خلیفہ اول کی بیعت ہوچکی تھی ۔ انہوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو بلاکر پوچھا کہ رسول اللہ نے انہیں کیا حکم دیا تھا ۔
”یہ حکم تو آپ کو بھی معلوم ہے “…اسامہ نے جواب دیا …”مجھ سے ہی سننا ہے تو سن لیں۔ رسول اللہ نے حکم دیا تھا کہ میں فلسطین میں بلقاء اور دوام کی سرحد سے آگے جاکر رومیوں پر حملہ کروں لیکن وہاں تک لشکر اس طرح پہنچے کہ دشمن کو حملے تک لشکر کی آمد کی خبر تک نہ ہوسکے “
”جاؤ اسامہ!“…ابوبکر نے کہا …”اپنا لشکر لے جاؤ اور رسول اللہ کے حکم کی تعمیل کرو“
لشکر کو جب یہ حکم ملا تو ابوبکر پر اعتراض ہونے لگے۔
سب کہتے تھے کہ جب ہر طرف سے خطروں کے طوفان نے گھیر لیا ہے ۔ اتنی بڑی جنگ اور وہ بھی اتنی دور شروع نہیں کرنی چاہیے۔ اس لشکر کی ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے ضرورت ہے جو بڑی تیزی سے اٹھ رہے ہیں۔
(جاری ہے)
”قسم ہے اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے “…ابوبکر نے کہا …”اگر مجھے جنگل کے درندے چیرنے پھاڑنے کے لیے آجائیں تو بھی میں اسامہ کے لشکر کو نہیں روکوں گا ۔
میں اس حکم کی خلاف ورزی کس طرح کرسکتا ہوں جو رسول اللہ نے اپنی زندگی میں دیا تھا میں اگر مدینہ میں اکیلا رہ گیا تو بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا “
”تم پر سلامتی ہو ابوبکر“…عمر نے کہا …”اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ لشکر کو بھیجنا ہے تو سپہ سالاری اسامہ کی بجائے کسی تجربہ کار آدمی کو دیں “
”ابے ابن خطاب!“…ابوبکر نے جواب دیا …”کیا تم بھول گئے ہو کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ نے سپہ سالار مقرر کیا تھا …کیا تم جرات کرو گے کہ رسول اللہ کے حکم کو منسوخ کردو؟“
”میں ایسی جرات نہیں کروں گا “…عمر نے کہا …”مجھ میں اتنی جرات نہیں “
”میری سن ابن خطاب!“…ابوبکر نے کہا …”اپنی قوم کو دیکھ ۔
پوری قوم غم سے نڈھال ہے ۔ غم کے ساتھ ساتھ ایک خوف ہے جو ہر کسی کے دل میں اترتا جارہا ہے ۔ یہ خوف ان بغاوتوں کا ہے جو ہمارے اردگرد اٹھ رہی ہیں ۔ ہر روز ایک خبر آتی ہے کہ آج فلاں قبیلہ باغی ہوگیا۔ بعض قبیلے اسلام سے منحرف ہوگئے ہیں۔ اسلام بھی خطرے میں آگیا ہے مدینہ بھی۔ یہودیوں اور نصرانیوں نے بڑی خوفناک افواہیں پھیلانا شروع کردی ہیں ان سے اور زیادہ خوف پھیل رہا ہے اگر ہم نے رومیوں پر حملہ روک لیا تو دو نقصان ہوں گے ۔
ایک یہ کہ قوم سمجھے گی کہ ہم کمزور ہوگئے ۔ دوسرا نقصان یہ کہ رومی اور مجوسی ہمیں کمزور سمجھ کر ہم پر چڑھ دوڑیں گے ۔ میں قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کمزور نہیں ہوگئے ۔ رسول اللہ کی روح مقدس ہمارے ساتھ ہے ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ میں قوم کے حوصلے اور جذبے پہلے کی طرح مضبوط کرنا چاہتا ہوں ۔ رسول اللہ کے نقش قدم پر چلنا میرا فرض ہے “
عمر رضی اللہ عنہ کو اس استدلال نے مطمئن کردیا۔
ابوبکر نے کوچ کا حکم دے دیا ۔
####
اسامہ کا لشکر روانہ ہوا تو ابوبکر کچھ دور تک پیدل ہی ساتھ چل پڑے۔ اسامہ گھوڑے پر سور تھے مورخین نے لکھا ہے کہ ایک سپہ سالار اور وہ بھی نوجوان گھوڑے پر سوار تھا اور خلیفہ اس کے ساتھ ساتھ پیدل جارہے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ ہرکسی کو دکھانا چاہتے تھے کہ سپہ سالار اسامہ تعظیم و تکریم کے قابل ہے
”اے خلیفہ رسول“…اسامہ نے کہا…”آپ گھوڑے پر سوار ہوجائیں یا میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا “
”نہ میں سوار ہوں گا نہ تم پیدل چلو گے “…ابوبکر نے کہا …”میں روحانی تسکین محسوس کر رہا ہوں کہ اللہ کی راہ کی گرد میرے پاؤں پر بھی پڑ رہی ہے “
عمررضی اللہ عنہ بھی لشکر میں شامل تھے ۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کو محسوس ہوا کہ انہیں مدینہ میں عمر کی ضرورت ہوگی ۔
”اسامہ رضی اللہ عنہ“ …خلیفہ نے سپہ سالار سے کہا …”اگر تم اجازت دو تو میں عمر رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں رکھ لو ں۔ مجھے اس کی مدد کی ضرورت ہوگی “
اسامہ نے عمر کو لشکر سے نکال کر واپس جانے کی اجازت دے دی ۔ ابوبکر بہت بوڑھے تھے ۔ ایک جگہ رک گئے۔
اسامہ نے لشکر کو روک لیا۔ ابوبکر نے ذرا بلند جگہ کھڑے ہوکر لشکر سے خطاب کیا ۔
”اسلام کے مجاہدو میں تمہیں دس نصیحتیں کرتا ہوں ۔ انہیں یاد رکھنا۔ خیانت نہ کرنا۔ بدعہدی نہ کرنا، چوری نہ کرنا، دشمن کی لاشوں کے اعضا نہ کاٹنا، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، کھجوروں اور پھلوں کے درخت نہ کاٹنا، کھانے کی غرض کے سوا کسی جانور کو ذبح نہ کرنا۔
تمہیں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں نظر آئیں گی جن میں تارک الدنیا لوگ بیٹھے ہوں گے انہیں پریشان نہ کرنا۔ کسی بستی کے لوگ برتنوں میں تمہارے لیے کھانا لائیں گے ،یہ کھانا اللہ کا نام لیے کر کھانا تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے اپنے سروں میں شیطان کے گھونسلے بنارکھے ہیں۔ ان کے سروں کے درمیان کا حصہ منڈھا ہوا ہوگا اور باقی بال بہت لمبے لمبے ہوں گے انہیں قتل کردین۔
اپنی حفاظت اللہ کے نام سے کرنا۔ خدا حافظ مجاہدو! اللہ تمہیں شکست اور وبا سے محفوظ رکھے “
لشکر کی مدینہ سے روانگی کی تاریخ ۲۴جون ۶۳۲ء (یکم ربیع الثانی ۱۱ہجری ) تھی ۔
###
یہ کہانی چونکی ”شمشیر بے نیام“ کی ہے اس لیے ہم وہ واقعات بیان کریں گے جن کا تعلق خالد بن ولید سے ہے۔ رسول اللہ نے خالد کو اللہ کی تلوار کہا تھا ۔
اسامہ کے لشکر کے متعلق اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ انہوں نے صرف چالیس دنوں میں رومیوں کے خلاف وہ کامیابی حاصل کرلی جو رسول کریم حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ اسامہ سپہ سالاری کے ہر پہلو پر پورے اترے اور جب وہ فتح یاب ہوکر مدینہ میں آئے تو ان سب نے انہیں گلے لگایا جنہوں نے ان کی سپہ سالاری پر اعتراض کیے تھے ۔
دوسری بڑی جنگ مرتدین کے خلاف تھی۔
ابوبکر نے اپنی فوج کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے سالار مقرر کیے اور ان کے لیے محاذ مقرر کردیے یعنی ہر سالار کو ایک ایک علاقہ بتادیا گیا جہاں انہیں حملہ کرنا تھا ۔ اس تقسیم میں ابوبکر نے خاص طور پر خیال رکھا تھا کہ ہر دشمن کی طاقت اور لڑنے والی نفری دیکھ کر اس کے مطابق سالار مقرر کیے جائیں۔ سب سے زیادہ طاقتور اور مکار دو مرتد تھے ۔
ایک طلحہ اور دوسرا مسلیمہ۔ ان دونوں نے نبوت کا دعویٰ کرکے ہزار ہا پیروکار پیدا کرلیے تھے۔ خالد بن ولید کو ابوبکر نے حکم دیا کہ وہ طلحہ کی بستیوں ر حملہ کریں اور اس سے فارغ ہوکر بطاح کا رخ کریں جہاں بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ نے بغاوت کردی تھی ۔
تمام سالار اپنے اپنے محاذوں اور مہموں کو روانہ ہوگئے ۔ خالد اپنی مہم کے علاقے میں حسب عادت اتنی تیزی سے پہنچے کے دشمن کو خبر تک نہ ہوئی۔
انہوں نے کچھ بستیوں کو گھیرے میں لے لیا تو خالد کے پاس کچھ آدمی آئے اور انہیں بتایا کہ بعض قبیلے طلیحہ کے فریب کا شکار ہیں۔ ان کی خونریزی مناسب نہیں ہوگی ۔ اگر خالد ذرا انتظار کریں تو قبیلہ طئی کے کم و بیش پانچ سو سوار آدمی خالد کے دستے میں شامل ہوجائیں گے ۔
خالد نے انتظار کیا اور یہ آدمی قبیلہ طئی کے پانچ سو آدمی لے آئے جو طلیحہ کے قبیلے اور اس کے زیر اثر قبیلوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ تھے۔
وہ مسلح ہوکر آئے تھے اسی طرح قبیلہ جدیلہ بھی خالد کے ساتھ مل گیا۔ طلیحہ کو پتہ چلا تو بہت گھبرایا لیکن ایک شخص عینیہ اس کے تھا۔ وہ بنی فرازہ کا سردار تھا اس کے دل میں مدینہ والوں کے خلاف اتنا عناد بھرا ہوا تھا کہ اس نے اعلان کردیا تھا کہ وہ مدینہ والوں کی حکومت کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کرے گا ۔ غزوہ احزاب میں جن تین لشکروں نے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ان میں سے ایک لشکر کا سالار یہی شخص عینیہ بن حصن تھا۔
رسول کریم نے اپنے اس اصول کے مطابق کہ دشمن کو تیاری کی حالت میں پکڑو، مدینہ سے نکل کر ان تینوں لشکروں پر حملہ کردیا تھا۔ سب سے زیادہ نقصان عینیہ کے لشکر کو اٹھانا پڑا تھا ۔ اس نے مجبور ہوکر اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اسلام کے خلاف سرگرم رہا ۔
خالد رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ طلیحہ کے ساتھ عینیہ ہے تو انہوں نے عہد کرلیا کہ ان دونوں کو بخشیں گے نہیں ۔
###