فروری ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے (ذیعقد۱۱ہجری کے آخری ہفتے ) کے ایک دن خلیفہ ابوبکر سے ملنے ایک شخص آیا جس نے اپنا نام مثنیٰ بن حارثہ شیبانی بتایا ۔ خلیفہ کے لیے اور اہل مدینہ کے لیے وہ ایک غیر اہم بلکہ گمنام آدمی تھا ۔ اگر ایسا شخص کسی بادشاہ کے دربار میں جاتا تو اسے وہاں سے نکال دیا جاتا لیکن ابوبکر کسی اقلیم کے بادشاہ نہیں بلکہ شہنشاہ دوجہاں کے خلیفہ تھے جن کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے رہتے تھے ۔
یہ شخص جب خلیفہ ابوبکر کے پاس آیا، اس وقت اس کے چہرے پر تھکن اور شب بیداری کی گہری پرچھائیاں تھیں کپڑوں پر گرد تھی اور وہ قدرتی روانی سے بول بھی نہیں سکتا تھا ۔
”کیا مجھے کوئی بتاسکتا ہے یہ اجنبی مہمان کون ہے “…خلیفہ ابوبکر نے پوچھا ۔
”یہ شخص جس نے اپنا نام مثنیٰ بن حارثہ بتایا ہے یہ معمولی آدمی نہیں “…قیس بن عاصم المنقری نے جواب دیا …”امیر المومنین! اس کے یہاں آنے میں کوئی قریب نہیں شہرت اور عزت جو اس نے پائی ہے وہ اللہ ہر کسی کو عطا کرے۔
(جاری ہے)
ہرمز جو عراق میں فارس کا سالار ہے اور جس کی فوج کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے مثنیٰ بن حارثی کا نام سن کر سوچ میں پڑ جاتا ہے ۔“
”امیر المومنین!“ … کسی اور نے کہا … ”آپ کا اجنبی مہمان بحرین کے قبیلہ بکر بن وائل کا معزز فرد ہے۔ یہ اسلام قبول کرنے والے ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے کفر اور ارتداد کی آندھیوں میں اسلام کی شمع روشن رکھی ہے اور اس نے ہمارے سالار علاء بن حضرمی کے ساتھ مل کر عراق کی سرحد کے علاقوں میں مرتدین کے خلاف لڑائیاں لڑی ہیں۔
“
امیر المومنین ابوبکر رضی اللہ عنہ کا چہرہ چمک اٹھا۔ اب انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو بدلی ہوئی نگاہ سے دیکھا ۔ ان کے ذہن میں عربی مسلمانوں کے وہ قبائل آگئے جو ایرانیوں کے محکوم تھے ۔ یہ عراق کے علاقے میں آباد تھے۔ یہ تھے بنو لخم، تغلب، یاد نمبر اور بنو شیبان۔ ایک روایت کے مطابق یہ وہ عربی باشندے تھے جنہیں پہلی جنگوں میں ایرانی جنگی قیدے بناکر لے گئے اور انہیں دجلہ اور فرات کے ڈیلٹا کے دلدلی علاقے میں آباد کرلیا تھا ۔
ان قبائل نے ایرانیوں کا غلام ہوتے ہوئے بھی اپنے عقیدوں کو اپنے وطن کے ساتھ وابستہ رکھا ۔ عرب میں اسلام کو فروغ ملا تو انہوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ عراق سے سجاح جیسے چند افراد نے نبوت کے دعوے کیے تو ان محکوم عربوں نے اس ارتداد کے خلاف محاذ بنالیا۔
ادھر مسلمان ایک ایسی جنگی طاقت بن چکے تھے جن کے سامنے مرتدین اور کفار کے متحدہ لشکر بھی نہ جم سکے ۔
میدان جنگ سے ہٹ کر مسلمان جو عقیدہ پیش کرتے تھے وہ دلوں میں اتر جاتا تھا ۔ اس طرح مسلمان عسکری اور نظریاتی لحاظ سے چھاتے چلے جارہے تھے ۔ لیکن ابھی وہ آتش پرست ایرانیوں کے خلاف ٹکر لینے کے قابل نہیں ہوئے تھے ایران اس وقت کی بڑی طاقتور بادشاہی تھی جس کے طول و عرض کا حساب نہ تھا۔ اس بادشاہی کی فوج تعداد اور ہتھیاروں کے لحاظ سے بہت طاقتور تھی ۔
صرف رومی تھے جنہوں نے ان سے جنگیں لڑیں اور انہیں کچھ کمزور کردیا تھا ۔
اس کے باوجود خلیفہ ابوبکر ایران کی بادشاہی میں رسول اللہ کا پیغام پہنچانے کا تہیہ کیے ہوئے تھے۔ ایرانی نہ صرف یہ اسلام کو قبول کرنے پر تیار نہ تھے بلکہ وہ اسلام کا مذاق اڑاتے تھے۔ اگر مسلمانوں کا کوئی ایلچی ان کے کسی علاقے کے امیر کے دربار میں چلا جاتا تو وہ اس کی بے عزتی کرتے اور بعض کو قید میں بھی ڈال دیا کرتے تھے ۔
حکومتوں اور حکمرانوں کے انداز اور خیالات اپنے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے سوچنے کے انداز بھی مصلحت اور حالات کے تابع ہوتے ہیں لیکن عوام کی سوچیں ان کے جذبوں کے زیر اثر ہوتی ہیں اور ملک و ملت کی خاطر عوام آگ اگلتے پہاڑوں کے خلاف بھی سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔
####
اس دور میں عراق ایران کی بادشاہی کا ایک صوبہ تھا ۔ اس کا امیر یا حاکم ہرمز تھا جو اس دور میں مانا ہوا جنگجو اور نڈر جنگی قائد تھا ۔
ظالم اور بدطینت اتنا کہ اس کے علاقے کے لوگ کسی کے خلاف بات کرتے تو کہتے تھے کہ …”وہ تو ہرمز سے بڑھ کر کمینہ اور بدفطرت ہے “
اس کے ظلم و ستم کا زیادہ تر شکار مسلمان تھے جو دجلہ اور فرات کے سنگھم کے علاقے میں رہتے تھے۔ ان کے خلاف ہرمز کو یہی ایک دشمنی تھی کہ وہ اسلام کے پیروکار ہیں۔ کسی ایرانی کے ہاتھوں کسی مسلمان کا قتل ہوجانا اورکسی مسلمان عورت کا اغواء کوئی جرم نہیں تھا۔
ہندوؤں کی طرح ایرانی مسلمانوں کو تکلیف پہنچاکر، کسی بہانے ان کے گھروں کولوٹ کر اور جلاکر خوشی محسوس کرتے تھے ۔ مسلمان خوف و ہراس میں زندگی گزارتے تھے ۔
مسلمان جس علاقے میں آباد تھے اس کی زمین سونا اگلتی تھی ۔ اناج اور پھلوں کی پیداوار کیلئے یہ بڑا ہی زرخیز علاقہ تھا ۔ یہ علاقہ جو کم و بیش تین سو میل لمبا تھا زرخیزی اور شادابی کے علاقہ قدرتی مناظر کی وجہ سے حسین خطہ تھا۔
حاکم عیش و عشرت کے لیے اسی علاقے میں آتے اور کچھ دن گزار جاتے تھے۔ اس زرخیز اور شاداب علاقے میں مسلمانوں کو آباد کرنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ کھیتی باڑی کریں اور خوشحال رہیں، بلکہ انہیں یہاں مزارعوں کی حیثیت سے رکھا گیا تھا۔ وہ زمین کا سینہ چیر کر شبانہ روز محنت اور مشقت سے اناج اور پھل اگاتے مگر اس میں سے انہیں اتنا ہی حصہ ملتا جو انہیں محض زندہ رکھنے کے لئے کافی ہوتا تھا۔
زمین کی اگلی ہوئی تمام دولت حاکموں کے گھروں میں اور ایرانی فوج کے پاس چلی جاتی تھی۔ مسلمان مزارعوں کے لئے غربت اور ایرانیوں کی نفرت رہ جاتی تھی۔
مسلمان اپنی جوان بیٹیوں کو گھروں میں چھپاکر رکھتے تھے ۔ کسی ایرانی فوجی کو کوئی مسلمان لڑکی اچھی لگتی تو وہ کسی نہ کسی بہانے یا اس کے گھروالوں پر کوئی الزام عائد کرکے اسے اپنے ساتھ لے جاتا تھا ۔
ایرانی فوجی کسی بہانے کے بغیر بھی مسلمان لڑکیوں کو اپنے ساتھ زبردستی لے جاسکتے تھے ۔ لیکن غلامی اور مظلومیت کے باوجود مسلمانوں میں غیرت کا جذبہ موجود تھا ۔ پہلے پہل زبردستی اغوا کی وارداتیں ہوئیں تو مسلمانوں نے دو تین فوجیوں کو قتل کردیا تھا۔ مسلمانوں کو اس کی سزا تو بڑی ظالمانہ ملی تھی اور انہیں اپنی لڑکیوں کو بچانے کی قیمت بھی بہت دینی پڑی تھی لیکن زبردستی اغوا کا سلسلہ رک گیا تھا ۔
آتش پرست ایرانی اپنے فوجیوں کو سانڈوں کی طرح پالتے تھے ہرسپاہی اس قسم کی زرہ پہنتا تھا کہ سر پر آہنی زنجیروں کی خود اور بازوؤں پر دھات کے خول اس طرح چڑھے ہوئے تھے کہ بازوؤں کی حرکت میں رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ ان کی ٹانگوں کو بھی بڑے سخت چمڑے یا کسی دھات سے محفوظ کیا ہوتا تھا ۔
اسلحہ اتنا کہ ہر سپاہی کے پاس ایک تلوار، ایک برچھی اور ایک گرز ہوتا تھا۔
گرز پر ایرانی سپاہی خاص طور پر فخر کیا کرتے تھے ۔ ان ہتھیاروں کے علاوہ ہر سپاہی کے پاس ایک کمان اور ترکش میں تیس تیر ہوتے تھے ۔انہیں عیش و عشرت ، کھانے پینے اور لوٹ مار کی کھلی اجازت تھی ۔ وہ جرات اور عسکری مہارت میں قابل تعریف تھے ۔ ان کی کمزوری صرف یہ تھی کہ وہ صرف آمنے سامنے کی لڑائی لڑسکتے تھے اور لڑتے بھی بے جگری سے تھے لیکن اتنا اسلحہ اٹھا کر وہ پھرتی سے نقل و حرکت نہیں کرسکتے تھے۔ کسی دستے یا جیش کو فوراً ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا تو وہ مطلوبہ وقت میں نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اتنے زیادہ ہتھیاروں کا بوجھ انہیں جلدی تھکادیتا تھا۔ البتہ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی جو ان کی سست رفتاری کی کمزوری کو چھپالیتی تھی۔
####