Episode 92 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 92 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

مسلیمہ نے اپنے لشکر کو پھر حملہ روکنے کی ترتیب میں کرلیا تھا ۔ جب مجاہدین اسلام کا لشکر مقابلے میں پہنچا تو انصار کے ایک سردار ثابت بن قیس گھوڑے کو ایڑ لگاکر لشکر کے سامنے آگئے ۔ 
”اے اہل مدینہ !“…انہوں نے بلند آواز سے کہا …’تم ایک شرمناک مظاہرہ کرچکے ہو ’“…ثابت بن قیس نے دشمن کی طرف اشارہ کرکے کہا …”اے میرے اللہ! جس کسی کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں میں اس پر لعنت بھیجتا ہوں “…انہوں نے مجاہدین کی طرف منہ کرکے کہا …”اے اللہ! جو بری مثال میرے اس لشکر نے قائم کی ہے میں اس پر بھی لعنت بھیجتا ہوں “
اتنا کہہ کر قیس بن ثابت نے نیام سے تلوار کھینچی اور گھوڑے کا رخ دشمن کی طرف کر کے ایڑ لگادی ۔
ان کے آخری الفاظ یہ تھے …”دیکھو، میری تلوار دشمن کو مزہ چکھائے گی اور تمہیں ہمت اور استقلال کا نمونہ دکھائے گی “
ثابت بن قیس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور خالد نے حملے کا حکم دے دیا۔

(جاری ہے)

مورخ لکھتے ہیں کہ ثابت بن قیس کی تلوار ایسی شدت اور ایسی مہارت سے چل رہی تھی کہ جو ان کے سامنے آیا وہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑا نظر نہ آیا۔ ان کے جسم کا شاید ہی کوئی حصہ رہ گیا ہوگا جہاں دشمن کی کوئی برچھی یا تلوار نہ لگی ہو۔

دشمن کی صفوں کے دور اندر جاکر ثابت بن قیس گرے اور شہید ہوگئے ۔ اپنے لشکر کے لیے وہ واقعی ہمت و استقلال کا بے مثال نمونہ پیش کرگئے ۔ 
محمد حسین ہیکل نے بعض مورخوں کے حوالے دے کر لکھا ہے کہ خالد کے لشکر نے قسمیں کھالی تھیں کہ اب ان کی لاشیں ہی اٹھائی جائیں گے وہ زندہ نہیں نکلیں گے ایک مورخ نے لکھا ہے کہ انہوں نے قسم کھائی کہ ہاتھ میں ہتھیار نہ رہا ترکش میں تیر نہ رہا تو دانتوں سے لڑیں گے ۔
 
خالد نے یہ مثال قائم کی کہ چند ایک جانباز چن کر اپنے ساتھ اس عزم سے لے کر گئے کہ جہاں لڑائی زیادہ خطرناک ہوگی وہاں وہ ان جانبازوں کے ساتھ جاکودیں گے ۔ انہوں نے اپنے جانبازوں سے کہا…”تم سب میرے پیچھے رہنا“…آگے وہ خود رہناچاہتے تھے ۔ 
###
دوباہ لڑائی شروع ہوئی تو ایک نئی مصیبت آن پڑی۔ آندھی آگئی جس کا رخ مجاہدین اسلام کی طرف تھا ۔
کچھ مورخ لکھتے ہیں کہ یہ صحرائی آندھی نہیں تھی بلکہ تیز ہوا تھی ۔ میدان جنگ میں گھوڑوں اور پیادوں کی اڑتی ہوئی گرد زمین سے اٹھتے بادلوں کی مانند تھی ۔ تیز و تند ہوا کا رخ مجاہدین کی طرف تھا اس لیے مٹی اور ریت مسلمانوں کی آنکھوں میں پڑتی تھی ۔ بدر میں کفار کے ساتھ ایسے ہی ہوا تھا۔ ہوا تیز ہوتی جارہی تھی ۔ 
”خدا کی قسم!“…زید بن خطاب نے گرجدار آواز میں کہا …”میں اپنے اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے دشمن کو شکست دینے تک زندہ رکھے …اے اہل مکہ و مدینہ!آندھی سے مت ڈرو ۔
سروں کو ذرا جھکا کے رکھو اس طرح ریت اور مٹی تمہاری آنکھوں میں نہیں پڑے گے ۔ پیچھے نہ ہٹ جانا۔ ہمت سے کام لو ۔ استقلال کو ہاتھ سے نہ جانے دو ۔ آندھی اور طوفان تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے“
زید بن خطاب سالار تھے ۔ انہوں نے مجاہدین کے لیے یہ مثال قائم کی کہ تلوار لہراتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ ان کے دستے ان کے پیچھے گئے ۔ زید بن خطاب تلوار چلاتے دور تک نکل گئے اور شہید ہوگئے ۔
 
ایک اور سالار ابو حذیفہ نے بھی یہی مثال قائم کی ۔ وہ یہ نعرہ لگاکر دشمن پر ٹوٹ پڑے…”اے اہل قرآن! اپنے اعمال سے قرآن حکیم کی ناموس کو بچاؤ “…وہ بھی مقابلے میں آنے والے ہرمرتد کو کاٹتے گئے، زخم کھاتے گئے اور شہید ہوگئے ۔
ان سالاروں نے جانیں دے کر مجاہدین کے عزم میں جان ڈال دی اور وہ آسمانی بجلیوں کی طرح دشمن پر ٹوٹ ٹوٹ پڑنے لگے۔
اس کے باوجود مسلیمہ کا لشکر قائم و دائم تھا ۔ خالد نے میدان جنگ کا جائزہ لیا یہ ایسی جنگ تھی جس میں چالیں چلنے کی ذرا سی بھی گنجائش نہیں تھی یہ آمنے سامنے کی ٹکر تھی ۔ اس میں صرف ذاتی شجاعت ہی کام آسکتی تھی۔ 
خالد نے میدان جنگ کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا کہ ان کے جانبازوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا ۔ جب قریب گئے تو مسلیمہ کے محافظوں نے ان پر ہلہ بول دیا ۔
خالد کے جو قریب آیا وہ زندہ نہ رہا مگر مسلیمہ تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا ۔ 
خالد کے جانبازوں نے اپنی ترتیب بکھرنے نہ دی۔ ایک موزوں موقع دیکھ کر خالد نے اپنے جانبازوں کو مل کر ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔ خالد خود بھی ہلے میں شریک ہوگئے ،کچھ محافظ پہلے ہی مرچکے تھے یا زخمی ہوکر زمین پر تڑپ رہے تھے ۔ خالد کے جانبازوں کا ہلہ اتنا شدید تھا کہ مسلیمہ کے محافظ بوکھلا گئے ۔
میدان جنگ کی صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ مجاہدین جو فتح یا موت کی قسمیں کھاچکے تھے وہ مرتدین پر ایک خوف بن کر چھارہے تھے ۔ مسلیمہ کو اپنی حفاظت کے لیے کوئی اور محافظ نہیں مل سکتا تھا۔ 
مسلمانوں کے نعروں کے ساتھ آندھی کی چیخیں میدان جنگ کی ہولناکی میں اضافہ کر رہی تھیں۔ مسلیمہ کے بچے کھچے محافظ گھبرانے لگے۔ خالد کے جانبازوں نے ان کا حلقہ توڑ دیا 
”یانبی!“…کسی محافظ نے کہا …”اپنا معجزہ دکھا “
”اپنا وعدہ پورا کر ہمارے نبی !“…ایک اور محافظ نے کہا …”تیرا وعدہ فتح کا تھا “
مسلیمہ نے موت کو اپنی طرف تیزی سے بڑھتے دیکھا تو اس نے بلند آواز سے اپنے محافظوں سے کہا…”اپنے حسب و نسب اور اپنی ناموس کی خاطر لڑو “…اور وہ بھاگ اٹھا ۔
 
####

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط