خالد اپنے سالاروں اور کمانداروں کے ساتھ یمامہ شہر کے دروازے تک پہنچے۔ انہوں نے اوپر دیکھا ۔ دیواروں پر اب ایک بھی آدمی نہیں کھڑا تھا برج بھی خالی تھے خالد رضی اللہ عنہ کو توقع تھی کہ قلعے کے اندر انہیں بنو حنفیہ کا وہ لشکر نظر آئے گا جس کے متعلق مجاعہ نے انہیں بتایا تھا کہ مسلمانوں کو کچل ڈالے گا مگر وہاں کسی لشکر کا نام و نشان نہ تھا۔
وہاں عورتیں تھیں ، بچے اور بوڑھے تھے جوان آدمی ایک بھی نظر نہیں آتا تھا ۔ عورتوں اپنے گھروں کے سامنے کھڑی تھیں۔ بعض منڈیروں پر بیٹھی تھیں۔ ان میں زیادہ تر عورتیں رو رہی تھیں۔ ان کے خاوند، باپ، بھائی یا بیٹے جنگ میں مارے گئے تھے ۔
”ابن مرارہ!“…خالد نے مجاعہ سے پوچھا ۔ …”وہ لشکر کہاں ہے ؟“
”دیکھ نہیں رہے ہو ابن ولید!“…مجاعہ نے دروازوں کے سامنے اور چھتوں پر کھڑی عورتوں کی طرف اشارہ کرکے کہا …”یہ ہے وہ لشکر جو شہر کی دیوار پر تیر و کمان اور برچھیاں اٹھائے کھڑا تھا “
”یہ عورتیں؟“…خالد نے حیران سا ہوکے پوچھا۔
(جاری ہے)
”ہاں ولید کے بیٹے !“…مجاعہ نے کہا …”شہر میں کوئی لشکر نہیں، یہاں صرف بوڑھے آدمی ہیں جو لڑنے کے قابل نہیں، عورتیں اور بچے ہیں “
”کیا یہ ہمارے حملے کو روک سکتے تھے ؟“…خالد نے پوچھا …”کیا عورتیں مقابلے میں آئی تھیں؟“
”نہیں ابن ولید!“…مجاعہ نے کہا …”یہ میری ایک چال تھی ۔ شہر سے تمام آدمی لڑنے کے لیے چلے گئے ہیں شہر میں کوئی جوان آدمی نہیں رہا تھا ۔
میں اپنے قبیلے کو تباہی سے بچانا چاہتا تھا ۔ میں نے تمام عورتوں، بوڑھوں اور کمسن لڑکوں کو زرہ اور سروں پر خودیں پہنائیں اور ان کے ہاتھوں میں تیر کمان اور برچھیاں دے کر دیوار پر کھڑا کردیا۔ میں نے خود باہر جاکر دیکھا پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ عورتیں، بوڑھے آدمی اور کمسن لڑکے ہیں۔ میں نے تجھے موقع دیا کہ دیوار پر ایک نظر ڈال لے تاکہ تو اس جھانسے میں آجائے کہ یمامہ میں بہت بڑا لشکر موجود ہے …اور تو میرے جھانسے میں آگیا “
خالد رضی اللہ عنہ خشمگین ہوئے ۔
وہ مجاعہ کو اس دھوکے کی سزا دے سکتے تھے لیکن اس عہد نامے کی خلاف ورزی انہیں گوارا نہیں تھی جس پر وہ دستخط کرچکے تھے ۔
”خدا کی قسم !“…خالد نے مجاعہ سے کہا …”تو نے مجھے دھوکہ دیا ہے “
”میں تجھے دھوکہ دے سکتا ہوں “…مجاعہ نے کہا …”اپنے قبیلے کی عورتوں اور بچوں سے غداری نہیں کرسکتا میں انہیں تیری تلواروں سے بچانا چاہتا تھا۔
میں نے انہیں بچالیا ہے “
”تو خوش قسمت ہے کہ میں مسلمان ہوں “…خالد نے کہا …”اسلام معاہدہ توڑنے کی اجازت نہیں دیتا میں صلح نامے پر دستخط کرچکا ہوں ورنہ میں تمہاری ان تمام عورتوں کو لونڈیاں بنالیتا“
”مجھے معلوم تھا تو ایسے نہیں کرے گا “…مجاعہ نے کہا ۔
”لیکن ایک بات سن لے ابن مرارہ!“…خالد نے کہا …”میں نے معاہدہ صرف یمامہ شہر کے لیے کیا ہے اس میں ارد گرد کے علاقے شامل نہیں۔
میں پابند ہوں کہ یمامہ کے اندر کسی جنگی مجرم کو قتل نہ کروں۔ یمامہ کے باہر میں جسے سمجھوں گا کہ اسے قتل ہونا چاہیے، اس کے قتل سے گریز نہیں کروں گا “
####
ارتداد کا سب سے بڑا مرکز یمامہ تھاجو خالد نے اکھاڑ پھینکا اور جھوٹے نبی کو ہلاک کرکے اس کی لاش کی نمائش کی گئی۔ اس کے پیروکاروں سے کہا گیا کہ مسلیمہ کے پاس معجزوں کی طاقت ہوتی تو تمہارے چالیس ہزار سے زیادہ لشکر کا یہ حشر تیرہ ہزار آدمیوں کے ہاتھوں نہ ہوتا ۔
”بنو حنفیہ!“…مسلمان یمامہ کی گلیوں میں اعلان کرتے پھر رہے تھے …”عورتیں مت ڈریں کسی کو لونڈی نہیں بنایا جائے گا شہر کے اندر کسی مرد، بچے یا عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا ۔ مسلیمہ فریب کار تھا ۔ اس نے تم سب کو دھوکہ دے کر تمہارے گھر اجاڑ دیے ہیں “
یمامہ پر خوف و ہراس اور موت کی ویرانی طاری تھی ۔ عورتیں شہر سے باہر نکلنے سے ڈرتی تھیں انہیں مسلمانوں سے کوئی ڈر اور خدشہ نہیں رہا تھا۔
وہ اپنے آدمیوں کی لاشیں دیکھنے سے ڈرتی تھیں وہ شہر کی دیوار پر جاکر باہر کا منظر دیکھتی تھیںَ انہیں گدھوں، گیدڑوں ور بھیڑیوں کی خوفناک آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ یہ سب لاشیں کھا رہے تھے ۔
یمامہ اور گردونواح کے لوگوں نے اتنی قتل و غارت کبھی دیکھی نہ سنی تھی ۔ یہ تو قہر نازل ہوا تھا گھر گھر ماتم ہورہا تھا اس بھیانک صورت حال میں لوگ، اس غیبی قوت کے آگے سجدے کرنا چاہتے تھے جس نے ان پر قہر نازل کیا تھا۔
مسلمانوں کی فوج میں قرآن کے حافظ اور قاری بھی تھے ۔ انہوں نے لوگوں کو آیات قرآنی سنا کر بتانا شروع کردیا کہ انہیں تباہ کرنے والی غیبی طاقت کیا ہے۔
مورخ لکھتے ہیں کہ بنو حنفیہ کے جو آدمی بھاگ گئے تھے ان کی تعداد کم و بیش بیس ہزار تھی ۔ وہ یوں لاپتہ ہوئے کہ ادھر ادھر چھپ گئے تھے۔ مسلمان انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لارہے تھے۔ وہ بھی خوفزدہ تھے وہ نادم بھی تھے کہ انہوں نے ایک جھوٹے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی جس نے انہیں کہا تھا کہ اسے خدا نے ایسی طاقت دی ہے کہ فتح بنو حنفیہ کی ہی ہوگی اور مسلمان تباہ ہوجائیں گے انہیں تبلیغ کی اور اسلام کے تفصیلی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔
ان میں بیشتر نے ازخود اسلام قبول کرلیا۔
مجاعہ بن مرارہ بنو حنفیہ کی سرداری میں مسلیمہ کذاب کا جانشین تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا قبیلہ دھڑا دھڑ اسلام قبول کرتا جارہا ہے تو اس سے اسے یہ اطمینان ہوا کہ خالد کے دل میں اس کے خلاف جو خفگی تھی وہ نکل گئی ہے ۔
بنو حنفیہ کے لوگ جوق در جوق خالد کے پاس بیعت کے لیے آرہے تھے ۔ خالد نے ان میں سے چند ایک سرکردہ افراد کا ایک وفد تیار کیا اور انہیں خلیفہ المسلین کے ہاتھ پر بیعت کے لیے مدینہ بھیج دیا ۔
###
خالد رضی اللہ عنہ کو یہ جنگ بہت مہنگی پڑی تھی ۔ قدیم تحریروں اور دیگر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ کو اتنے بڑے لشکر پر فتح حاصل کرنے کی توقع کم تھی ۔ انہوں نے یہ اللہ کے بھروسے اور اپنی جنگی قابلیت کے بل بوتے پر لڑی تھی ۔ ان کے اعصاب تھک کر چور ہوچکے تھے ۔
اس جنگ کی خونریزی کا اندازہ یہ ہے کہ بنو حنفیہ کے اکیس ہزار آدمی مارے گئے ۔
زخمیوں کی تعداد الگ ہے ۔ اس کے مقابلے میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار دو سو تھی ۔ ان میں تین سو شہید قرآن کے حافظ تھے ۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی کہ شہیدوں میں تین سو حافظ قرآن تھے تو انہوں نے یہ سوچ کر کہ جنگوں میں قرآن کے تمام حافظ شہید ہوسکتے ہیں حکم دیا کہ قرآن ایک جگہ تحریر میں جمع کرلیا جائے۔
چنانچہ پہلی بار قرآن کو اس شکل میں مرتب کیا گیا جو آج ہمارے سامنے ہے۔
جنگ یمامہ کے بعد خالد کی کیفیت یہ تھی کہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے شل ہوچکے تھے لیلیٰ ان کے تھکے ماندے اعصاب سہلاتی تھی ۔ مورخوں نے لکھا ہے کہ کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اتنا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اب ایک ہی بار ایک ہزار دو سو مجاہدین شہید ہوگئے تھے تو باقی مجاہدین پر جیسے غم کے پہاڑ آپڑے ہوں۔
خالد دکھ اور غم کو قبول کرنے والے نہیں تھے ۔ اگر وہ مرنے والوں کا ماتم کرنے بیٹھ جاتے یا دل پر غم طاری کرلیتے تو سپہ سالاری نہ کرسکتے۔ انہیں آگے چل عراق اور شام فتح کرنا تھا۔
”ولید کے بیٹے!,“…لیلیٰ نے کہا …”میں تمہیں اس عظیم فتح پر ایک تحفہ دینا چاہتی ہوں “
”کیا اللہ کی خوشنودی کافی نہیں “…خالد نے کہا۔
”وہ تو تمہیں مل ہی گئی ہے “…لیلیٰ نے کہا …”تم اللہ کی تلوار ہو ۔
میں اس دنیا کی بات کر رہی ہو ں“
”تم بہت تھک گئے ہو “
”تحفہ کیا ہے ؟“…خالد نے پوچھا ۔
”مجاعہ بن مرارہ کی بیٹی !“…لیلیٰ نے کہا …’تم نے اسے نہیں دیکھا۔ میں اس کے گھر گئی تھی بہت خوبصورت لڑکی ہے یمامہ کا ہیرا ہے ۔ وہ تمہیں چاہتی بھی ہے کہتی ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ عظیم انسان ہے جس نے ہم پر فتح پاکر بھی اعلان کیا ہے کہ کسی عورت کو لونڈی نہیں بنایا جائے گا حالانکہ اسے یمامہ کی عورتوں نے دھوکہ دیا تھا ’“
اس دور میں عربوں کے ہاں سوکن کا تصور نہیں تھا خالد نے مجاعہ بن مرارہ سے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتے ہیں۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ مجاعہ اتنا حیران ہوا جیسے اس نے غلط سنا ہو ۔
”کیا کہا تو نے ولید کے بیٹے ؟“…مجاعہ نے پوچھا ۔
”میں تمہاری بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہوں “…خالد نے اپنی بات دہرائی ۔
”کیا خلیفہ ابوبکر ہم دونوں سے خفا نہ ہوں گے “…مجاعہ نے کہا۔ (مجاعہ کے صحیح الفاظ یہ تھے …”کیا خلیفہ ہم دونوں کی کمر نہ توڑ ڈالیں گے “)
خالد اسی پر اصرار کرتے رہے کہ وہ مجاعہ کی بیٹی کے ساتھ شادی کریں گے ۔
آخر انہوں نے اس حسین اور جوان لڑکی کو اپنے عقد میں لے لیا ۔ یہ خبر مدینہ پہنچی تو خلیفہ المسلمین ابوبکر نے خالد کو خط لکھا :
”او ولید کے بیٹے!تمہیں ہوکیا گیا ہے ؟شادیاں کرتے پھرتے ہو ۔ تمہارے خیمے کے باہر بارہ سو مسلمانوں کا خون بہہ گیا ہے تم نے شہیدوں کا خون بھی خشک نہیں ہونے دیا “
”یہ عمر بن خطاب کی کارستانی ہے “…خالد نے خط پڑھ کر زیر لب کہا ۔
یہ معاملہ سرزنش کے خط پر ہی ختم ہوگیا ۔ خلیفہ ابوبکر نے خالد رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ یمامہ کے علاقے میں رہیں اور اگلے حکم کا انتظار کریں۔ خالد مجاعہ کی بیٹی اور لیلیٰ کو ساتھ لے کر یمامہ کے قریب وادی وبر میں جا خیمہ زن ہوئے …دوماہ بعد انہیں اگلا حکم ملا۔
###