ان بزرگوں کے سینے میں بھی وہی راز تھا جو خدام نے زہرہ بنت سعود سے چھپالیا تھا ۔
ایرانی کماندار شمر کی چوکی پر جو اتنا زبردست شب خون مارا گیا تھا وہ پہلا شب خون نہیں تھا ابلہ کے علاقے میں یہ پہلا تھا یہ چوکی چونکہ آبادی کے قریب تھی اس لیے ان مسلمانوں کو پتہ چل گیا تھا اگر ان کے گھروں کی تلاشی نہ لینی ہوتی تو شاید انہیں نہ پتہ چلتا۔
عراق کے سرحدی علاقے میں دوسری تیسری رات ایرانیوں کی کسی نہ کسی چوکی پر ایسا ہی شب خون پڑتا اور شب خون مارنے والے چوکی میں قتل و غارت کرکے وہاں سے جو مال اور سامان ہاتھ لگتا لے کر غائب ہوجاتے۔
دوبار ایرانی فوج نے یہ جوابی کارروائی کی کہ کثیر تعداد گھوڑ سوار دستہ شب خون مارنے والوں کی تلاش میں گیا۔ اس سرسبز اور شاداب علاقے سے نکلتے ہی صحرا شروع ہوجاتا تھا جو ہموار صحرا نہیں تھا۔
(جاری ہے)
وہاں ریت کی گول گول اور اونچی اونچی ٹیکڑیاں تھیں۔آگے وسیع نشیب تھے جن میں عجیب و غریب شکلوں کے ٹیلے کھڑے تھے ۔
دونوں بار ایرانی فوج کے گھوڑ سوار دستے کا یہ انجام ہوا کہ اسے گھوڑوں اور انسانوں کے نقوش پاملتے رہے جو صاف بتاتے تھے کہ یہ ایک گروہ ہے اور شب خون مارنے والا یہی گروہ ہوسکتا ہے مگر یہ نقوش انہیں سیدھے موت کے منہ میں لے گئے ۔
ایرانی جوں ہی پہلے نشیب میں داخل ہوئے اورر پورا دستہ نشیب میں اترگیا ان پر تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔ پہلی بوچھاڑ میں کئی سوار اور گھوڑے گھائل ہوگئے زخمی گھوڑے بے لگام ہوکر ادھر ادھر بھاگے۔ سارے دستے میں بھگدڑ مچ گئی ان پر تیر برستے رہے مگر بکھرجانے کی وجہ سے تیر خطا ہونے لگے ۔
بھول بھلیوں جیسے اس نشیب میں سے چند ایک گھوڑ سوار نکلے۔
ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔ ان کے کرتے بڑے لمبے اور سروں پر سیاہ کپڑے اس طرح لپٹے ہوئے تھے کہ ان کے چہرے اور گردنیں بھی ڈھکی ہوئی تھیں۔ ان کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ ان گھوڑوں کے قدموں میں اور ان کے سواروں کے بازوؤں میں ایسی پھرتی تھی کہ ایرانی سوار جو پہلے ہی ہراساں تھے برچھیوں سے زخمی ہوکر گرنے لگے ۔ ان میں سے کئی بھاگ نکلے۔
وہ ٹیلوں اور گھاٹیوں والے نشیب سے تو نکل گئے لیکن ریت کی گول گول ٹیکروں میں داخل ہوئے تو وہ گھومنے لگے ۔ ان سینکڑوں ٹیکریوں میں جو ایک دوسری کے ساتھ ساتھ کھڑی تین چار میل کی وسعت میں پھیلی ہوئی تھیں یہی خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی اجنبی ان کے اندر چلا جائے تو وہ اندر ہی اندر چلتا رہتا ہے نکل نہیں سکتا۔ آخر تھک کر بیٹھ جاتا ہے ۔ پیاس سے حلق میں کانٹے چبھنے لگتے ہیں اور ریگستان کے یہ گول گول بھوت اسے بڑی اذیت ناک موت مارتے ہیں۔
دوسری بار ایرانیوں کے سوار دستے پر کسی اور جگہ ایسا ہی حملہ ہوا تھا اور سوار بکھر کر بھاگ رہے تھے تو انہیں ایک للکار سنائی دینے لگی …”زرتشت کے پجاریو!میں مثنیٰ بن حارثہ ہوں…زرتشت کو ساتھ لاؤ…مثنہٰ بن حارثہ…ہرمز کو یہ نام بتادینا…مثنیٰ بن حارثہ“…اس ایرانی دستے کے جو سوار زندہ واپس آگئے وہ نیم مردہ تھے ۔ انہوں نے اپنے کمانڈروں کو بتایا کہ انہیں صحرا میں یہ للکار سنائی دی تھی ۔
اس کے بعد ایرانیوں کی سرحدی چوکیوں پر چھاپے پڑتے رہے لیکن انہوں نے چھاپہ ماروں کے تعاقب کی اور ان کو تلاش کرنے کی جرأت نہ کی ۔ بعض چھاپوں کے بعد بھی یہ للکار سنائی دیتی …”مثنیٰ بن حارثہ …آتش پرستو!میں مثنیٰ بن حارثہ ہوں “
پھر مثنیٰ بن حارثہ دہشت کا ، کسی جن کا، بھوت کا ، کسی بدروح کا ایک نام بن گیا ۔ ایرانی فوجی اس نام سے ڈرنے لگے۔
انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ یا اس کے گروہ کے کسی ایک آدمی کو پکڑنے کے بہت اہتمام کیے لیکن جب کہیں شب خون پڑتا تھا تو ایرانی فوجی جن کی جرأت اور بے جگری مشہور تھی دہشت سے دبک جاتے تھے ۔
####
یہ تھا وہ مثنیٰ بن حارثہ جو فروری ۶۳۲ء کے ایک روز مدینہ میں خلیفہ ابوبکر کے سامنے ایک گمنام اجنبی کی حیثیت سے بیٹھا تھا ۔ وہ جنوبی عراق کا رہنے والا اور اپنے قبیلے بنوبکر کا سردار تھا ۔
تاریخ میں ایسا اشارہ کہیں نہیں ملتا کہ اس نے کب اور کس طرح اسلام قبول کیا تھا۔ یہ اسی کی کاوش کا نتیجہ تھا کہ نہ صرف اس کے اپنے قبیلے نے بلکہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی اور قبیلوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔
جب جنگ یمامہ ختم ہوئی اور ارتداد کے فتنے کا سر کچل دیا گیا تو مثنیٰ بن حارثہ نے عراق کے جنوبی علاقے میں ایرانیوں کے خلاف جہاد شروع کردیا ۔
انہوں نے ان مسلمانوں میں سے جو ایرانی بادشاہی کی رعایا تھے ۔ ایک گروہ بنالیا اور ایرانی فوج کی سرحدی چوکیوں پر شب خون مارنے شروع کردیے ۔ ان کے شب خون اس قدر اچانک اور تیز ہوتے تھے کہ چوکی والوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا اور مثنیٰ کا گروہ صفایا کرکے غائب ہوجاتا تھا ۔
انہوں نے بڑے ہی دشوار گزار صحرا میں اپنا اڈہ بنالیا تھا جسے انہوں نے مال غنیمت سے بھر دیا تھا۔
پھر انہوں نے ان بستیوں پر بھی شب خون مارنے شروع کردیے جہاں صرف ایرانی رہتے تھے مثنیٰ نے سرحد پر ایرانی فوج کو بے بس اور مجبور کردیا۔ ایرانی فوج کے کئی سینئر کمانڈر مثنیٰ کے ہاتھوں مارے گئے تھے ۔
مثنیٰ بن حارثہ نے دوسرا کام یہ کیا کہ عراق کے جنوبی علاقے میں جو مسلمان ظلم و ستم کی زندگی گزار رہے تھے انہیں اس نے اپنے زمیں دوز اثر میں لے کر متحد رکھا ہوا تھا۔
ان کا ایک گروہ تو شب خون مارنے کا کام کرتا تھا اور ایک گروہ بستیوں میں رہ کر مسلمانوں کو اتحاد کی لڑی میں پروئے رکھتا اور انہیں بتاتا رہتا تھا کہ باہر کیا ہورہا ہے ۔
مسلمان اپنے چھاپہ ماروں کی کامیابیاں دیکھ رہے تھے اور وہ مطمئن تھے …یہ تھی وہ خدائی مدد جس کے انتظار میں وہ ایرانیوں کا ظلم و ستم سہ رہے تھے اور اپنا مذہب نہیں چھوڑ رہے تھے ۔
ورنہ مظالم سے بچنے کا ان کے سامنے بڑا سہل طریقہ تھا کہ اسلام سے منحرف ہوکر آتش پرست بن جاتے ۔
خدام نے زہرہ سے کہا تھا کہ وہ تین چار دنوں کے لیے غائب ہوجائے گا ۔ وہ غائب ہوکر چھاپہ ماروں کے اڈے پر چلا گیا اور انہیں ایرانی کماندار شمر کے متعلق بتایا تھا۔ اس کی چوکی تک چھاپہ ماروں کی رہنمائی اسی نے کی تھی ۔ چوکی پر حملہ پوری طرح کامیاب رہا ۔ اس کے فوراً بعد خدام اپنے گھر آگیا تھا ۔
###