Episode 79 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 79 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

رسول اکرم کے وصال کے ساتھ ہی ہرطرف بغاوت اور عہد شکنی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ایک طوفان صحابہ کرام کے اپنے ہاں اٹھا۔ یہ خلیفہ اول کے انتخاب کا مسئلہ تھا ۔ خلافت کے امیدواروں نے اپنا اپنا حق جتایا اور کھچاؤ سا بھی پیدا ہوگیا۔ ابوبکر نے آخر یہ فیصلہ حضرت عمر اور ابوعبیدہ پر چھوڑا اور کہا کہ یہ دونوں جسے پسند کریں اسے سب خلیفہ مان لیں۔
 
”آپ مہاجرین میں سب سے افضل ہیں “…عمر اور ابوعبیدہ نے آپس میں بات کرکے فیصلہ ابوبکر کے حق میں دیا اور ان سے کہا …”غار میں آپ رسول اللہ کے رفیق اور نماز پڑھانے میں ان کے قائم مقام رہے ہیں۔ دین کے احکام میں نماز سب سے افضل ہے ہمیں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتا جو آپ سے بہتر ہو۔ بلاشک آپ خلافت کے حق دار ہیں۔

(جاری ہے)

سب سے پہلے عمر نے آگے بڑھ کر ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کی ۔
اس کے بعد ابوعبیدہ اور ان کے بعد بشیر بن سعد نے بیعت کی ۔ جب اعلان عام ہوا کہ خلیفہ اول ابوبکر ہوں گے تو لوگ بیعت کے لیے دوڑے آئے ۔ 
مسجد نبوی میں بیعت عام ہوئی۔ ابوبکر نے پہلا خطبہ خلافت دیا :
”لوگو!خدا کی قسم، میں نے خلافت کی خواہش کبھی نہیں کی تھی۔ نہ کبھی دل میں نہ کبھی ظاہری طور پر اس کے لیے اللہ سے دعا کی تھی ۔
لیکن اس ڈر سے یہ بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھالیا کہ اختلاف جھگڑے کی صورت اختیار نہ کرجائے۔ ورنہ خلافت اور امارت میں مجھے کوئی راحت نظر نہیں آتی۔ ایک بوجھ مجھ پر ڈال دیا گیا ہے جسے اٹھانے کی طاقت مجھ میں کم ہے ۔ اللہ کی مدد کے بغیر میں اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکوں گا۔ مجھے تم نے اپنا امیر بنایا ہے میں تم سے بہتر اور برتر تو نہ تھا اگر میں کوئی اچھا کام کروں تو میری مدد کرو ۔
کوئی غلطی کرگزروں تو مجھے روک دو تم میں سے جو کمزور ہے میں اسے طاقتور سمجھتا ہوں ۔ میں اسے اس کا حق دلاؤں گا تم میں سے جوطاقتور ہے اسے میں کمزور سمجھوں گا اور اسے اس حق سے محروم کردوں گا جس کا وہ حقدار نہیں۔ میں جب تک اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو۔ اگر میں انحراف کروں تو میرا ساتھ چھوڑ دینا “
###
خلیفہ اول ابوبکر نے سب سے پہلا یہ حکم دے کر اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر رومیوں کے خلاف جائے گا ، سب کو چونکا دیا۔
یہ موقع کسی اور جنگی مہم کے لیے موزوں نہ تھا۔ رومیوں پر حملہ بہت بڑی جنگ تھی جس میں مسلمانوں کی پوری جنگی طاقت کی ضرورت تھی لیکن دوسری طرف یہ صورت پیدا ہوگئی تھی کہ بیشتر قبیلوں نے نہ صرف بغاوت کردی تھی بلکہ بعض نے مدینہ پر حملے کے لیے متحد ہونا شروع کردیا تھا۔ یہودی اور نصرانی خاص طور پر مدینہ کے خلاف سرگرم ہوگئے۔ اس کے علاوہ جھوٹے پیغمبروں نے الگ محاذ بنالیے تھے ۔
طلحہ اور خصوصاً مسلیمہ تو جنگی طاقت بن گئے تے ۔ اسلام بہت بڑے خطرے میں آگیا تھا ۔ 
ابوبکر کے حکم کا پس منظر یہ تھا کہ تبوک اور موتہ کے معرکوں کے بعد رسول اکرم نے یہ ضروری سمجھا تھا کہ رومیوں پر حملہ کرکے ان کا دم ختم توڑا جائے ۔ تبوک اور موتہ کے معرکوں میں تو یہ کامیابی حاصل کی گئی تھی کہ ان قبیلوں کو مطیع کرلیا گیا تھا جن کا خطرہ تھا کہ وہ ر ومیوں کے ساتھ اتحاد کرلیں گے ۔
اب رومیوں کو ختم کرنا ضروری تھا ۔ یہ فیصلہ ملک گیری کی خاطر نہیں بلکہ نظریاتی دفاع کے لیے کیا گیا تھا۔
رسول اللہ نے رومیوں پر حملے کے لیے ایک لشکر تیار کیا تھا جس میں مہاجرین اور انصار کے سرکردہ افراد بھی شامل تھے۔ اس لشکر کے سپہ سالار زید بن حارثہ کے بیٹے اسامہ تھے۔ ان کی عمر بمشکل بیس سال تھی۔ مورخوں نے لکھا ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو رسول کریم نے اس لیے سپہ سالاور مقرر کیا تھا کہ نوجوانوں میں قیادت کا شوق پیدا ہو اور وہ اپنے آپ میں اسامہ رضی اللہ عنہ جیسی صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
 
اسامہ رضی اللہ عنہ کو رسول کریم ویسے بھی بہت چاہتے تھے۔ اسامہ کے والد زید بن حارثہ جنگ موتہ میں شہید ہوگئے تھے۔ اسامہ  میں لڑکپن میں ہی عسکری صلاحیتیں اور شجاعت پیدا ہوگئی تھی۔ جنگ احد کے وقت اسامہ بچے تھے اس لیے اس جنگ میں شریک نہ ہوسکے لیکن اسلامی لشکر مدینہ سے روانہ ہوا تو وہ لشکر میں شامل ہوگئے ۔ ان کی مراد پھر بھی پوری نہ ہوئی۔
انہیں میدان جنگ میں دیکھ لیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا ۔ 
جب رسول مقبول نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو رومیوں پرحملہ کرنے والے لشکر کی سپہ سالاری سونپی تھی تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ جس لشکر میں ابوبکر اور عمر جیسے اعلیٰ حیثیت اور تجربے کے بزرگ شامل ہیں اس لشکر کی سپہ سالاری کل کے بچے کو دینا مناسب نہیں۔ 
یہ اعتراض رسول اللہ تک اس وقت پہنچا جب آپ زندگی کے آخری بخار میں مبتلا تھے ۔
آپ میں بولنے کی بھی سکت نہیں تھی۔ آپ نے بخار سے ذرا نجات حاصل کرنے کے لیے اپنی ازدواج سے کہا کہ آپ کو غسل کرائیں۔ آپ پرپانی کے سات مشکیزے ڈالے گئے۔ اس سے بخار خاصا کم ہوگیا۔ نقاہت زیادہ تھی پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں چلے گئے جہاں بہت سے لوگ موجود تھے جن میں اعتراض کرنے والے سرکردہ افراد بھی تھے ۔ 
”اے لوگو!“…رسول اللہ نے فرمایا …”اسامہ کے لشکر کو کوچ کرنے دو۔
تم نے اس کی سپہ سالاری پر اعتراض کیاہے ۔ تم نے اس کے باپ کی سپہ سالاری پر بھی اعتراض کیا تھا میں اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس منصب کے قابل سمجھتا ہوں ۔ اس کے باپ کو بھی میں نے اس منصب کے قابل سمجھا تھا اور تم نے دیکھا کہ میں نے سپہ سالاری اسے سونپ کر غلطی نہیں کی تھی ۔ “
اعتراض ختم ہوگیا اور رومیوں کے خلاف لشکر کوچ کرگیا لیکن جرف کے مقام پر پہنچا تو اطلاع ملی کہ رسول کریم کی بیماری تشویشناک صورت اختیار کرگئی ہے ۔
اسامہ میں نوجوانی میں ہی بزرگوں جیسی دور اندیشی پیدا ہوگئی تھی ۔ انہوں نے لشکر کو جرف کے مقام پر روک لیا اور خود رسول اللہ کو دیکھنے مدینہ آئے ۔ ایک تحریر میں اسامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ان الفاظ میں ملتا ہے :
”اطلاع ملی کہ رسول اللہ کی حالت بگڑ گئی ہے تو میں اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مدینہ آیا۔ ہم سیدھے رسول اللہ کے حضور گئے ۔
آپ پر نقاہت طاری تھی اتنی کہ بول بھی نہ سکتے تھے ۔ آپ نے دو تین بار ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف کیے اور ہر بار ہاتھ میرے اوپر رکھ دیے۔ میں سمجھ گیا کہ حضور میرے لیے دعا کر رہے ہیں “
دوسرے روز اسامہ پھر آپ کے حضور گئے اور کہا …”یارسول اللہ ! لشکر جرف میں میرا منتظر ہے ۔ اجازت فرمائیے“
رسول اللہ نے ہاتھ اوپر اٹھائے مگر ہاتھ زیادہ نہ اٹھ سکے۔
ضعف بہت زیادہ بڑھ گیا تھا ۔ اسامہ دل پر غم کا بوجھ اور آنکھوں میں آنسو لے کر روانہ ہوگئے ۔ تھوری ہی دیر بعد رسول کریم وصال فرماگئے ۔ قاصد اسامہ کے پیچھے دوڑا اور راستے میں جالیا۔ اسامہ نے حضور کے وصال کی خبر سنی۔ گھوڑا سرپٹ دوڑایا۔ اپنے لشکر تک پہنچے۔ حضور کے وصال کی خبر نے لشکر میں کہرام بپا کردیا ۔اسامہ رضی اللہ عنہ لشکر کو مدینے لے آئے ۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط