Episode 103 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 103 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

مثنیٰ بن حارثہ نے امیر المومنین ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ ساتھ اور عراق کے جنوبی علاقے میں کس طرح عربی مسلمانوں کے قبیلے کو اپنے اثر میں لیا اور انہیں اسلام پر قائم رکھ کر انہیں زمیں دوز محاذ پر جمع کیا ہے ۔ 
”تجھ پر اللہ کی رحمت ہو ابن حارثہ“…خلیفہ نے کہا …”تو اگر یہ مشورہ دینے آیا ہے کہ میں ایرانیوں پر فوج کشی کروں تو مجھے سوچنا پڑے گا ۔
کیا تو نے دیکھا نہیں کہ ایرانیوں کی فوج کی تعداد کتنی زیادہ ہے اور ان کے وسائل اور ذرائع کتنے وسیع اور لامحدود ہیں؟ہم اپنے مستقرع سے اتنی دور قلیل تعداد اور بغیر وسائل کثیر تعداد اور طاقتور فوج کے مقابلے کے قابل نہیں ہوتے لیکن میں نے سلطنت فارس کو نظر انداز بھی نہیں کیا “
”امیر المومنین!“مثنیٰ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا …”اگر ایک آدمی اتنے بڑے ملک کی فوج کے ساتھ ٹکر لے سکتا ہے اور ان پر مسلمانوں کے عسکری جذبے کی دھاک بٹھاسکتا ہے تو میں اپنے اللہ کے بھروسے پر کہتا ہوں کہ ایک منظم فوج بہت کچھ کرسکتی ہے …میں اس آتش پر ست سلطنت کی اندرونی کیفیت دیکھ آیا ہوں ۔

(جاری ہے)

شاہی خاندان تخت و تاج کی خاطر آپس میں دست و گریباں ہورہا ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ شہنشاہ ہرقل فارسیوں کو نینو اور دستجرد میں بہت بڑی شکست دے چکا ہے ۔ اس کی فوجیں آتش پرست فارسیوں کے دارالحکومت مدائن کے دروازوں تک پہنچ گئی تھیں۔ اس کے بعد فارسی(ایرانی) سنبھل نہیں سکے ۔ اگر ان کی عیش پرستی کو دیکھا جائے تو وہ سنبھلتے ہوئے لگتے ہیں لیکن ان میں اب بادشاہی کے تاج پر رسہ کشی ہورہی ہے ۔
یمن ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور وہاں کے حاکم بازان نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔ ان کی رعایا ان کی زنجیریں توڑنا چاہتی ہے ۔ ان کی محکومی میں ان کے جنوبی علاقے کے مسلمان میرے اشارے کے اور مدینہ کی فوج کے منتظر ہیں “
”تجھ پر رحمت ہی رحمت ہو مثنیٰ“…امیر المومنین نے کہا…”لاریب تیری باتیں میرے دل میں اتر رہی ہیں۔ میرا اگلا قدم وہیں پڑے گا جہاں تو کہتا ہے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ میں سالاروں کی مجلس سے بات کرلوں؟“
”یا امیر المومنین!“…مثنیٰ نے کہا…”فیصلہ وہی بہتر ہوتا ہے جو صلاح مشورے کے بعد کیا جاتا ہے لیکن میں امیر المومنین سے اجازت چاہوں گا کہ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہہ لوں اور آپ میری باتیں سالاروں کے سامنے ضرور رکھیں…دجلہ اور فرات جہاں ملتے ہیں وہاں کے بڑے وسیع علاقے میں عربی آباد ہیں جو سب کے سب مسلمان ہیں۔
چونکہ وہ مسلمان ہیں اس لیے وہ آگ کے پجاری بادشاہوں کے جوروستم کا نشانہ بناتے ہوتے ہیں۔ مسجدوں پر بھی ان کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا۔ فارسیوں کے ہاتھوں ان کی جان محفوظ نہیں، ان کی عزت محفوظ نہیں …“
”وہ مسلمان فصل اگاتے ہیں جو پک جاتی ہے تو آتش پرست زمیندار اور فوجی اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ وہاں مسلمان مزارعے ہیں اور انہیں دھتکاری ہوئی مخلوق سمجھا جاتا ہے ۔
وہ مسلسل خوف و ہراس میں رہتے ہیں۔ ان کے خلاف الزام صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور کفر کے طوفانوں میں بھی وہ اسلام کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مدینہ کو روشنی کا مینار سمجھتے ہیں …“
”امیر المومنین!اگر آپ بیٹھے یہ سوچتے رہیں کہ دشمن بہت طاقتور ہے ۔ تو وہ روز بروز طاقتوور ہوتا جائے گا اور مسلمان مایوس ہوکر اپنی بھلائی کا کوئی ایسا طریقہ سوچ لیں گے جو اسلام کے منافی ہوگا ۔
میرے چھاپہ ماروں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اور آپ کی فوج کے لئے جو زمین ہموار کی ہے وہ دشمن کے حق میں چلی جائے گی …کیا رسول اللہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کو نہیں پہنچا کرتے تھے ؟“
”خدا کی قسم، میں ان کی مدد کو پہنچوں گا “…خلیفہ ابوبکر نے کہااور اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک سالار سے پوچھا …”ولید کا بیٹا خالد رضی اللہ عنہ کہاں ہے ؟“
”یمامہ میں آپ کے اگلے حکم کا انتظار کر رہا ہے امیر المومنین!“…انہیں جواب ملا ۔
 
”کوئی تیز رفتار قاصد بھیجو اور اسے پیغام بھیجو کہ جلدی مدینہ پہنچے “…خلیفہ ابوبکر نے کہا …”فارس کی بادشاہی سے ہم اللہ کی تلوار کے بغیر ٹکر نہیں لے سکتے “…خلیفہ مثنیٰ سے مخاطب ہوئے …”اور تم مثنیٰ واپس جاؤ اور عرب قبیلوں کے جس قدر لڑنے والے آدمی اکٹھے کرسکتے ہو کرلو۔ اب تمہیں کھلی جنگ لڑنی پڑے گی جو تم شب خون اور چھاپوں کے انداز سے بھی لڑ سکتے ہو لیکن اپنے فیصلوں میں تم آزاد نہیں ہوگے خالد سالار اعلیٰ ہوگا تم اس کے فیصلوں کے پابند ہوگے “
”تسلیم امیر المومنین!“…مثنیٰ بن حارثہ نے کہ…”ایک عرض اور ہے …اس علاقے میں جو عرب قبیلے ہیں وہ سب کے سب مسلمان نہیں۔
ان میں عیسائی بھی ہیں اور دوسرے عقیدے کے لوگ بھی ۔ وہ سب آتش پرستوں کے خلاف ہیں۔ فارس کے آتش پرست ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی تو غیر مسلم عربوں کیساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے جیسا وہاں کے عرب مسلمانوں کے ساتھ ہوگا۔“
”ایسے ہی ہوگا “…امیر المومنین نے کہا …”جنہوں نے اسلام کے خلاف کچھ نہیں کیا ، اسلام ان کی پریشانی کا باعث نہیں بنے گا …تم آج ہی روانہ ہوجاؤ“
####
خالد اس وقت یمامہ میں تھے ان کی دونوں نئی بیویاں لیلیٰ ام تمیم اور بنت مجاعہ ان کے ساتھ تھیں۔
امیر المومنین کا پیغام ملتے ہی خالد یمامہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ گئے ۔ 
”کیا مثنیٰ بن حارثہ کا نام تم نے کبھی سنا ہے ؟“…خلیفہ ابوبکر نے پوچھا ۔ 
”سنا ہے “…خالد نے جوا بدیا …”اور یہ بھی سنا ہے کہ فارسیوں کے خلاف اس نے ذاتی قسم کی جنگ شروع کر رکھی ہے لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس کی ذاتی جنگ ذاتی مفاد کے لیے ہے یا وہ اسلام کی خاطر لڑ رہا ہے “
”وہ یہاں آیا تھا “…امیر المومنین نے کہا …”جہاد جو اس نے شروع کر رکھا ہے اس میں اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں میں نے اس لیے تمہیں بلایا ہے کہ تم سے مشورہ کروں کہ مثنیٰ ہم سے جو مدد مانگتا ہے وہ اسے دی جائے یا اس وقت کا انتظار کیا جائے جب ہم فارسیوں کی اتنی بڑی قوت کے خلاف لڑنے کے قابل ہوجائیں گے “
”وہ کس قسم کی جنگ لڑ رہا ہے َ؟“…خالد  نے پوچھا ۔
 
امیر المومنین ابوبکر نے خالد رضی اللہ عنہ کو پوری تفصیل سے بتایا کہ مثنیٰ شب خون کی نوعیت کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس وقت تک وہ کتنی کامیابی حاصل کرچکا ہے ۔ 
”اس کی سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے خالد رضی اللہ عنہ“…خلیفہ نے کہا …”کہ اس نے رزتشتوں کے محکوم مسلمانوں کو متحد رکھا ہوا ہے اور ان میں ایسا جذبہ پیدا کیا ہے کہ انہوں نے زرتشتوں کے ظلم و ستم میں اپنے سینوں میں اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔
ابلہ اور عراق کے دوسرے علاقوں میں جہاں مسلمان آباد ہیں وہ فارسیوں کے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں اپنے عقیدوں کو سینے سے لگائے رکھنا بے معنی سا بن جاتا ہے ۔ وہ مسلمان صرف اتنا کہہ دیں کہ اسلام اور مدینہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تو ان کے سارے مصائب ختم ہوجائیں گے ۔ یہ مثنیٰ اور اس کے چند ایک ساتھیوں کا کمال ہے کہ انہوں نے ان حالات میں بھی وہاں کے مسلمانوں کو اسلام سے منحرف نہیں ہونے دیا۔
اس کے علاوہ انہیں اپنے عقیدے کا اتنا پکا بنارکھا ہے کہ وہ زرتشتوں کے خلاف زمین دو ز کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں “
”امیر المومنین!“…خالد نے کہا…”مثنیٰ نے جو کچھ کیا ہے یا نہیں کیا مسلمان کی حیثیت سے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جو مسلمان غیر مسلموں کے جورو ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ان کی مدد کو پہنچیں “
”کیا تم یہ مشورہ دیتے ہو کہ ہمیں ایرانیوں سے ٹکر لینی چاہیے ؟“…خلیفہ نے پوچھا ۔
 
”ہاں امیر المومنین!“…خالد نے کہا …”ٹکر کیوں نہ لی جائے …یہاں تو صورت حال کچھ اور ہے جیسا کہ آپ نے بتایا ہے کہ مثنیٰ نے وہاں کچھ کامیابیا ں حاصل کرلی ہیں اور اس نے ہمارے حملے کے لیے راہ ہموار کردی ہے ۔ شب خون اور چھاپے مارنے والے اتنا ہی کرسکتے ہیں جتنا مثنیٰ نے کیا ہے وہ کسی علاقے پر قبضہ نہیں کرسکتے قبضہ کرنا منظم لشکر کا کام ہے ۔
یہ کام ہمیں ہرقیمت پر کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے مثنی کی کامیابیوں کو آگے نہ بڑھایا تو اس کے دو نقصان ہوں گے ۔ ایک یہ کہ یہ کامیابیاں ضائع ہوجائیں گی اور دوسرا یہ کہ زرتشت مثنیٰ اور تمام مسلمانوں سے بہت برا انتقام لیں گے ۔ اس کے علاوہ فارسی دلیر ہوجائیں گے …“
”جیسا کہ مثنیٰ نے آپ کو بتایا ہے کہ اس نے ایرانیوں کو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ ان کے حوصلے مجروح ہوگئے ہیں۔
اگر انہیں دم لینے کا موقع دے دیا گیا تو وہ اپنے محکوم مسلمانوں کو قتل کریں گے اور اس خطرے کو ختم کرکے وہ اس سرحدی علاقے کو پہلے سے زیادہ مضبوط کرلیں گے ۔ اپنے علاقوں کو محفوظ کرنے کے لیے وہ اپنی سرحد کے باہر کے علاقوں پر بھی قابض ہوسکتے ہیں۔ اس خطرے سے محفوظ رہنے کی یہی ایک صورت ہے کہ ہم مثنیٰ کی مدد کو پہنچیں اور پیشتر اس کے زرتشت ہماری طرف بڑھیں ہم انہیں ان کے اپنے علاقے سے بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیں “
خلیفہ ابوبکر نے خالد کو یہ ہدایت دے کر رخصت کردیا کہ وہ اپنے لشکر کو ساتھ لے کر عراق کی طرف پیش قدمی کریں۔
 
”خالد!“…خلیفہ ابوبکر نے کہا …”تمہارے لشکر میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو بڑے لمبے عرصے سے گھروں سے دور لڑ رہے ہیں۔ انہیں فارسیوں جیسے طاقتور دشمن کے خلاف لڑانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ فارسوں کے خلاف وہی لوگ جم کر لڑسکیں گے جنہیں احساس ہوگا کہ وہ اللہ کی راہ میں لڑ رہے ہیں۔ میں کسی کو مجبور نہیں کروں گا ۔ بہتر صور ت یہ ہوگی کہ تم رضا کاروں کی ایک فوج بناؤ ۔
اس میں ایسے آدمیوں کو رکھو جو مرتدین کے خلاف لڑچکے ہیں۔ تمہارے ساتھ کچھ ایسے آدمی بھی ہوں گے جو مرتدین کے ساتھ تھے۔ شکست کھاکر انہوں نے اپنی خیریت اس میں سمجھی کہ وہ اسلامی لشکر میں شامل ہوجائیں ایسے کسی آدمی کو اپنے لشکر میں نہ رکھنا۔ ہم بڑے طاقتور دشمن کو للکارنے جارہے ہیں اس لیے میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا“
”امیر المومنین!“…خالد نے پوچھا …”کیا آپ مجھے یہ اجازت دے رہے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنے لشکر سے نکال دوں ؟“
”نکال دینا اور بات ہے ولید کے بیٹے!“…خالد نے پوچھا …”خلیفہ ابوبکر نے کہا …تم اپنے لشکر سے یہ کہنا کہ جو آدمی اپنے گھر کو جانا چاہتا ہے اسے جانے کی اجازت ہے ۔
پھر دیکھنا تمہارے ساتھ کون رہتا ہے ۔ اگر تمہارا لشکر بہت کم رہ گیا تو خلافت اس کمی کو کسی نہ کسی طرح پورا کرے گی…جاؤ ولید کے بیٹے، اللہ تمہارے ساتھ ہے “
خلیفہ ابوبکر عزم اور ایمان کے پکے تھے ۔ انہوں نے عراق پر حملے کا جو فیصلہ کرلیا تھا اس پر وہ ہر حال میں اور ہر قیمت میں پورا عمل کرنا چاہتے تھے ۔ خالد تو چاہتے ہی یہی تھے کہ انہیں لڑنے کا موقع ملتا رہے۔ انہوں نے خلیفہ کے ارادے کو اور زیادہ پختہ کردیا۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط