مسلیمہ کا لشکر جب مسلمانوں کی خیمہ گاہ تک پہنچا تو اس نے وہاں لوٹ مار شروع کردی وہاں انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔ خالد اور ان کے تمام سالار دوڑ دوڑ کر اپنے لشکر کو روکنے کے لیے چیخ چلارہے تھے لیکن مسلمان اپنی خیمہ گاہ سے خاصی دور جارکے۔ مسلیمہ کے لشکر کے کچھ آدمیوں کو خالد رضی اللہ عنہ کا خیمہ مل گیا۔ وہ اس میں جاگھسے۔ وہاں انہیں زیادہ مال و دولت ملنے کی توقع تھی لیکن اس خیمے میں انہیں دو اتنے قیمتی انسان مل گئے جن کی انہیں توقع نہیں تھی۔
ایک تو ان کا اپنا سردار اور سالار مجاعہ تھا جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا اور اس کے ساتھ خالد کی نئی بیوی لیلیٰ ام تمیم تھی جس کے حسن کے چرچے انہوں نے سن رکھے تھے لیکن اسے دیکھا کبھی نہیں تھا ۔ مجاعہ کو تو انہوں نے پہچان لیا۔
(جاری ہے)
لیلیٰ کے متعلق انہیں مجاعہ نے بتایا کہ یہ کون ہے ۔ بیک وقت دو تین آدمی لیلیٰ کی طرف لپکے۔ وہ اسے قتل کرنا یا اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے ۔
”رک جاؤ “…ان کے قیدی سردار مجاعہ نے حکم دیا …”دشمن کے آدمیوں کے پیچھے جاؤ ۔ ابھی عورتوں کے پیچھے پڑنے کا وقت نہیں ۔ میں اب اس کا نہیں بلکہ یہ میری قیدی ہے “
ان کے سردار کا حکم اتنا سخت تھا کہ وہ بڑی تیزی سے خیمے سے نکل گئے ۔ انہیں اتنا بھی ہوش نہ رہا کہ اپنے سردار کی بیڑیاں ہی توڑ جاتے ۔
”تم نے مجھے ان آدمیوں سے کیوں بچایا ہے ؟“…لیلیٰ نے مجاعہ سے پوچھا …’کیا تم مجھے اپنا مال غنیمت سمجھتے ہو ؟اگر تمہاری نیت یہی ہے تو کیا تمہیں یہ احساس نہیں کہ میں تمہیں قتل کرسکتی ہو ں ؟’“
”تم نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک کیا ہے میں اس کے صلے میں اپنی جان دے سکتا ہوں “…مجاعہ نے کہا …”خدا کی قسم ! میری بیڑیاں ٹوٹ کر تمہارے پاؤں پڑجائیں تو بھی میں تمہیں مال غنیمت یا اپنی لونڈی نہیں سمجھوں گا ۔
تم نے مجھے قیدی نہیں مہمان بناکر رکھا ہے “
”میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا ہے “…لیلیٰ نے کہا…”یہ مسلمانوں کی روایت ہے کہ دشمن ان کے گھر چلا جائے تو اسے وہ معزز مہمان سمجھتے ہیں۔ اگر تم میرے گھر میں ہوتے تو میں تمہیں اور زیادہ آرام پہنچاسکتی تھی “
”لیلیٰ“…مجاعہ نے کہا…”کیا تجھے ابھی احساس نہیں ہوا کہ تمہاراخاوند شکست کھاکر بھاگ گیا ہے اور تم میرے قبیلے کے قبضے میں ہو ؟“
”فتح اور شکست کا فیصلہ خدا کرے گا “…لیلیٰ نے جواب دیا …”میرا خاوند اس سے زیادہ سخت چوٹیں برداشت کرسکتا ہے “
”کم فہم خاتون!“…مجاعہ نے فاتحانہ مسکراہٹ میں کہا …”کیا تجھے ابھی تک احساس نہیں ہوا کہ خدا مسلیمہ کے ساتھ ہے جو اس کا سچا نبی ہے ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سچی ہوتی …“
”مجاعہ“…لیلیٰ نے گرج کر اس کی بات وہیں ختم کردی اور بولی …”اگر تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے خلاف کوئی بات کی تو مجھ پر تیرا قتل فرض ہوجائے گا ۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ ہمارا لشکر مجھے اس خیمہ گاہ میں اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا ہے جہاں میرے دین کے دشمن لوٹ مار کر رہے ہیں لیکن میرے دل پر ذرا سا خوف نہیں۔
خوف اس لیے نہیں کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مقدس پر پورا بھروسہ ہے “
مجاعہ خاموش رہا اور وہ کچھ دیر نظریں لیلیٰ کے چہرے پر گاڑے رہا ۔ باہر فاتح لشکر کا فاتحانہ غل غپاڑہ تھا ۔ وہ مسلمانوں کے خیموں کو پھاڑ پھاڑ کر ان کے ٹکڑے بکھیر رہے تھے مجاعہ اور لیلیٰ کو توقع تھی کہ ابھی مسلیمہ کے آدمی آئیں گے اور دونوں کو ساتھ لے جائیں گے لیکن اچانک باہر کا غل غپاڑہ ختم ہوگیا اور لوٹ مار کرنے والے تمام لوگ بھاگتے دوڑتے خیمہ گاہ سے نکل گئے ۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلیمہ کی طرف سے حکم آیا تھا کہ فوراً واپس میدان عقرباء میں پہنچو کیونکہ مسلیمہ نے دیکھ لیا تھا کہ مسلمان بڑی تیزی سے اکٹھے ہوکر منظم ہورہے تھے۔ مسلیمہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا ۔ وہ مسلمانوں کی شجاعت اور ان کے جذبے سے مرعوب تھا ۔
مجاعہ اور لیلیٰ خیمے میں اکیلے رہ گئے ۔ مجاعہ کے چپرے پر جو رونق آئی تھی وہ پھر بجھ گئی ۔
####
خالد اتنی جلدی ہار ماننے والے نہیں تھے ۔ ضائع کرنے کے لیے ان کے پاس ایک لمحہ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے سالاروں اور کمانداروں کو اکٹھا کیا اور انہیں پسپائی پر شرم دلائی۔ اتنے میں ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا آیا اور سالاروں وغیرہ کے اس اجتماع میں آرکا۔ وہ عمر کے بھائی زید بن خطا ب تھے ۔
”خدا کی قسم ابن ولید!“…زید بن خطاب نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے جوشیلی آواز میں کہا …”میں نے مسلیمہ کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا ہے …میں نے نہار الرجال کو اپنے ہاتھوں قتل کیا ہے ۔
یہ اللہ کا اشارہ ہے کہ فتح ہماری ہوگی “
نہار الرجال کا ہلاک ہونا مسلیمہ کے لیے معمولی نقصان نہیں تھا۔ بتایا جاچکا ہے کہ وہ مسلیمہ کا معتمد خاص، واحد مشیر اور صحیح معنوں میں دست راست تھا ۔ خالد اور ان کے سالاروں نے یہ خبر سنی تو ان کے چہروں پرتازہ حوصلوں کی سرخی آگئی۔
”کیا تم جانتے ہو ہمیں کس جرم کی سزا ملی ہے ؟“…خالد نے غصیلی آواز میں کہا …”مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے لشکر میں دل پھٹ گئے تھے ۔
لڑائی سے پہلے ہی ہمارے لشکر کے مہاجر کہنے لگے تھے کہ بہادری میں انصار اور بدّو اِن کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ انصار کہتے تھے کہ مسلمانوں میں ان جیسا بہادر کوئی نہیں اور بدوؤں نے کہا کہ مکہ اور مدینہ کے لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جنگ ہوتی کیا ہے …تم جانتے ہو کہ ہم میں مکہ کے مہاجر بھی ہیں مدینہ کے انصار بھی ہیں اور ارد گرد کے علاقوں سے آئے ہوئے بدو بھی ہمارے ساتھ ہیں ۔
ان لوگوں نے ایک دوسرے پر طعنے بازی شروع کردی تھی۔ “
”اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں “…ایک سالار نے کہا
”میرے پاس اس کا علاج ہے “…خالد نے کہا …”ہم نے لشکر میں ان سب کو اکٹھا رکھا ہوا ہے ۔ مزید وقت ضائع کیے بغیر تم سب جاؤ اور مہاجرین کو الگ، انصار کو الگ اور بدوؤں کو الگ کرلو “
تھوڑے سے وقت میں خالد کے حکم کی تعمیل ہوگئی ۔
لشکر تین حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا ایک حصہ مہاجروں کا ، دوسرا انصار کا اور تیسرا بدوؤں کا تھا ۔ خالد رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار ان کے سامنے جاکھڑے ہوئے ۔
”اللہ کے سپاہیو!“…خالد نے بڑی بلند آوز میں کہا …”ہم نے میدان میں پیٹھ دکھاکر دشمن کے لیے ہنسی اور طعنہ زنی کا موقع پیدا کردیا ہے کون کہہ سکتا ہے کہ تم میں سے کون بہادری سے لڑا اور کون سب سے پہلے بھاگ اٹھا …مہاجرین ، انصار یا بدو؟“…اب میں نے تمہیں اس لیے الگ الگ کردیا ہے کہ دشمن پر فوراً جوابی حملہ کرنا ہے ۔
اب دیکھیں گے کہ تم میں سے کون کتنا بہادر ہے ۔ بہادری اور بزدلی کا فیصلہ طعنی زنی سے نہیں کیا جاسکتا۔ میدان میں کچھ کرکے دکھاؤ لیکن اتحاد کو ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ رسول اللہ نے تمہیں جس باہمی پیار کا سبق دیا تھا وہ بھول نہ جانا۔ تم میں سے کوئی گروہ دشمن کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹے تو دوسرے گروہ اس کی مدد کو پہنچیں ۔ ہمیں دشمن پر ثابت کرنا ہے کہ مسلیمہ جھوٹا نبی ہے ۔
اگر ہم شکست کھاگئے تو یہ جھوٹی نبوت ہم پر مسلط ہوجائے گی اور ہم مسلیمہ کے غلام اور ہماری عورتیں مرتدین کی لونڈیاں بن جائیں گی
خالد کے یہ الفاظ ان تیروں کی طرح کارگر ثابت ہوئے جو اپنے نشانے سے ادھر ادھر نہیں جایا کرتے۔ لشکر میں نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا ہوگیا۔ ادھر مرتدین مجاہدین کی خیمہ گاہ لوٹ کر اور تباہ کرکے جاچکے تھے ۔ ادھر سے مسلمان اشارہ ملتے ہی مسلیمہ کے لشکر کی طرف چل پڑے ۔
###