Episode 87 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 87 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

پھر ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس نے خالد کے دستوں میں اور مدینہ میں ہلچل مچادی…ہوا یوں کہ بطاح میں ہی خالد نے لیلیٰ کے ساتھ شادی کرلی ۔ 
انصار مدینہ اس شادی پر بہت برہم ہوئے ۔ ابوقتاوہ انصاری نے قسم کھائی کہ وہ آئندہ خالد کی قیادت میں کبھی کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوں گے ۔ اعتراض کرنے والے کہتے تھے کہ خالد نے لیلیٰ کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اس کے خاوند مالک بن نویرہ کو اس لیے قتل کیا ہے کہ لیلیٰ کے ساتھ خود شادی کرلیں۔
 
اس سلسلے میں جو روایا ت مشہور ہوئیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ لیلیٰ اپنے خاوند کی جان بخشی کے لیے خالد کے پاس آئی اور اس نے بیٹھ کر خالد کے پاؤں پکڑ لیے۔ لیلیٰ سر سے ننگی رہتی اور بال کھلے رکھتی تھی ۔ خالد کے پاؤں پر وہ جھکی تو اس کے بال اس کے کندھوں پر بکھر گئے ۔

(جاری ہے)

خالد رضی اللہ عنہ کو یہ بال اتنے اچھے لگے کہ انہوں نے کہا …”اب تو میں تیرے خاوند کو ضرور قتل کروں گا “

یہ کہا جاسکتا ہے کہ خالد جو خوش ذوق اور زندہ مزاج تھے لیلیٰ کے حسن سے متاثر ہوں گے لیکن خالد وہ شخصیت تھے جس نے بستر مرگ پر کہا تھا کہ میرے جسم پر کوئی جگہ ایسی ہے جس پر جہاد کا زخم نہ آیا ہو ؟ان کا کردار اتنا کمزور نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ ایک عورت کی خاطر اپنے رتبے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے۔
 
خالد کے حق میں بات کرنے والوں نے کہا ہے کہ خالد نے مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کو قید میں ڈال دیا تھا اور انہیں مدینہ بھیجنا تھا۔ رات بہت سرد تھی ۔ خالد رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ یہ قیدی سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں گے انہوں نے حکم دیا ۔ ”قیدیوں کو گرمی پہنچاؤ “…کنانہ کی زبان میں مدافاة کا لفظ قتل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔
بدقسمتی سے یہ قیدی جن آدمیوں کے پہرے میں تھے وہ کنانہ کے رہنے والے تھے ۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کے جرائم کتنے سنگین ہیں۔ چنانچہ انہوں نے گرمی پہنچاؤ کو قتل کے معنوں میں لیا اور مالک اور اس کے ساتھیوں کو قتل کردیا ۔ خالد رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا …”اللہ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ ہوکے رہتا ہے “
ان دو کے علاوہ اور بھی روایات مختلف تاریخوں میں آئی ہیں جو ایک دوسری کی تردید کرتی ہیں۔
ان میں بعض خالد کے حق میں جاتی ہیں بعض خلاف۔ مخالفانہ روایت کے مصنّفوں کے مذہبی فرقوں کو دیکھو تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے ایک ایک لفظ میں تعصب بھرا ہوا ہے اور وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو رسوا کر رہے ہیں۔
تاریخ میں متضاد کہانیاں ملتی ہیں لیکن کسی بھی مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ اس شادی پر لیلیٰ کا ردعمل کیا تھا۔ کیا لیلیٰ نے خالدرضی اللہ عنہ کو مجبور ہوکر قبول کیا تھا یا وہ خوش تھی کہ ایک عظیم سپہ سالار کی بیوی بن گئی ہے جس کی فتوحات کے چرچے سرزمین عرب کے گوشے گوشے تک پہنچ گئے ہیں۔
 
اس وقت کے جنگی رواج کے مطابق لیلیٰ مال غنیمت تھی ۔ خالد اسے لونڈی بناکر اپنے پاس رکھ سکتے تھے ۔ تاریخ میں ایک اشارہ ایسا ملتا ہے جو خالد کے حق میں جاتا ہے ۔ وہ یوں ہے کہ خالد نے اسے کسی کی یا اپنی لونڈی بننے سے بچالیا تھا۔ وہ اتنی حسین تھی کہ شہزادی لگتی تھی ۔ خالد جانتے تھے کہ لونڈیوں کی زندگی گیا ہوتی ہے ۔ خالد نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ لیلیٰ جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی ذہین اور دانا ہے ۔
انہوں نے اس عورت کی صلاحیتوں کو تباہی سے بچالیا تھا ۔ 
####
یہ خبر مدینہ بھی پہنچ گئی کہ خالد نے مالک بن نویرہ کو قتل کر کے اس کی بیوی کے ساتھ شادی کرلی ہے ۔ خبر پہنچی بھی سیدھی خلیفة المسلمین ابوبکر کے پاس اور خبر پہنچانے والے ابوقتادہ انصاری تھے جو اس شادی پر ناراض ہوکر مدینہ چلے گئے تھے ۔ ابوبکر  نے اس خبر کو زیادہ اہمیت نہ دی ۔
انہوں نے کہا کہ خالد رضی اللہ عنہ کو رسول کریم نے سیف اللہ کا خطاب دیا تھا ۔ ان کے خلاف وہ کوئی کارروائی نہیں کریں گے ۔ خالد نے کسی زندہ آدمی کی بیوی کو ورغلا کر اپنی بیوی نہیں بنایا ۔ 
ابوقتادہ انصاری خلیفہ ابوبکر کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے۔ وہ عمر کے پاس گئے اور انہیں ایسے انداز سے لیلیٰ کی خالد کے ساتھ شادی کی خبر سنائی جیسے خالد عیاش انسان ہوں اور ان کی عیش پرستی ان کے فرائض پر اثر انداز ہورہی ہو۔
عمر غصے میں آگئے اور ابوقتادہ کو ساتھ کر ابوبکر کے پاس گئے ۔ 
”خلیفة المسلمین!“…عمر نے ابوبکر سے کہا …”خالد رضی اللہ عنہ کا جرم معمولی نہیں۔ وہ کیسے ثابت کرسکتا ہے کہ بنویربوع کے سردار مالک بن نویرہ کا قتل جائز تھا ۔ “
”مگر تم چاہتے کیا ہو عمر؟“…ابوبکر نے پوچھا ۔ 
”خالد کی معزولی“…عمر نے کہا …”صرف معزولی نہیں خالد رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرکے یہاں لایا جائے اور اسے سزا دی جائے “
”عمر “…ابوبکر نے کہا …”میں اتنا مان لیتا ہوں کہ خالد سے غلطی ہوئی ہے لیکن یہ غلطی اتنی سنگین نہیں کہ اسے معزول بھی کیا جائے اور اسے سزا بھی دی جائے “
عمر ابوبکر کے پیچھے پڑے رہے ۔
دراصل عمر انتہا درجے کے انصاف پسند اور ڈسپلن کی پابندی میں سخت تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سالاروں میں کوئی غلط حرکت رواج پائے ۔ 
”نہیں عمر رضی اللہ عنہ“…ابوبکر نے کہا…”میں اس شمشیر کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اللہ نے کافروں پر مسلط کیا ہو“
عمر رضی اللہ عنہ مطمئن نہ ہوئے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے ۔
انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو مدینہ بلوالیا۔ 
خالد بڑی مسافت طے کرکے بہت دنوں بعد مدینہ پہنچے اور سب سے پہلے مسجد نبوی میں گئے۔ انہوں نے اپنے عمامے میں ایک تیر اڑس رکھا تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں موجود تھے ۔ خالد رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر عمررضی اللہ عنہ طیش میں آگئے ۔ وہ اٹھے۔ خالد کے عمامے سے تیر کھینچ کر نکالا اور اسے توڑ کر پھینک دیا ۔
 
”تم نے ایک مسلمان کو قتل کیا ہے “…عمر نے غصے سے کہا …”اور اس کی بیوہ کو اپنی بیوی بنالیا ہے تم سنگسار کردینے کے قابل ہو “
خالد ڈسپلن کے پابند تھے ۔ وہ چپ رہے ۔ انہوں نے عمر کے غصے کو قبول کیا وہ خاموشی سے مسجد سے نکل آئے اور خلیفہ ابوبکر کے ہاں چلے گئے ۔ انہں ابوبکر نے ہی جواب طلبی کے لیے بلایا تھا ۔ ابوبکر کے کہنے پر خالد نے مالک بن نویرہ کے تمام جرائم سنائے اور ثابت کردیا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا دشمن تھا ۔
 
ابوبکر خالد سے بہت خفا ہوئے اور انہیں تنبیہہ کی کہ آئندہ وہ ایسی کوئی حرکت نہ کریں جو دوسرے سالاروں میں غلط رواج کا باعث بنے۔ ابوبکر نے فیصلہ سنایا کہ مفتوحہ قبیلے کی کسی عورت کے ساتھ شادی کرلینا اور عدت کا عرصہ پورا نہ کرنا عربوں کے رواج کے عین مطابق ہے ۔ اس عور ت کو آخر لونڈی بننا تھا ۔ یہ اس کے آقا کی مرضی ہے کہ اسے لونڈی بنائے رکھے یا اسے نکاح میں لے لے ۔
 
ابوبکر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس وقت مسلمان ہر طرف سے خطروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ قبیلے باغی ہوتے جارہے ہیں اپنے پاس نفری بہت تھوڑی ہے ۔ ان حالات میں اگر کوئی سالار دشمن کے کسی سردار کو غلطی سے قتل کرادیتا ہے تو یہ سنگین جرم نہیں۔ 
عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ اسلام کا ایک بڑا دشمن مسلیمہ بن حنفیہ جس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے جنگی طاقت بن گیا ہے ۔
اس کے پاس کم و بیش چالیس ہزار نفری کا لشکر ہے اور عکرمہ بن ابوجہل اس سے شکست کھاچکے ہیں۔ اب سب کی نظریں خالد کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ اگر مسلیمہ کو شکست نہ دی گئی تو اسلام مدینہ میں ہی رہ جائے گا ۔ اس کامیابی کے لیے صرف خالد رضی اللہ عنہ موزوں ہیں۔ 
عمر خاموش رہے ۔ انہیں بھی ان خطروں کا احساس تھا ۔ ابوبکر نے خالد رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ فوراً بطاح جائیں اور وہاں سے یمامہ پر چڑھائی کرکے اس فتنے کو ختم کردیں۔ 
خالد ایک بڑی ہی خطرناک جنگ لڑنے کے لیے روانہ ہوگئے ۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط