Episode 85 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 85 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

مالک رات بھر واپس نہ آیا۔ صبح طلوع ہوئی ۔ بطاح جو بارونق بستی تھی ۔ ایک ایسے مریض کی طرح دکھائی دے رہی تھی جو کبھی خوبرو جوان ہوا کرتا تھا ۔ اس کا چہرہ بے نور ارو آنکھوں میں موت کا خوف رچا ہوا تھا ۔ بطاح کی عورتوں کے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ یہ اس مار دھاڑ کا نتیجہ تھا جو بنو بمیم میں ہورہی تھی ۔ سورج کی پہلی کرنیں آئیں تو بطاح کی گلیوں میں ڈری ڈری سی داخل ہوئیں۔
 
اس وقت سورج کچھ اور اوپر اٹھ آیا جب بطاح میں ہڑبونگ مچ گئی۔ بعض عورتیں بچوں کو اٹھا کر گھروں کو دوڑی گئیں اور اندر سے دروازے بند کرلیے۔ کچھ عورتیں اپنی جوان بیٹیوں کو ساتھ لیے بستی سے نکل گئیں۔ بوڑھے آدمی کمانیں ور ترکش اٹھائے چھتوں پر چڑھ گئے ۔ بوڑھوں کے علاوہ جو آدمی بستی میں تھے انہوں نے برچھیاں اور تلواریں نکال لیں…کسی نے بڑی بلند آواز سے کہا کہ دشمن کا لشکر آرہا ہے ۔

(جاری ہے)

 
دور زمین سے جو گرد اٹھ رہی تھی وہ کسی لشکر کی ہی ہوسکتی تھی بطاح میں جوان آدمی کم ہی رہ گئے تھے سب مالک بن نویرہ کے ساتھ دوسروں قبیلوں سے لڑائی میں چلے گئے تھے ۔ بطاح میں جو رہ گئے تھے ان پر خوف و ہراس طاری ہوگیا تھا۔ 
لیلیٰ کے گھر میں پلنگ پر تین بچوں کی لاشیں پڑی تھین اور وہ اپنے بچے کو سینے سے لگائے اپنے قلعہ نما مکان کی چھت پر کھڑی تھی وہ بار بار اپنے بچے کو دیکھتی اور اسے چومتی تھی ۔
وہ شاید سوچ رہی تھی کہ بچوں کے خون کا انتقام اس کے بچے سے لیا جائے گا۔ 
زمین سے اٹھتی ہوئی گرد بہت قریب آگئی تھی اور اس میں گھوڑے اور اونٹ ذرا ذرا دکھائی دینے لگے تھے ۔ 
”ہوشیار بنویر بوع، خبردار!“…بطاح میں کسی کی آواز سنائی دی …”جانیں لڑادو۔ ڈرنا نہیں “
لشکر گرد سے نکل آیااور قریب آگیا۔ بستی کے کئی ایک آدمی گھوڑوں پر سوار ، ہاتھوں میں برچھیاں اور تلواریں لیے آگے چلے گئے۔
ان کا انجام ظاہر تھا لیکن انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر لشکر کی ترتیب میں کوئی فرق نہ آیا ۔ آگے جاکر وہ لشکر کا حصہ بن گئے ۔ 
”اپنے ہیں “…انہوں نے نعرے لگائے …”اپنے ہیں، مالک بن نویرہ…لڑائی ختم ہوگئی ہے “
بطاح میں سے بھی نعرے گونجنے لگے ۔ لوگوں نے آگے بڑھ کر لشکر کا استقبال کیا۔ مالک بن نویرہ کہیں بھی نہ رکا۔ وہ سیدھا اپنے گھر کے دروازے پر آیا اور گھوڑے سے کود کر اندر چلا گیا۔
اسے لیلیٰ صحن میں کھڑی ملی۔ اس کے دلکش چہرے پر اداسی تھی اور وہ اس کی وہ آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں جن پر قبیلے کے جوان جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے ۔ 
”میں نے تیرا حکم مانا ہے لیلیٰ“…مالک نے دوڑ کر لیلیٰ کو اپنے بازوؤں میں سمیٹتے ہوئے کہا …”لڑائی ختم کردی ہے ۔ ہم ایک دوسرے کے قیدی واپس کردیں گے ۔ میں نے سجاح سے تعلق توڑ لیا ہے ۔
اس پھول سے چہرے سے اداسی دھوڈالو“
لیلیٰ کا جسم بے جان سا تھا۔ اس میں وہ تپش پیدا نہ ہوئی جو مالک کو دیکھ کر پیدا ہوا کرتی تھی مالک نے اسے بہلانے کی بہت کوشش کی لیکن لیلیٰ کا چہرہ بجھا ہی رہا ۔ 
”میرے دل پر ایک خوف بیٹھ گیا ہے “…لیلیٰ نے کہا …۔
”کیسا خوف؟“…مالک نے پوچھا …”کس کا خوف ؟“
”سزا کا “…لیلیٰ نے کہا …”انتقام کا “
###
سجاح اکیلی رہ گئی ۔
وکیع بن مالک نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیاتھا ۔ مالک بن نویرہ نے وکیع سے کہا تھا کہ وہ ایک عورت کے جھانسے میں آکر اپنے ہی قبیلوں پر ٹوٹ پڑے تھے ۔ سجاح اپنے لشکر کو ساتھ لیے نباج کی طرف چلئی گئی ۔ پہلے سنایا جاچکا ہے کہ وہ یمامہ پر حملہ کرنے گئی تھی لیکن میسلمہ کے جال میں آگئی اور میسلمہ نے اسے اپنی بیوی بنالیا۔ 
مالک بن نویرہ کے گناہوں کی سزا شروع ہوچکی تھی ۔
وکیع بن مالک جو اس کا دست راست تھا اس کا ساتھ چھوڑ گیا اور مسلمانوں سے جاملا۔ مالک بن نویرہ نے اسے روکا تھا ۔ 
”اگر ہم دونوں الگ ہوگئے تو مسلمان ہمیں کچل دیں گے “…مالک نے وکیع سے کہا تھا …”ہم دونوں مل کر ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں “
”ہمیں زندہ رہنا ہے مالک!“…وکیع نے کہا تھا …”مدینہ کی فوج کا مقابلہ کس نے کیا ہے ؟غطفان ہار گئے، طئی ہارگئے، بنو سلیم، بنو اسد، ہوازن کوئی بھی مسلمانوں کے آگے ٹھہر نہ سکا پھر سب اکٹھے ہوئے اور ام زمل سلمیٰ کو بھی ساتھ ملالیا۔
کیا تم نہیں جانتے مالک، الولید کے بیٹے خالد نے انہیں کس طرح بھگادیا ہے ، سلمیٰ قتل کردی گئی ہے مسلمان ہمیں مسلمانوں کا خون معاف نہیں کریں گے ۔ تمام قبیلوں کو شکست دینے والا خالد رضی اللہ عنہ واپس مدینہ نہیں چلا گیا۔ وہ بزاخہ میں ہے دوسری طرف مسلمانوں کا مانہ ہوا سپہ سالار اسامہ ہے ۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت ادھر کا رخ کرسکتا ہے ان سے خون معاف کرانے کا طریقہ ایک ہی ہے کہ میں ان کی اطاعت قبول کرکے انہیں اپنے قبیلے کی زکوٰة اور محصول ادا کرتا رہوں “
مالک بن نویرہ کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔
 
خالد بن ولید تک اطلاع پہنچ چکی تھی کہ مالک بن نویرہ کو رسول اللہ نے امیر مقرر کیا تھا مگر اس نے زکوٰة وغیرہ وصول کرکے مدینہ نہ بھیجی اور لوگوں کو واپس کردی ہے ۔ جاسوسوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو مالک بن نویرہ کا ایک شعر بھی سنایا۔ اس میں اس نے رسول اکرم کے وصال کے بعد اپنے قبیلے سے کہا تھا کہ اپنے مال کو اپنے پاس رکھو اور مت ڈرو کہ نہ جانے کیا ہوجائے۔
اگر اسلامی حکومت کی طرف سے ہم پر کوئی مصیبت آئے گی تو ہم کہیں گے کہ ہم نے محمد کے دین کو قبول کیا تھا ۔ ابوبکر کے دین کو نہیں۔ 
مالک بن نویرہ نے سجاح کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا جو قتل عام کیا تھا، اس کی بھی اطلاع خالد رضی اللہ عنہ کو مل گئی تھی ۔ خالد نے اپنے دستوں کو بطاح کی طرف تیز کوچ کا حکم دیا ۔ ان کے دستوں میں انصار مدینہ بھی تھے۔
انہوں نے بطاح کی طرف پیش قدمی کی مخالفت کی۔ 
”خدا کی قسم !“…خالد نے کہا …”میں اپنی سپاہ میں پہلے آدمی دیکھ رہا ہوں جو اپنے امیر اور سالار کی حکم عدولی کر رہے ہیں “
”اسے حکم عدولی سمجھیں یا جو کچھ بھی سمجھیں“…انصار کی نمائندگی کرنے والے نے کہا …”خلیفہ المسلمین کا حکم یہ تھا کہ طلیحہ کو مطیع کرکے اس علاقے میں رسول اللہ کی قائم کی ہوئی عملداری بحال کریں اور جو جنگ پر اتر آئے اس کے ساتھ جنگ کریں اور بزاخہ میں اگلے حکم کا انتظار کریں ہم جانتے ہیں کہ مدینہ سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا کہ ہم بطاح پر حملے کے لیے جائیں “
”کیا تم میں کوئی ہے جسے یہ معلوم نہ ہو کہ میں تمہارا امیر اور سپہ سالار ہوں ؟“…خالد  بن ولید نے پوچھا اور سب کی طرف دیکھنے لگے ۔
انہیں کوئی جواب نہ ملا تو انہوں نے کہا …”میں نہیں جانتا کہ خلیفہ المسلمین کے ساتھ تم کیا معاہدہ کرکے آئے ہو ، میں یہ جانتا ہوں کہ خلیفہ نے مجھے حکم دیا تھا کہ جہاں بھی اسلام سے انحراف کی خبر ملے اور جہاں بھی مدینہ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کی خلاف ورزی نظر آئے وہاں تک جاؤ اور اسلام کا تحفظ کرو۔ میں سپہ سالار ہوں ۔ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اگر مجھے کوئی ایسی کارروائی کرنی پڑے گی جو خلیفہ کے احکام میں شامل نہیں ہوگی تو میں وہ کارروائی ضرور کروں گا …خلافت کے احکام میرے پاس آتے ہیں۔
تمہارے پاس نہیں “
”ہم نے کوئی قاصد آتا نہیں دیکھا“…انصار میں سے کسی نے کہا ۔ 
”میں اس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا“…خالد نے جھنجھلا کر کہا …”اور میں کسی ایسے آدمی کو اپنی سپاہ میں نہیں دیکھنا چاہتا جس کے دل میں ذرا سا بھی شک اور شبہ ہو ۔ مجھے اللہ کی خوشنودی چاہیے۔ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس روح کی خوشنودی چاہیے۔
اگر تمہیں اپنی ذات کی خوشنودی چاہیے تو جاؤ۔ اپنے آپ کو خوش کرو۔ میرے لیے مہاجرین کافی ہیں اور میرے ساتھ جو نومسلم ہیں ، انہیں بھی کافی سمجھتا ہوں “
مشہور مورخ طبری نے لکھا ہے کہا ابوبکر نے اپنے احکام میں یہ شامل کیا تھا کہ بنی اسد کے سردار طلیحہ کی سرکوبی کے بعد خالد کے دستے بطاح تک جائیں گے جہاں کے امیر مالک بن نویرہ نے زکوٰة اور محصولات کی ادائیگی نہیں کی اور وہ اسلام سے منحرف ہوکر اسلام کا دشمن بن گیا ہے ۔
 
”اور اس لیے بھی ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا “…انصار میں سے ایک نے کہا…”کہ مہاجرین اور نومسلموں نے فتح حاصل کرلی تو اس میں ہمارا نام نہیں ہوگا ۔ ہمیں مدینہ جاکر شرمساری ہوگی “
”اور اس کے لیے بھی “…ایک اور نے کہا…”کہ خالد بن ولید کو کہیں شکست ہوئی تو مدینہ میں لوگ ہم پر لعنت بھیجیں گے کہ ہم نے مدینہ سے اتنی دور محاذ پر جاکر خالد رضی اللہ عنہ کو اور اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دیا۔
ہم ملعون کہلائیں گے “
خالد کے دستے بزاخہ سے دور نکل گئے ۔ ایک تیز رفتار گھوڑا سوار پیچھے سے آن ملا اور خالد کے پاس جاکر گھوڑا روکا۔ 
”کیا تم انصار میں سے نہیں ہو جو پیچھے رہ گئے ہیں “…خالد نے پوچھا ۔ 
”ہاں امیر لشکر!“…سوار نے کہا …”میں انہی میں سے ہوں۔ انہوں نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ ان کا انتظار کریں وہ آرہے ہیں “
خالد بن ولید نے اپنے دستوں کو روک لیا۔ کچھ دیر بعد تمام انصار آگئے اور دستے بطاح کی طرف روانہ ہوگئے ۔ 
####

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط