دسمبر ۶۳۲ء (شوال۱۱ہجری) کے تیسرے ہفتے میں خالد بن ولید نے تیرہ ہزار مجاہدین سے مرتدین کے چالیس ہزار سے زیادہ لشکر کے خلاف یمامہ کے مقام پر وہ جنگ لڑی جسے اسلام کی پہلی خونریز جنگ کہاجاتا ہے ۔ اس جنگ کا آخری معرکہ ایک وسیع باغ حدیقة الرحمن میں لڑا گیا تھا۔ وہاں دونوں طرف اس قدر جانی نقصان ہوا تھا کہ حدیقتہ الرحمن کو لوگ حدیقة الموت (موت کا باغ ) کہنے لگے ۔
آج تک اسے حدیقة الموت کہا جاتا ہے ۔
اس وقت خالد مدینہ میں تھے ۔ انہیں خلیفہ ابوبکر نے عمر کی اس شکایت پر جواب طلبی کے لیے مدینہ بلوایا تھا کہ انہوں نے مالک بن نویرہ کو قتل کرواکے اس کی بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ ابوبکر نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن میں اسلام گھر گیا تھا۔ خالد کے حق میں فیصلہ دیا اور خالد رضی اللہ عنہ کو واپس بطاح جانے اور یمامہ کے مسلیمہ کذاب کے فتنے کو ختم کرنے کا حکم دیا ۔
(جاری ہے)
خالد کا لشکر بطاح میں تھا۔ وہیں انہوں نے مالک بن نویرہ کو سزائے موت دی اور اس کی انتہائی حسین بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کی تھی ۔ لیلیٰ وہیں تھی خالد بطاح کو روانہ ہوگئے ۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے پرانے ساتھی سالار عکرمہ اسی علاقے میں اپنے لشکر کے ساتھ موجود ہیں اور مسلیمہ کے خلاف مدد کو پہنچیں گے ۔
عکرمہ بن ابوجہل ان گیارہ سالاروں میں سے تھے جنہیں خلیفہ نے مختلف علاقوں میں مرتد اور باغی قبائل کی سرکوبی کے لیے بھیجا تھا ۔
دوسرے قبیلے اتنے طاقتور نہیں تھے جتنا مسلیمہ کا قبیلہ بنو حنفیہ تھا ۔ اس لیے اس علاقے میں عکرمہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تھا۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک اور سالار شرجیل بن حسنہ کو بھیج دیا گیا۔ خلیفہ ابوبکر نے سالار شرجیل کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ عکرمہ کی مدد کریں گے ۔
عکرمہ یمامہ کی طرف جارہے تھے یہ دو اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے اس وقت خالد رضی اللہ عنہ طلیحہ سے نبرد آزما تھے ۔
انہوں نے طلیحہ کو بہت بری شکست دی تھی ۔ یہ خبر عکرمہ رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو وہ جوش میں آگئے۔ انہوں نے ابھی کسی قبیلے کے خلاف جنگی کارروائی نہیں کی تھی ۔ کچھ دنوں بعد عکرمہ رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ خالد نے سلمیٰ کے طاقتور لشکر کو شکست دی ہے ۔
مورخ لکھتے ہیں کہ عکرمہ پر انسانی فطرت ایک کمزوری غالب آگئی ۔ انہوں نے اپنے ساتھی سالاروں سے کہا کہ خالد فتح پر فتح حاصل کرتے جارہے ہیں اور انہیں ابھی لڑنے کا بھی موقع نہیں ۔
خالد اور عکرمہ اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ساتھی اور ایک جیسے جنگجو اور میدان جنگ کے ایک جیسے قائد تھے ۔
”کیوں نہ ہم ایک ایسی فتح حاصل کریں جس کے سامنے خالد کی تمام فتوحات کی اہمیت ختم ہوجائے “…عکرمہ نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا …”مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ شرجیل بن حسنہ ہماری مدد کو آرہے ہیں معلوم نہیں وہ کب پہنچے۔ میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔
میں مسلیمہ پر حملہ کروں گا “
مسلیمہ معمولی عقل و ذہانت کا آدمی نہیں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مسلمان اس کی نبوت کو برداشت نہیں کر رہے اور کسی بھی روز اسلامی لشکر اس پر حملہ کردے گا ۔ اس نے اپنے علاقے کے دفاع کا بندوبست کر رکھا تھا جس میں دیکھ بھال اور جاسوسی کاا نتظام بھی شامل تھا ۔ عکرمہ سوچے سمجھے بغیر بڑھتے گئے اور یمامہ کے قریب پہنچ گئے ۔
وہ چونکہ جذبات سے مغلوب ہوکر جارہے تھے اس لیے احتیاط نہ کرسکے کہ دشمن دیکھ رہا ہوگا ۔ انہیں دشمن کے جاسوسوں نے دیکھ لیا اور مسلیمہ کو اطلاع دی ۔
ایک علاقے میں جہاں اونچے ٹیلے اور ٹیکریاں تھیں، عکرمہ رضی اللہ عنہ کو مسلیمہ کے کچھ آدمی دکھائی دیے ، عکرمہ نے ان پر حملہ کردیا مگر یہ مسلیمہ کا بچھایا ہوا جال تھا ۔ مسلیمہ نے وہاں خاصا لشکر چھپارکھاتھا جس نے دائیں بائیں سے عکرمہ کے لشکر پر حملہ کردیا۔
عکرمہ اس غیر متوقع صورت حال میں سنبھل نہ سکے۔ مسلیمہ کے لشکر نے انہیں سنبھلنے ہی نہیں دیا عکرمہ کے ساتھ نامی گرامی اور تجربہ کار سالار اور کماندار تھے لیکن میدان دشمن کے ہاتھ تھا ۔ اس نے مسلمانوں کی کوئی چال کامیاب نہ ہونے دی۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ کو نقصان اٹھا کر پسپا ہونا پڑا ۔
####
عکرمہ اپنی اس شکست کو چھپا نہیں سکتے تھے ۔
چھپالیتے تو لشکر میں سے کوئی مدینہ اطلاع بھیج دیتا ۔ چنانچہ عکرمہ نے خلیفہ کو لکھ بھیجا کہ ان پر کیا گزری ہے ۔ خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سخت غصہ آیا۔ انہوں نے عکرمہ رضی اللہ عنہ کو واضح حکم دیا تھا کہ شرجیل کا انتظار کریں اور اکیلے مسلیمہ کے سامنے نہ جائیں مگر عکرمہ نے جلد بازی سے کام لیا تھا ۔ ابوبکر نے عکرمہ رضی اللہ عنہ کو جو تحریری پیغام بھیجا اس میں غصے کا اظہار اس طرح کیا کہ عکرمہ رضی اللہ عنہ کو ابن ابوجہل لکھنے کی بجائے ابن ام عکرمہ (عکرمہ رضی اللہ عنہ کی ماں کے بیٹے ) لکھا۔
یہ عربوں میں رواج تھا کہ کسی کی توہین مقصود ہوتی تو اس کے باپ کے نام کے بجائے اسے اس کی ماں سے منسوب کرتے تھے۔ اس سے یہ ظاہر کیا جاتا تھا کہ تمہاری ولدیت مشکوک ہے یا یہ کہ تم اپنے باپ کے بیٹے نہیں ہو ۔ خلیفہ نے لکھا :
”اے ابن ام عکرمہ! میں تمہاری صورت دیکھنا نہیں چاہتا۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ مدینہ آؤ۔ تم آئے تو یہاں کے لوگوں میں مایوسی پھیلاؤ گے ۔
مدینہ سے دور رہو ۔ تم اب یمامہ کا علاقہ چھوڑ دو اور حذیفہ کے ساتھ جاملو اور اہل عمان سے لڑو۔ وہاں سے فارغ ہوکر عرفجہ کی مدد کے لیے مہرہ چلے جانا۔ اس کے بعد یمن جاکر مہاجرین ابی امیہ سے جاملنا جب تک تم سالاری کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ مجھے اپنی صورت نہ دکھانا۔ میں تم سے بات تک نہیں کروں گا “
خلیفہ ابوبکر نے شرجیل کو پیغام بھیجا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں اور جب خالد رضی اللہ عنہ آئیں تو اپنا لشکر ان کے ساتھ کرکے خود ان کے ماتحت ہوجائیں
خالد رضی اللہ عنہ کو بتادیا گیا تھا کہ شرجیل کا لشکر بھی انہیں مل رہا ہے ۔
وہ خوش ہوئے کہ اب وہ مسلیمہ کا مقابلہ بہتر طریقے سے کرسکیں گے ۔ انہیں توقع تھی کہ شرجیل کا لشکر تازہ دم ہوگا مگر یہ لشکر خالد رضی اللہ عنہ کو ملا تو وہ تازہ دم نہیں تھا۔ اس میں کئی مجاہدین زخمی تھے ۔
”کیا ہوا شرجیل؟“…خالد نے پوچھا ۔
”ندامت کے سوا میرے پاس کوئی جواب نہیں “…شرجیل نے کہا …”میں نے خلیفہ کی حکم عدولی کی ہے ۔
میرے لیے حکم تھا کہ عکرمہ رضی اللہ عنہ کو مدد دوں مگر میرے پہنچنے سے پہلے عکرمہ رضی اللہ عنہ مسلیمہ کے لشکر سے ٹکر لے کر پسپا ہوچکا تھا ۔ یہ ایک خبط تھا جس نے مجھ پر بھی غلبہ پالیا کہ …“
”کہ ایک فتح تمہارے حساب میں لکھی جائے “…باریک بن اور دور اندیش خالد نے طنزیہ لہجے میں شرجیل کا جواب پورا کرتے ہوئے کہا …”اکیلے پتھر کی کوئی طاقت نہیں ہوتی شرجیل! پتھر مل کر چٹان بنا کرتے ہیں پھر اس چٹان سے جوٹکراتا ہے وہ دوسری بار ٹکرانے کے لیے زندہ نہیں رہتا ۔
خود غرضی اورذاتی مفاد کا انجام دیکھ لیا تم نے ؟عکرمہ جیسا تجربہ کار سالار پٹ کر ذلیل ہوچکا ہے ۔ میں تم پر کرم کرتا ہوں کہ خلیفہ کو تمہاری حماقت کی خبر نہیں ہونے دوں گا “
شرجیل بن حسنہ نے عکرمہ رضی اللہ عنہ جیسی غلط حرکت کی تھی ۔ اس نے بھی خالد سے بازی لے جانے کے لیے راستے میں مسلیمہ کے لشکر سے ٹکر لے لی اور پسپا ہونا پڑا تھا ۔
####