جائے ۔ 
آزاد تک رسائی آسان نہیں تھی ۔ اسود کو شک ہوگیا تھا کہ تینوں ایرانی اسے دل سے پسند نہیں کرتے ۔
اس نے ان پر بھروسہ کم کردیا تھا۔ آزاد اور فیروز کی ویسے بھی کبھی ملاقات نہیں ہوتی تھی ۔ 
آزاد تک پیغام پہنچانے کے لیے عورت ہی کی ضرورت تھی ۔ ایک وزیر کے لیے ایسی عورت کا حصول مشکل نہ تھا۔ فیروز نے محل کی ایک ادھیڑ عمر عورت کو اپنے پاس بلایا۔ وہ بھی مسلمان تھی ۔ فیروز نے اسے کہا کہ وہ اسے اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے ۔ اگر وہ پسند کرے تو وہ اسے اپنے ہاں لاسکتا ہے ۔
فیروز نے اسے کچھ لالچ دیا۔ ایک یہ تھا کہ اس سے اتنا زیادہ کام نہیں لیا جائے گا جتنا اب لیا جاتا ہے ۔ وہ عورت مان گئی۔ فیروز نے اسی روز اسے اپنے ہاں بلالیا۔ 
###
ایک روز آزاد اکیلی بیٹھی تھی۔ وہ ہروقت جلتی اور کڑھتی رہتی تھی ۔ اسے کوئی راہ فرار نظر نہیں آتی تھی۔ اس کیفیت میں فیروز کی وہی خادمہ اس کے پاس آتی۔ 
”میں کسی کام کے بہانے آئی ہوں “…خادمہ نے کہا …”لیکن میں آئی دراصل تیرے پاس ہوں …کیا تو اپنے چچاز بھائی سے کبھی ملی ہے جو رحمن الیمن کا وزیر ہے “
”کیا تو جاسوسی کرنے آتی ہے ؟“…آزاد نے غصیلی آواز میں کہا ۔
 
”نہیں“…خادمہ نے کہا …”مجھ پر شک نہ کر کہ میں اس جھوٹے نبی کی مخبر ہوں۔ میرے دل میں بھی اسود کی اتنی ہی نفرت ہے جنتی تیرے دل میں ہے “
”میں نہیں سمجھ سکی کہ تو میرے پاس کیوں آئی ہے “…آزاد نے کہا ۔ 
”فیروز وزیر نے بھیجا ہے “…خادمہ نے کہا۔ 
”میں فیروز کا نام بھی نہیں سننا چاہتی “…آزاد نے کہا …”اگر اس میں غیرت ہوتی تو وہ اس شخص کا وزیر نہ بنتا جس نے اس کی چچا زاد بہن کو بیوہ کیا اور اسے جبراً اپنی بیوی بنالیا ہے “
آزاد شاہی خاندان کی عورت تھی ۔
وہ ان لونڈیوں اور باندیوں کو اچھی طرح سمجھتی تھی ۔ اس نے اندازہ کرلیا کہ یہ عورت مخبری کرنے نہیں آئی ۔ اس نے خادمہ سے پوچھا کہ فیروز نے اس کے لیے کیا پیغام بھیجا ہے ۔ خادمہ نے بتایا کہ وہ اسے صرف ملنا چاہتا ہے ۔ آزاد نے اسے ایک جگہ بتاکر کہا کہ فیروز وہاں رات کو آجائے ۔ 
”لیکن ہمارے درمیان ایک دیوار حائل ہوگی “…آزاد نے کہا …”اس میں ایک جگہ ایک دریچہ ہے جس میں سلاخیں لگی ہوئی ہیں فیروز سلاخوں کے دوسری طرف کھڑا ہوکر بات کرسکتا ہے “
خادمہ نے آزاد کا پیغام فیروز کو دے دیا ۔
 
اسی رات فیروز محل کے ارد گرد کھڑی دیوار کے اس مقام تک پہنچ گیا جہاں سلاخوں والا چھوٹا سا دریچہ تھا۔ آزاد اس کے انتظار میں کھڑی تھی ۔ 
”تیری خادمہ پر مجھے اعتبار آگیا ہے “…آزاد نے کہا …”تجھ پر میں کیسے اعتبار کروں؟میں نہیں مانوں گی کہ تو مجھے اس وحشی سے سے آزاد کرانے کی سوچ رہا ہے “
”کیا تو اس وحشی کے ساتھ خوش ہے ؟“…فیروز نے پوچھا ۔
 
”اس سے زیادہ قابل نفرت آدمی میں نے کوئی اور نہیں دیکھا “…آزاد نے کہا …”تیرا یہاں زیادہ دیر کھڑے رہنا ٹھیک نہیں۔ فوراً بتا تجھے اتنے عرصے بعد میرا کیوں خیال آیا ہے ؟“
”کیا اس وقت اسود کے ادھر آنکلنے کا خطرہ ہے ؟“…فیروز نے پوچھا …”یا ابھی وہ تمہیں…“
”نہیں“…آزاد نے کہا …”پہرہ داروں کا خطرہ ہے ۔ا سود اس وقت شراب کے نشے میں بے سدھ پڑا ہے۔
اس کے پاس عورتوں کی کمی نہیں “
”میں صرف تجھے نہیں پورے یمن کو آزاد کراؤں گا “…فیروز نے کہا …”لیکن تیری مدد کے بغیر میں کامیاب نہیں ہوسکتا “
”مجھے بتا فیروز!“…آزاد نے پوچھا…”میں کیا کرسکتی ہوں ؟“
”کسی رات مجھے اسود تک پہنچادے “…فیروز نے کہا …”اگلے روز وہاں سے اس کی لاش اٹھائی جائے گی …کیا تو یہ کام کرسکتی ہے ؟“

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط