اگلی شام فیروز اس جگہ سے گزرا جو اس نے قیس بن ہبیرہ کو بتائی تھی ۔ فیروز کے اشارے پر قیس گداگروں کے انداز سے اٹھ کر فیروز کے پیچھے پیچھے ہاتھ پھیلا کر چل پڑا۔
”رسول خدا تک پیغام پہنچادینا کہ آپ کے نام پر جان قربان کرنے والا ایک آدمی اسود عنسی کے سائے میں بیٹھا ہے “…فیروز نے چلتے چلتے ادھر ادھر دیکھے بغیر دھیمی سی آواز میں کہا …”اور میں حیران ہوں کہ اتنی جنگی طاقت کے باوجود رسول اللہ نے یمن پر حملہ کیوں نہیں کیا “
”ہرقل کا لشکر اردن میں ہمارے سر پر کھڑا ہے “…قیس نے کہا …”ہمارا لشکر رومیوں پر حملہ کرنے جارہا ہے۔
کیا ہم دو آدمی پورے لشکر کا کام نہیں کرسکیں گے ؟“
”کیا تو نے یہ سوچا ہے کہ دو آدمی کیا کرسکتے ہیں ؟“…فیروز نے پوچھا ۔
(جاری ہے)
”قتل“…قیس نے جواب دیا اور کہنے لگا …”مجھ سے یہ نہ پوچھنا کہ اسود کو کس طرح قتل کیا جاسکتا ہے کیا تو نے اپنے چچا کی بیٹی آزاد کو دل سے اتاردیا ہے ؟“
فیروز چلتے چلتے رک گیا۔ اس کے چہرے پر کچھ اور ہی طرح کی رونق آگئی جیسے خون اچانک ابل پڑا ہو۔
”تو نے مجھے روشنی دکھادی ہے “…اس نے کہا …”قتل کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ میری چچا زاد بہن کا نام لے کر تو نے میرا کام آسان کردیا ہے ۔ یہ کام میں کروں گا ۔ تو اپنا کام کر تارہ…جاقیس زندہ رہے تو ملیں گے “
مورخوں نے لکھا ہے کہ فیروز کے دل میں اسود کی جو نفرت دبی ہوئی تھی وہ ابھر کر سامنے آگئی اس نے اسود عنسی کے ایرانی سالار قیس بن عبدالغیوث اور داذویہ کو اپنا ہمراز بنالیا۔
اسود کا قتل ایک وزیر کے لیے بھی آسان نہیں تھا جو اس کے ساتھ رہتا تھا ۔ اسود کے محافظ اسے ہر وقت اپنے نرغے میں رکھتے تھے ۔ سوچ سوچ کر ان تینوں ایرانیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آزاد کو اس کام میں شریک کیا جائے لیکن قتل آزاد کے ہاتھوں نہ کرایا جائے ۔
آزاد تک رسائی آسان نہیں تھی ۔ اسود کو شک ہوگیا تھا کہ تینوں ایرانی اسے دل سے پسند نہیں کرتے ۔
اس نے ان پر بھروسہ کم کردیا تھا۔ آزاد اور فیروز کی ویسے بھی کبھی ملاقات نہیں ہوتی تھی ۔
آزاد تک پیغام پہنچانے کے لیے عورت ہی کی ضرورت تھی ۔ ایک وزیر کے لیے ایسی عورت کا حصول مشکل نہ تھا۔ فیروز نے محل کی ایک ادھیڑ عمر عورت کو اپنے پاس بلایا۔ وہ بھی مسلمان تھی ۔ فیروز نے اسے کہا کہ وہ اسے اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے ۔ اگر وہ پسند کرے تو وہ اسے اپنے ہاں لاسکتا ہے ۔
فیروز نے اسے کچھ لالچ دیا۔ ایک یہ تھا کہ اس سے اتنا زیادہ کام نہیں لیا جائے گا جتنا اب لیا جاتا ہے ۔ وہ عورت مان گئی۔ فیروز نے اسی روز اسے اپنے ہاں بلالیا۔
###
ایک روز آزاد اکیلی بیٹھی تھی۔ وہ ہروقت جلتی اور کڑھتی رہتی تھی ۔ اسے کوئی راہ فرار نظر نہیں آتی تھی۔ اس کیفیت میں فیروز کی وہی خادمہ اس کے پاس آتی۔
”میں کسی کام کے بہانے آئی ہوں “…خادمہ نے کہا …”لیکن میں آئی دراصل تیرے پاس ہوں …کیا تو اپنے چچاز بھائی سے کبھی ملی ہے جو رحمن الیمن کا وزیر ہے “
”کیا تو جاسوسی کرنے آتی ہے ؟“…آزاد نے غصیلی آواز میں کہا ۔
”نہیں“…خادمہ نے کہا …”مجھ پر شک نہ کر کہ میں اس جھوٹے نبی کی مخبر ہوں۔ میرے دل میں بھی اسود کی اتنی ہی نفرت ہے جنتی تیرے دل میں ہے “
”میں نہیں سمجھ سکی کہ تو میرے پاس کیوں آئی ہے “…آزاد نے کہا ۔
”فیروز وزیر نے بھیجا ہے “…خادمہ نے کہا۔
”میں فیروز کا نام بھی نہیں سننا چاہتی “…آزاد نے کہا …”اگر اس میں غیرت ہوتی تو وہ اس شخص کا وزیر نہ بنتا جس نے اس کی چچا زاد بہن کو بیوہ کیا اور اسے جبراً اپنی بیوی بنالیا ہے “
آزاد شاہی خاندان کی عورت تھی ۔
وہ ان لونڈیوں اور باندیوں کو اچھی طرح سمجھتی تھی ۔ اس نے اندازہ کرلیا کہ یہ عورت مخبری کرنے نہیں آئی ۔ اس نے خادمہ سے پوچھا کہ فیروز نے اس کے لیے کیا پیغام بھیجا ہے ۔ خادمہ نے بتایا کہ وہ اسے صرف ملنا چاہتا ہے ۔ آزاد نے اسے ایک جگہ بتاکر کہا کہ فیروز وہاں رات کو آجائے ۔
”لیکن ہمارے درمیان ایک دیوار حائل ہوگی “…آزاد نے کہا …”اس میں ایک جگہ ایک دریچہ ہے جس میں سلاخیں لگی ہوئی ہیں فیروز سلاخوں کے دوسری طرف کھڑا ہوکر بات کرسکتا ہے “
خادمہ نے آزاد کا پیغام فیروز کو دے دیا ۔
اسی رات فیروز محل کے ارد گرد کھڑی دیوار کے اس مقام تک پہنچ گیا جہاں سلاخوں والا چھوٹا سا دریچہ تھا۔ آزاد اس کے انتظار میں کھڑی تھی ۔
”تیری خادمہ پر مجھے اعتبار آگیا ہے “…آزاد نے کہا …”تجھ پر میں کیسے اعتبار کروں؟میں نہیں مانوں گی کہ تو مجھے اس وحشی سے سے آزاد کرانے کی سوچ رہا ہے “
”کیا تو اس وحشی کے ساتھ خوش ہے ؟“…فیروز نے پوچھا ۔
”اس سے زیادہ قابل نفرت آدمی میں نے کوئی اور نہیں دیکھا “…آزاد نے کہا …”تیرا یہاں زیادہ دیر کھڑے رہنا ٹھیک نہیں۔ فوراً بتا تجھے اتنے عرصے بعد میرا کیوں خیال آیا ہے ؟“
”کیا اس وقت اسود کے ادھر آنکلنے کا خطرہ ہے ؟“…فیروز نے پوچھا …”یا ابھی وہ تمہیں…“
”نہیں“…آزاد نے کہا …”پہرہ داروں کا خطرہ ہے ۔ا سود اس وقت شراب کے نشے میں بے سدھ پڑا ہے۔
اس کے پاس عورتوں کی کمی نہیں “
”میں صرف تجھے نہیں پورے یمن کو آزاد کراؤں گا “…فیروز نے کہا …”لیکن تیری مدد کے بغیر میں کامیاب نہیں ہوسکتا “
”مجھے بتا فیروز!“…آزاد نے پوچھا…”میں کیا کرسکتی ہوں ؟“
”کسی رات مجھے اسود تک پہنچادے “…فیروز نے کہا …”اگلے روز وہاں سے اس کی لاش اٹھائی جائے گی …کیا تو یہ کام کرسکتی ہے ؟“