دجلہ اور فرات کے سنگھم کے علاقے کے جنوب میں ابلہ ایک مقام تھا جو عراق اور عرب کی سرحد پر تھا۔ اس زمانے میں ابلہ ایک شہر تھا۔ اس کے ارد گرد علاقے شاداب اور سرسبز تھا ۔ وہاں بڑے خوبصورت جنگل اور ہری بھری پہاڑیاں تھین۔ یہ تاریخی اہمیت کا علاقہ تھا آج بھی وہاں کھنڈرات بکھرے ہوئے ہیں جو بزبان خاموشی تاریخی کہانیاں سناتے ہیں۔ ہر کہانی عبرت ناک ہے۔
اس خطے میں ان قوموں کی تباہی اور بربادی کے آثار بھی موجود ہیں جنہوں نے عیش و عشرت کو زندگی کا مقصد بنالیا تھا اور رعایا کو وہ انسانیت کا درجہ نہیں دیتے تھے ۔ خدا نے انہیں راہ مستقیم دکھانے کے لیے پیغمبر بھیجے تو ان لوگوں نے پیغمبروں کا مذاق اڑایا اور کہا کہ تم تو ہم میں سے ہو اور دنیا میں تمہاری حیثیت اور تمہارا رتبہ بھی کوئی نہیں پھر تم خد اکے بھیجے ہوے پیغمبر کس طرح ہوسکتے ہو ۔
(جاری ہے)
آخر خدا نے انہیں ایسا تباہ و برباد کیا کہ ان کے محلات اور ان کی بستیوں کو کھنڈر بنادیا۔ خدا نے ان کا تفصیلی ذکر قرآن میں کیا اور فرمایا ہے …”کیا تم نے زمین پر گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ جو اپنی بادشاہی پر اتراتے اور خدا کی سرکشی کرتے تھے اور جو اونچے پہاڑوں پر اپنی یادگاریں بناتے تھے کہ ان کے نام ہمیشہ زندہ رہیں، وہ اب کہاں ہیں؟“…اب زمین کے نیچے سے ان کے محلات اور ان کی یادگاروں کے کھنڈرات نکل رہے ہیں۔
ان کے بعد بھی پرشکوہ شہنشاہ آئے اور ایک کے بعد ایک اپنے کھنڈرات چھوڑتا گیا۔ بابل کے کھنڈر بھی آج تک موجود ہیں۔ اس خطے میں اشوری آئے۔ ساسانی آئے اور اب جب مدینہ میں ابوبکر صدیق امیر المومنین تھے ۔ دجلہ اور فرات کے اس حسین اور عبرت انگیز خطے میں ایرانیوں کا طوطی بول رہا تھا اور یہ آتش پرست قوم پہلی قوموں کی طرح یہی سمجھتی رہی کہ اسے تو زوال آ ہی نہیں سکتا۔
وہ محکوموں کے خدا بنے ہوئے تھے ۔
###
”بنت سعود!“…ایک نوجوان مسلمان لڑکی اپنی سہیلی سے پوچھ رہی تھی …”خدام نہیں آیا؟“
زہرہ بنت سعود کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے آہ بھر کر منہ پھیر لیا ۔
”تم کہتی تھیں وہ تمہیں دھوکہ نہیں دے گا “…سہیلی نے زہرہ سے کہا …”خدا نہ کرے۔ وہ اس بدبخت ایرانی کے ہاتھ چڑھ گیا ہو “
”خدا نہ کرے “…زہرہ بنت سعود نے کہا…”وہ آئے گا …چار دن گزگئے ہیں…میں س ایرانی کے ساتھ نہیں جاؤں گی موت قبول کرلوں گی اسے قبول نہیں کروں گی خدام مجھے دھوکہ نہیں دے گا “
”زہرہ!“…سہیلی نے اسے کہا …”کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ تم اس ایرانی کماندار کو قبول کرلو؟تمہارے خاندان کے لیے بھی یہی بہتر ہوگا یہی ہے ناکہ تمہیں اپنا عقیدہ بدلنا پڑے گا ۔
ساری عمر عیش تو کروگی نا “
”میں نے جس خدا کو دیکھ لیا ہے اسی کی عبادت کروں گی “…زہرہ نے کہا …”آگ خدا نے پیدا کی ہے ۔ آگ خدا نہیں ہوسکتی ۔ میں خدا کی موجودگی میں کسی اور کی پرستش کیوں کروں ؟“
”سوچ لو زہرہ!“سہیلی نے کہا…”تم اسے قبول نہیں کرو گی تو وہ تمہیں زبردستی اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے ۔ اسے کون روک سکتا ہے ۔ وہ شاہی فوج کا کماندار ہے ۔
وہ تمہارے گھر کے بچے بچے کو قید خانے میں بند کراسکتا ہے ۔ ہوں تو میں بھی مسلمان کی بیٹی۔ میں اللہ کی عبادت کرتی اور اللہ کی ہی قسم کھاتی ہوں لیکن اللہ نے ہماری کیا مدد کی ہے ؟کیا تمہیں یقین ہے کہ اللہ تمہاری مدد کرے گا ؟“
’اگر اللہ نے میری مدد نہ کی تو اپنی جان لے لوں گی ’“…زہرہ نے کہا …”اور اللہ سے کہوں گی کہ یہ لے، اگر میرے وجود میں جان تونے ڈالی تھی تو واپس لے لے “…اور اس کے آنسو بہنے لگے ۔
زہرہ اپنے جیسے ایک خوبصورت جوان خدام بن اسد کو چاہتی تھی اور خدام اس پر جان نثار کرتا تھا۔ ان کی شادی ہوسکتی تھی لیکن شمر ایرانی فوج کا ایک کماندار تھا جس کی نظر زہرہ بنت سعود پر پڑ گئی تھی ۔ اس نے اس لڑکی کے باپ سے کہا تھا کہ وہ اس کی بیٹی کو بڑی آسانی سے گھر سے لے جاسکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرے گا ۔
”میں تمہاری بیٹی کو مال غنیمت سمجھ کر نہیں لے جاؤں گا“…شمرنے کہا تھا …”اسے دو گھوڑوں والی اس بگھی پر لے جاؤں گا جس پر دولہے اپنی دلہنوں کو لے جایا کرتے ہیں۔
تم لوگوں کو فخر سے بتایا کرو گے کہ تمہاری بیٹی ایک ایرانی کماندار کی بیوی ہے“
”لیکن ایرانی کماندار !“…زہرہ کے باپ نے کہا تھا …”تمہارا احترام ہم پر لازم ہے اگر لڑکی تمہاری دلہن بننا چاہے گی تو ہم اسے نہیں روکیں گے “
”تم غلیظ عربی!“…ایرانی کماندار نے اسے نفرت سے جس سے وہ ہر مسلمان سے بات کیا کرتا تھا کہا …”تو بیٹیوں کو زندہ دفن کردینے والوں میں سے ہے اور کہتا ہے کہ اپنی شادی کا فیصلہ تیری بیٹی خود کرے گی۔
زرتشت کی قسم ، اگر تیری بیٹی نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں نہ دیا تو تجھے اور تیری بیٹی کو ان کوٹھڑیوں میں بند کردوں گا جن میں کوڑھی بند ہیں…بہت تھوڑی مہلت دوں گا بوڑھے “
اس کے ساتھ اس کے تین گھوڑ سوار سپاہی تھے ۔ انہوں نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا تھا ۔
”مدینہ بہت دور ہے بدبخت بوڑھے !“…ایک سپاہی نے اسے دھکہ دے کر کہا تھا …”تیرا امیر المومنین تیری مدد کو نہیں آئے گا “
زہرہ کے باپ کو اور اس کے بھائیوں کو معلوم تھا کہ وہ ایران کے ایک سپاہی کی بھی حکم عدولی نہیں کرسکتے۔
یہ تو کماندار تھا انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شمر ان کی بیٹی کو اٹھوا بھی سکتا ہے اور وہ کچھ نہیں کرسکتے لیکن اس خطے کے مسلمانوں کے دلوں میں آگ کے پجاریوں کی جو نفرت تھی وہ انہیں مجبور کر رہی تھی کہ وہ ان کے غلام ہوتے ہوئے بھی ان کی غلامی قبول نہ کریں اور اس کا انجام کتنا ہی بھیانک کیوں نہ ہو ، اسے برداشت کریں۔ انہیں اپنے اللہ پر بھروسہ تھا ۔
زہرہ اور خدام کو ملنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا ۔ وہ پھلوں کے باغات میں کام کرتے تھے ۔ جس روز شمر زہرہ کے گھر آیا تھا اس سے اگلے روز زہرہ، خدام سے ملی اور خوفزدہ لہجے میں اس نے خدام کو بتایا کہ ایرانی کماندار کیا دھمکی دے گیا ہے۔
”ہم یہاں سے بھاگ نہ چلیں؟“…زہرہ نے پوچھا ۔
”نہیں “…خدام نے جواب دیا …”اگر ہم بھاگ گئے تو یہ بدبخت تمہارے اور میرے خاندان کے بچے بچے کو قتل کردیں گے ۔
“
”پھر کیا ہوگا ؟“…زہرہ نے پوچھا ۔
”جو خدا کو منظور ہوگا “…خدام نے کہا ۔
”خدا، خدا، خدا“…زہرہ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا …”جو خدا ہماری مدد نہیں کرسکتا …“
”زہرہ!“…خدام نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا …”خدا اپنے بندوں کو امتحان میں ڈالا کرتا ہے بندے خدا کا امتحان نہیں لے سکتے …“خدام گہری سوچ میں کھوگیا۔
”یہ تو ہونہیں سکتا کہ تم اس آتش پرست شمر کا مقابلہ کرو گے “…زہرہ نے کہا ۔
خدام گہری سوچ میں کھویا رہا ۔
”سوچتے کیا ہو “…زہرہ نے کہا …”تم اس شخص کو قتل تو نہیں کرسکتے، ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے “
”خدا نجات کا راستہ بھی دکھادے گا “…خدام نے کہا ۔
”تمہیں ایک اور راستہ میں دکھاسکتی ہوں “…زہرہ نے کہا …”مجھے اپنی تلوار سے قتل کردو اور تم زندہ رہو “
”تھوڑی سی قربانی دو “…خدام نے کہا …”میں اس نفرت کا اندازہ کرسکتا ہوں جو شمر کے خلاف تمہارے دل میں بھری ہوئی ہے ۔
لیکن اس پر یہ ظاہر کرو کہ تم اسے پسند کرتی ہو ۔ اسے دھوکے میں رکھو۔ میں کچھ دنوں کے لیے غائب ہوجاؤں گا “
”کہاں جاؤں گے ؟“…زہرہ نے پوچھا …”کیا کرنے جاؤ گے ؟“
”مجھ سے ہر بات نہ پوچھوں زہرہ !“…خدام نے کہا …”میں خدائی مدد حاصل کرنے جارہا ہوں “
”خدا کی قسم، خدام!“…زہرہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا …”اگر تم نے مجھے دھوکہ دیا تو میری بدروح تمہیں چین سے جینے نہیں دے گی میں ایک دن کے لیے بھی اس کافر کی بیوی بن کے نہیں رہ سکوں گی ۔
اس کی بیوی بننے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے تم ہی نہیں میرا مذہب بھی چھن جائے گا “
”اگر تم مذہب کی اتنی پکی ہو تو خدا ہماری مدد کو آئے گا “…خدام نے کہا ۔
”خدام!“…زہرہ نے مایوسی کے لہجے میں کہا …”میں مذہب کی تو پکی ہوں لیکن خدا پر میرا عقیدہ متزلزل ہوتا جارہا ہے ۔ “
####