وہ آگئی اور وہ لشکر کے بغیر آئی ۔ یمامہ کے لوگوں نے اسے دیکھا اور آوازیں سنائی دیں…”اتنی خوبصورت اور اتنی طرحدار عورت پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی …اگر نبوت حسن پر ملتی ہے تو اس عورت کو نبوت مل سکتی ہے “
اس کے ساتھ چالیس محافظ تھے جو اعلیٰ نسل کے گھوڑوں پر سوار تھے ۔ ایک سے ایک خوبصورت جوان تھا ۔ کمر سے تلواریں لٹک رہی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔
سجاح جب قلعے کے دروازے پر پہنچی تو دروازہ بند تھا ۔ اسے دیکھ کر بھی کسی نے دروازہ نہ کھولا ۔
”کیا ایسا آدمی خدا کا رسول ہوسکتا ہے جو مہمان کو بلا کر دروازہ بند رکھتا ہے ؟“…سجاح نے بلند آواز سے کہا …”کیا وہ نہیں جانتا کہ وہ اس عورت کی توہین کر رہا ہے جسے خدا نے نبوت عطا کی ہے ؟“
”معزز مہمان!“…قلعے کے اوپر سے آواز آئی …”تم پر سلامتی ہو ۔
(جاری ہے)
ہمارے رسول نے کہا ہے کہ محافظ باہر رہیں اور مہمان اندر آجائے “
”دروازہ کھول دو “…سجاح نے دلیری سے کہا اور اپنے محافظوں سے کہا …”تم سب قلعے سے دور چلے جاؤ“
”لیکن ہم ایک اجنبی پر کیسے اعتبار کرسکتے ہیں ؟“…محافظ دستے کے سردار نے کہا۔
”اگر سورج غروب ہونے تک میں واپس نہ آئی تو اس قلعے کو ملبے کا ڈھیر بنادینا“…سجاح نے کہا …”اور اس شہر کے ایک بچے کو بھی زندہ نہ چھوڑنا ، میری لاش کو مسلیمہ اور اس کے خاندان کے خون سے نہلا کر یہیں دفن کردینا…لیکن مجھے یقین ہے کہ میں قلعے سے کچھ لے کر نکلوں گی “
محافظ چلے گئے اور دروازہ کھل گیامگر اس کے استقبال کے لیے مسلیمہ موجود نہیں تھا۔
اس کے حکم کے مطابق دروازے پر کھڑے دو گھوڑ سوار اسے قلعے کے صحن میں لے گئے جہاں ایک چوکور خیمہ نصب تھا ۔ اس کے ارد گرد درخت اور پودے تھے اور نیچے گھاس تھی ۔ سجاح کو خیمے میں داخل کردیا گیا ۔ اندر کی سجاوٹ نے اسے مسحور کردیا مگر مسلیمہ وہاں نہیں تھا ۔ وہ بیٹھ گئی ۔
تھوڑی دیر بعد مسلیمہ خیمے میں داخل ہوا ۔ سجاح نے اسے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ۔
اس مسکراہٹ میں تمسخر تھا ۔ سجاح نے اتنا بدصورت آدمی کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ اتنے چھوٹے قد کا آدمی شاذو نادر ہی کبھی نظر آتا تھا۔
”کیا تم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ؟“سجاح نے اس سے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔
”دعویٰ کرنا کچھ اور بات ہے !“مسلیمہ نے سجاح کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا …”یہ سچ ہے کہ میں خدا کابھیجا ہوا رسول ہوں ۔
میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول نہیں مانتا لیکن اس نے اپنی رسالت منوالی ہے ۔ لوگ اس لیے مان گئے ہیں کہ قبیلہ قریش کی تعداد اور طاقت بہت زیادہ ہے ۔ انہوں نے اب دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا ہے۔“
طبری نے چند ایک حوالوں سے لکھا ہے کہ مسلیمہ نے سجاح کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اس کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ تھی ۔
بہت عرصہ بعد سجاح نے کسی موقع پر کہا تھا کہ اس نے اتنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈالیں تو مجھے احساس ہوا جیسے ٹھگنا سا یہ بدصورت آدمی پراسرار سا ایک اثر بن کر آنکھوں کے راستے میرے وجود میں اتر رہا ہے مجھے اطمینان سا ہونے لگا کہ یہ شخص مجھے قتل نہیں کرے گا ۔ کچھ وقت اور گزرا تو اس احساس نے مجھے بے بس کردیا کہ میں اس کے وجود میں سما جاؤں گی اور میرا وجود ختم ہوجائے گا ۔
”اگر تم نبی ہو تو کوئی الہامی بات کرو “…سجاح نے اسے کہا ۔
”تم نے کبھی سوچا ہے تم کس طرح پیدا ہوئی تھیں؟“…مسلیمہ نے ایسے انداز سے کہا جیسے شعر پڑھ رہا ہو …”تم نے شاید یہ بھی نہیں سوچا کہ جس طرح تم پیدا ہوئی تھیں اسی طرح تم بھی انسانوں کو پیدا کروگی مگر تنہا نہیں …مجھے خدا نے بتایا ہے …‘”اس نے قرآن کی آیات کی طرز کے الفاظ بولے“…”وہ ایک زندہ وجود سے زندہ وجود پیدا کرتا ہے ۔
پیٹ سے ، انتڑیوں سے۔ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ عورت مانند ظرف کے ہے جس میں کچھ ڈال کر نکالا جاتا ہے ورنہ ظرف بیکار ہے “
سجاح مسحور ہوتی چلی گئی ۔ مسلیمہ شاعروں کے لب و لہجے میں باتیں کر تا رہا ۔ سجاح نے محسوس ہی نہ کیا کہ مسلیمہ اس کے جذبات کو مشتعل کر رہا ہے اور وہ یہ بھی محسوس نہ کرسکی کہ سورج غروب ہوچکا ہے ۔
”مجھے یقین ہے کہ تم آج رات یہیں رہنا چاہو گی “…مسلیمہ نے کہا …”اگر چہرے دیکھنے ہیں تو تم دن ہو اور میں رات ہوں مگر تم نے اس پر بھی غور نہیں کیا ہوگا کہ دن پر رات کیوں غالب آجاتی ہے اور دن اپنا سورج رات کی تاریک گود میں کیوں ڈال دیتا ہے ۔
یہ ہر روز ہوتا ہے ۔ اس کاوقت مقرر ہے رات سورج کی چمک دمک کو کھا نہیں جاتی۔ بڑے پیار سے اسے جگا کر دوسرے افق پر رکھ دیتی ہے “
”ہاں مسلیمہ!“…سجاح نے کہا …”میرا جی چاہتا ہے کہ میں مان لوں کہ تم سچے نبی ہو۔ اتنا بدصورت آدمی اتنی خوبصورت باتیں نہیں کرسکتا۔ کوئی غیبی طاقت ہے جو تم سے اتنی اچھی باتیں کر ارہی ہے “…وہ چونک پڑی اور بولی…”سورج غروب ہوگیا ہے ۔
اگر میں نے قلعے کی دیوار پر کھڑے ہوکر اپنے محافظوں کو یہ نہ بتایا کہ میں زندہ ہوں تو تمہاری بستی کی گلیوں میں خون بہنے لگے گا “
مسلیمہ نے اسے اپنے دو محافظوں کے ساتھ قلعے کی دیوار پر بھیج دیا اور خیمے میں رکھا ہوا آتش دان جلانے کا حکم دیا۔ فانوس بھی روشن ہوگئے مسلیمہ نے آتش دان میں چھوٹی سی کوئی چیز رکھ دی ۔ کمرے میں خوشبو پھیلنے لگی ۔
سجاح واپس خیمے میں آئی تو اس پر خمار سا طاری ہوگیا ۔ وہ عام سی عورتوں کی طرح رومان انگیز باتیں کرنے لگی ۔
”کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہم میاں بیوی بن جائیں ؟“…مسلیمہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
”اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہوسکتی “…سجاح نے مخمور سی آواز میں جواب دیا ۔
صبح طلوع ہوئی تو سجاح اس انداز سے باہر نکلی جیسے دلہن اپنی پسند کے دولہا کے ساتھ ازدواجی زندگی کی پہلی رات گزار کے نکلی ہو ۔
قلعے میں شادیانے بجنے لگے سجاح کے لشکر تک یہ خبر پہنچی کہ سجاح نے مسلیمہ کے ساتھ شادی کرلی ہے۔
یہ شادی اسلام کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گئی۔ ارتداد کے دو لشکر متحد ہوگئے لیکن یہ اتحاد جلدی بکھر گیا کیونکہ مسلیمہ نے سجاح کو دھوکہ دیا اور وہ دل برداشتہ ہوکر عراق اپنے قبیلے میں چلی گئی ۔ مسلیمہ نے اپنے لیے ایک بہت بڑے خطرے کو ختم کردیا تھا ۔ سجاح کو اتنا صدمہ ہوا کہ وہ نبوت کے دعوے سے دستبردار ہوگئی ۔ بعد میں وہ مسلمان ہوگئی اور کوفہ چلی گئی تھی۔ اس نے بڑی لمبی عمر پائی اور متقی اور پارسا مسلمان کی حیثیت سے مشہور رہی ۔
###