رسول اللہ ﷺ کے وصال کی خبر جوں جوں پھیلتی گئی یہ جنگل کی آگ ہی ثابت ہوئی ۔ جہاں پہنچی وہاں شعلے اٹھنے لگے ۔ یہ شعلے بغاوت کے تھے ۔ ایک تو اسلام کے دشمن تھے جنہوں نے اپنی تخریبی سرگرمیاں تیز کردیں۔ دوسرے وہ قبیلے تھے جنہوں نے صرف اس لیے اسلام قبول کیا تھا کہ ان کے سردار مسلمان ہوگئے تھے ۔ ایسے قبیلے اتنے زیادہ نہیں تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا تھا ۔
باقی تمام قبیلے اسلام سے نہ صرف منحرف ہوگئے بلکہ انہوں نے مدینہ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور مدینہ پر حملے کی باتیں کرنے لگے۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق نے باقی قبیلوں کو پیغام بھیجے کہ وہ اسلام کو نہ چھوڑیں ۔ قاصد جہاں بھی گئے وہاں سے انہیں جواب ملا کہ ہمارا قبول اسلام صرف ایک شخص (رسول کریم) کے ساتھ معاہدہ تھا ۔
(جاری ہے)
وہ شخص (صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں رہا تو معاہدہ بھی نہیں رہا۔
اب ہم آزاد ہیں اور ہم اپنا راستہ اختیار کریں گے ۔
تیسرا اور سب سے زیادہ خطرناک فتنہ مردتدین کا تھا۔ رسول کریم کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہوگئے تھے۔ ان کی پشت پناہی رومی، ایرانی اور یہودی کر رہے تھے ۔ ان جھوٹے نبیوں میں ایک خوبی مشترک تھی ۔ وہ شعبدہ باز اور جادوگر تھے ۔ شعبدہ بازی اور جادوگری میں یہودی ماہر تھے ۔
اسو د عنسی کا ذکر ہوچکا ہے وہ بھی شعبدہ باز تھا ۔
نبوت کے دوسرے دو دعویدار طلحہ اور مسلیمہ تھے ۔ مسلیمہ خاص طور پر شعبدہ بازی میں مہارت رکھتا تھا ۔ ایسے شعبدے سے پہلے کوئی نہ دکھاسکا تھا ۔ مثلاً وہ پرندے کے پر اس کے جسم سے الگ کرکے دکھاتا پھر پرندے اور پروں کو اکٹھے ہاتھوں میں لے کر اوپر پھینکتا تو پر پرندے کے ساتھ ہوتے اور پرندہ اڑ جاتا تھا ۔
مسلیمہ بدصورت انسان تھا ۔ اس کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے یہ انسان کا نہیں حیوان کا چہرہ ۔ خدوخال بھی حیوانوں جیسے تھے ۔ اس کا قد چھوٹا تھا۔ چہرے کا رنگ زرد تھا لیکن اس کے جسم میں غیر معمولی طاقت تھی ۔ اس کی آنکھیں غیر قدرتی طور پر چھوٹی اور ناک چپٹی تھی ۔ یہ ایک بھدے آدمی کی تصویر ہے جسے کوئی بدصورت انسان بھی پسند نہیں کرسکتا مگر جو عورت خواہ وہ کتنی ہی حسین اور سرکش کیوں نہ ہوتی۔
اس کے قریب جاتی تو اس کی گرویدہ ہوجاتی اور اس کے اشاروں پر ناچنے لگتی تھی ۔
مسلیمہ نے رسول کریم کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور دو قاصدوں کے ہاتھ ایک خط ان الفاظ میں لکھا تھا :
”مسلیمہ رسول اللہ کی جانب سے ، محمد رسول اللہ کے نام۔ آپ پر سلامتی ہو ، بعد واضح ہو کہ میں رسالت میں آپ کا شریک بنایا گیا ہوں۔ لہٰذا نصف زمین میری ہے اور نصف قریش کی مگر قریش انصاف نہیں کر رہے “
رسول اکرم نے خط پڑھا اور قاصدوں سے پوچھا کہ مسلیمہ کے اس عجیب و غریب پیغام کے متعلق ان کی کیا رائے ہے ۔
”ہم وہی کہتے ہیں جو خط میں لکھا ہے “…ایک قاصد نے جواب دیا ۔
”خدا کی قسم !“…رسول اللہ نے کہا …”اگر قاصدوں کے قتل کو میں روا سمجھتا تو تم دونوں کے سرتن سے جدا کردیتا “
آپ نے مسلیمہ کو اس کے خط کے جواب میں لکھوایا :
”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمد رسول اللہ کی جانب سے۔ مسلیمہ کذاب کے نام۔ زمین اللہ کی ہے ۔ وہ اپنے متقی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنادیتا ہے “
اس کے بعد مسلیمہ کو سب کذاب کہنے لگے اور اسلام کی تاریخ نے بھی اسے مسلیمہ کذاب ہی کہا ہے ۔
رسول خدا ن دنوں بستر علالت پر تھے۔ آپ نے ضروری سمجھا کہ جس شخص نے یہ جسارت کی ہے کہ رسول کریم سے زمین کا مطالبہ کردیا ہے اس کی سرگرمیوں اور لوگوں پر اس کے اثرات کو فوراً ختم کیا جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ ایک شخص انہاراً الرجال پر پڑی۔ اس شخص نے اسلام قبول کرکے دین کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ قرآن کی آیات پر اسے عبور حاصل تھا اور وہ عالم و فاضل کہلانے کے قابل تھا ۔
رسول مقبول نے اس شخص کو بلاکر ہدایات دیں کہ وہ یمامہ جائے اور لوگوں کو اسلامی تعلیم دے۔ آپ نے الرجال کو اچھی طرح سمجھایا کہ مسلیمہ کے اثرات زائل کرنے ہیں تاکہ خون خراب کے بغیر ہی یہ شخص گمنام اور اس کا دعو یٰ اثر ہوجائے ۔ رسول اللہ کے حکم کی تعمیل میں الرّجال روانہ ہوگیا ۔
###
مسلیمہ بن حبیب جو مسلیمہ کذاب کے نام سے مشہور ہواتھا۔
رات کو اپنے دربار میں بیٹھا تھا۔ شراب کا دور چل رہا تھا دربار میں اس کے قبیلے کے سرکردہ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب اسے اللہ کا رسول مانتے تھے ۔ اس نے اپنے مذہب کو اسلام ہی کہا تھا لیکن کچھ پابندیاں ہٹادی تھیں مثلاً اس نے اپنی ایک آیت گھڑ کر اپنے پیروکاروں کو سنائی اور کہا کہ اس پر وحی نازل ہوئی ہے کہ شراب حلال ہے ۔ دیگر عیش و عشرت کو بھی اس نے حلال قرار دیا تھا ۔
اس کا دربار جنت کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ نہایت حسین اور جوان لڑکیاں اس کے دائیں بائیں بیٹھی تھیں اور دو اس کے پیچھے کھڑی تھیں۔ مسلیمہ کسی لڑکی کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اور کسی کے گالوں کو تھپک کر اور کسی کے زانو پر ہاتھ رکھ کر بات کرتا تھا ۔
ایک آدمی دربار میں آیا ۔ وہ بیٹھا نہیں ، کھڑا رہا ۔ سب نے اس کی طرف دیکھا مسلیمہ نے جیسے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھی ہو ۔
اسے معلوم تھا کہ وہ کسی کے کہے بغیر بیٹھ جائے گا مگر وہ کھڑا رہا ۔
”کیا تو ہم پر پہرہ دینے آیا ہے ؟“…مسلیمہ نے اسے کہا …”یا تو اللہ کے رسول کے حکم کے بغیر بیٹھ جانا بدتہذیبی سمجھتا ہے ؟“
”اللہ کے رسول“…اس آدمی نے کہا …”ایک خبر لایا ہوں …مدینہ سے ایک آدمی آیا ہے وہ بہت دنوں سے یہاں ہے اور وہ ان لوگوں کو جنہوں نے کبھی اسلام قبول کیا تھا بتا تا پھر رہا ہے کہ سچا رسول محمد یہ اور باقی سب کذاب ہیں۔
میں نے خود اس کی باتیں سنی ہیں۔ اس کا نام نہاراً الرجال ہے “
”نہارا ً الرجال؟“…دربار میں بیٹھے ہوئے دو آدمی بیک وقت بولے پھر ایک نے کہا …”وہ مسلمانوں کے رسول کا منظور نظر ہے میں اسے جانتا ہوں ۔ اس کے پاس علم ہے “
”ایسے شخص کو زندہ نہ چھوڑیں“…دربار میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے گرج کر کہا ۔
”اے خدا کے رسول“…ایک اور آدمی نے اٹھ کر کہا …”کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ میں اس بدبخت کا سر کاٹ کر تیرے قدموں میں رکھ دوں ؟“
”نہیں“…مسلیمہ کذاب نے کہا …”اگر وہ عالم ہے اور اس نے محمد کے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہے تو میں اسے کہوں گا کہ میرے دربار میں آئے اور مجھے جھوٹا ثابت کرے ۔
میں اسے قتل نہیں ہونے دوں گا …اسے کل رات میرے پاس لے آنا۔ اسے یقین دلانا کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا “
###