Episode 107 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 107 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

اس علاقے میں مسلمانوں کی ایک بستی تھی جو سرحد کے بالکل قریب تھی ۔ ایرانی فوج کی تھوڑی سی نفری نے اس بستی میں جاکر اعلان کیا کہ بچے سے بوڑھے تک باہر نکل آئیں۔ سپاہیوں نے گھروں میں گھس گھس کر لوگوں کو باہر نکالنا شروع کردیا۔ عورتوں کو الگ اور مردوں کو الگ کھڑا کرلیا گیا ۔ سپاہیوں کا انداز بڑا ہی ظالمانہ تھا ۔ وہ گالیوں کی زبان میں بات کرتے اور ہر کسی کو دھکے دے دے کر ادھر سے ادھر کرتے تھے ۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ان آدمیوں کے نام بتائے جائیں اور ان کے گھر دکھائے جائیں جو بستی میں نہیں ہیں۔ 
تمام آبادی خاموش رہی ۔ 
”جواب دو “…ایرانی کمانڈر نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا ۔ 
اسے کوئی جواب نہ ملا۔ کمانڈر نے آگے بڑھ کر ایک بوڑھے آدمی کو گریبان سے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا اور اس سے پوچھا کہ اس ہجوم میں کون کون نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

 
”مجھے معلوم نہیں “…بوڑھے نے جواب دیا۔ 
کمانڈر نے نیام سے تلوار نکال کر بوڑھے کے پیٹ میں گھونپ دی اور تلواز زور سے باہر کو کھینچی ۔ بوڑھا دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ کر گِر پڑا۔ کمانڈر ایک بار پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوا۔ اچانک ایک طرف سے آٹھ دس گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے۔ ان کے سواروں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔ ایرانی فوجی دیکھنے بھی نہ پائے کہ یہ کون ہیں۔
ان میں سے کئی ایک کے جسموں میں برچھیاں اترچکی تھیں اور گھوڑے جس طرح آئے تھے اسی طرح سرپٹ دوڑتے بستی سے نکل گئے ۔ ایرانی فوجیوں کی تعداد چالیس پچاس تھی ۔ ان میں بھگدڑ مچ گئی ۔ان میں سے آٹھ دس زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے ۔ 
گھوڑوں کے قدموں کی دھمک سنائی دے رہی تھی جو دور ہٹتی گئی اور اب پھر قریب آنے لگی تھی اب فوجیوں نے بھی برچھیاں اور تلواریں تان لیں اور اس طرف دیکھنے لگے جدھر سے گھوڑوں کی آوازیں آرہی تھین ۔
پیچھے سے بستی کی آبادی ان پر ٹوٹ پڑی ۔ ان سپاہیوں میں سے وہی زندہ رہے جو کسی طرف بھاگ نکلے تھے ۔ جب سوار بستی میں پہنچے تو انہیں گھوڑے روکنے پڑے کیونکہ ان کے راستے میں بستی کے لوگ حائل تھے جو ایرانی فوجیوں کا کشت و خون کر رہے تھے ۔ 
اس سے پہلے مسلمانوں نے یوں کھلے بندوں ایرانی فوج پر حملے کرنے کی جرأت کبھی نہیں کی تھی ۔ ایک ایرانی سپاہی پر ہاتھ اٹھانے کی سزا یہ تھی کہ ہاتھ اٹھانے والے کے پورے خاندان کو ختم کردیا جاتا تھا۔
اب یہاں کے مسلمان اس لیے دلیر ہوگئے تھے کہ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ مدینہ کی فوج آگئی ہے ۔ جن سواروں نے ایرانی فوجیوں پر حملہ کیا تھا وہ کچھ اس بستی کے رہنے والے جوان تھے کچھ دوسری بستیوں کے تھے ۔ یہ محض اتفاق تھا کہ وہ مثنیٰ بن حارثہ کی طرف جاتے ہوئے اس بستی کے قریب سے گزر رہے تھے ۔ انہوں نے اس بستی کی آبادی کو باہر کھڑے دیکھا اور ایرانی فوجیوں کو بھی دیکھا۔
وہ چھپ کر آگے نکل سکتے تھے لیکن ایرانی کمانڈر نے بوڑھے کے پیٹ میں تلوار گھونپی تو سب نے آپس میں صلاح مشورہ کیے بغیر گھوڑوں کے رخ اس طرف کرلیے ۔ ایرانی فوجیوں نے تو انہیں جاتے ہوئے دیکھا ہی نہیں تھا ۔ یہ اللہ کی مدد تھی جو اس مظلوم بستی کو بروقت مل گئی ۔ 
یہ بستی تو خوش قسمت تھی کہ اسے مدد مل گئی اور ایرانیوں کی بھیانک سزا سے بچ گئی ۔
مسلمانوں کی دوسری بستیوں پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔ ہر بستی کے ہر گھر کی تلاشی ہورہی تھی ۔ یہ دیکھا جارہا تھا کہ کتنے آدمی غائب ہوچکے تھے ۔ ہربستی میں ایرانی کئی آدمیوں کو قتل کر رہے تھے ۔ بعض مکانوں کو انہوں نے نذر آتش بھی کردیا۔ 
####
تین چار روز یہ سلسلہ چلا۔ اس کے بعد ایرانی فوج کو بستیوں کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہ ملی۔
ہرمز اپنی فوج لے کر آگیا۔ سرحدی فوج کو بھی اس نے اپنے ساتھ لے لیا اور سرحد سے نکل گیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ خالد رضی اللہ عنہ کو وہ سرحد سے دور روک لے گا ۔ ہرمز کی پیش قدمی بہت تیز تھی ۔ 
مارچ ۶۳۳ء کا تیسرا ہفتہ تھا جب خالد نے یمامہ سے دس ہزار فوج لے کر کوچ کیا تھا ۔ یہ محرم۱۲ھ کا مہینہ تھا ۔ ان کی پیش قدمی بھی بہت تیز تھی ۔ 
ہرمز اپنی فوج کے ساتھ اپنی سرحد سے بہت دور کاظمہ کے مقام پر پہنچ گیا اور فوج کو وہیں خیمہ زن کردیا۔
یہ مقام یمامہ اور ابلہ کے راستے میں پڑتا تھا ۔ ہرمز کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی پیش قدمی کو دیکھنے والے موجود ہیں۔ خالد ابھی کاظمہ سے دور تھے کہ انہیں عراق کی سمت سے آتے ہوئے دو شتر سوار ملے ۔ انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ زرتشتوں کی فوج کاظمہ میں خیمہ زن ہے۔ خالد نے وہیں سے راستہ بدل دیا۔ یہ شتر سوار مثنیٰ کے بھیجے ہوئے تھے ۔
انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو یہ بھی بتایا کہ وہ حفیر کے مقام تک اس طرح پہنچ جائے کہ زرتشتوں کی فوج کے ساتھ اس کی ٹکر نہ ہو۔ شتر سواروں نے خالد رضی اللہ عنہ کو ایک خوشخبری یہ سنائی کہ ان کے لیے آٹھ ہزار نفری کی فوج تیا رہے ۔ یہ فوج اس طرح تیار ہوئی تھی کہ مثنیٰ بن حارثہ، مذعور بن عدی، ہرملہ اور سلمہ نے دو دو ہزار لڑنے والے جوان اکٹھے کرلیے تھے ۔
اس طرح خالد کی فوج کی تعداد اٹھارہ ہزار ہوگئی ۔ 
خالد نے اپنی پیش قدمی کا راستہ اس طرح بدل دیا کہ کاظمہ کے دور سے گزر کر حفیر تک پہنچ سکیں لیکن ہرمز کے جاسوس بھی صحرا میں موجود تھے ۔ انہوں نے خالد کے لشکر کو دور کے راستے سے جاتے دیکھ لیا۔ آگے وہ راستہ تھا جو حفیر سے نباج کی طرف جاتا تھا۔ ہرمز نے اپنی فوج کو خیمے اکھاڑنے اور بہت تھوڑے وقت میں حفیر کی جانب کوچ کرنے کا حکم دیا۔
حفیر کے ارد گرد پانی کے کنوئیں تھے۔ ہرمز نے وہاں خالد سے پہلے پہنچ کر خیمے گاڑ دیے۔ اس طرح پانی ایرانیوں کے قبضے میں چلا گیا ۔ 
خالد ابھی حفیر سے کچھ دور تھے کہ ایک بار پھر دونوں شتر سوار ان کے راستے میں آگئے اور خالد رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ دشمن حفیر کے مقام پر پانی کے کنوئیں پر قابض ہوچکا ہے ۔ خالد نے کچھ اور آگے جاکر ایسی جگہ پڑاؤ کا حکم دیا کہ جہاں دور دور تک پانی کی ایک بوند نہیں مل سکتی تھی ۔
فوج نے وہاں پڑاؤ تو ڈال دیا لیکن خالد رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ فوج میں بے اطمینانی پائی جاتی ہے کہ پڑاؤ ایسی جگہ کیا گیا ہے جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں ۔ 
”میں نے کچھ سوچ کر یہاں پڑاؤ کیا ہے “…خالد  نے کہا …”تمام لشکر سے کہو کہ دشمن اگر پانی پر قابض ہے تو پریشان نہ ہو ۔ ہماری پہلی لڑائی پانی کے لیے ہوگئی ۔ پانی اسی کو ملے گا جو جان کی بازی لگا کر لڑے گا۔
تم نے دشمن کو پانی سے محروم کردیا تو سمجھو کہ تم نے جنگ جیت لی “
سالار اعلیٰ کا یہ پیغام سارے لشکر کو سنادیا گیا اور سب ایک خونریز جنگ لڑنے کے لیے تیار ہوگئے ۔ 
اب لشکر کی نفری اٹھارہ ہزار ہوگئی تھی ۔ مثنیٰ بن حارثہ ، مذعور بن عدی، ہرملہ اور سلمہ دو دو ہزار آدمی ساتھ لیے خالد سے آملے تھے ۔ خالد نے جو ایلچی ہرمز کے پاس بھیجا تھا وہ بھی اسی پڑاؤ میں خالد کے پاس آیا اور بتایا کہ ہرمز نے اس کے ساتھ کیسا توہین آمیز سلوک کیا ہے ۔
 
”اس کی ایک لاکھ دہم کی ٹوپی نے اس کا دماغ خراب کر رکھا ہے “…مثنیٰ بن حارثہ نے جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا کہا …”خدا یہ نہیں دیکھتا کہ کسی انسان کے سر پر کیا رکھا ہے خدا تو دیکھتا ہے کہ اس کے سر کے اندر کیا ہے ۔ اس کے عزائم کیا اور اس کی نیت کیا ہے اور وہ سوچتا کیا ہے “
”ایک لاکھ درہم کی ٹوپی؟“…خالد نے حیران ہوکر پوچھا…”کیا ہرمز اتنی قیمتی ٹوپی پہنتا ہے ؟“
”فارس کی شہنشاہی کا ایک دستور ہے “…مثنیٰ بن حارثہ نے جواب دیا …”ان کے ہاں جسب و نسب اور حیثیت کو دیکھ کر اس کے مطابق ٹوپی پہنائی جاتی ہے جو ان کے شہنشاہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے زیادہ قیمتی ٹوپی صرف وہ افراد پہنتے ہیں جو اعلیٰ حسب و نسب کے ہوں اور جنہوں نے رعایا میں بھی اور شاہی دربار میں بھی توقیر اور وجاہت حاصل کر رکھی ہو ۔
اس وقت ہرمز سب سے زیادہ قیمتی ٹوپی پہنتا ہے ۔ کوئی اور ایک لاکھ درہم کی ٹوپی نہیں پہن سکتا۔ اس ٹوپی میں بیش قیمت ہیرے لگے ہوئے ہیں اور اس کی کلغی بھی بہت قیمتی ہے “
”فرعونوں نے اپنے سروں پر خدائی ٹوپیاں سجالی تھیں“…خالد نے کہا …”کہاں ہیں وہ؟ کہاں ہیں ان کی ٹوپیاں!…مجھے کسی کی بیش قیمت ٹوپی مرعوب نہیں کرسکتی نہ کسی کی ٹوپی تلوار کے وار کو روک سکتی ہے مجھے یہ بتاؤ کہ آتش پرستوں کی فوج لڑنے میں کیسی ہے اور میدان جنگ میں کتنی تیزی سے نقل و حرکت کرتی ہے “
”فارس کے سپاہی کی زرہ اور ہتھیار دیکھ کر خوف سا آتا ہے “…مثنیٰ بن حارثہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو بتایا …”سر پر لوہے کی زنجیروں کی خود، بازؤں پر کسی اور دھات کے خول اور ٹانگیں آگے کی طرف سے موٹے چمڑے یا دھات سے محفوظ کی ہوئیں ، ہتھیار اتنے کہ ہر سپاہی کے پاس ایک برچھی ، ایک تلوار ، ایک وزنی گرز ، ایک کمان اور ایک ترکش ہوتی ہے جس میں ہر سپاہی تیس تیر رکھتا ہے ۔
”اور لڑنے میں کیسے ہیں ؟“
”جرات اور عقل سے لڑتے ہیں “…مثنیٰ بن حارثہ نے جواب دیا …”ان کی دلیری مشہور ہے “
”مثنیٰ!“…خالد نے کہا …”کیا تم نے محسو س نہیں کیا کہ آتش پرستوں کے سپاہی کتنے کمزور ہیں اور ان کی جرأت کی حد کیا ہے …ان کی جرات کی حد آہنی خود اور بازوؤں اور ٹانگوں پر چڑھائے ہوئے خولوں تک ہے ۔ وہ نہیں جانتے کہ جذبہ لوہے کو کاٹ دیا کرتا ہے ۔
لوہے کی تلوار اور برچھی کی انی جذبے کو نہیں کاٹ سکتی۔ زرہ اور دھات یا چمڑے کے خول حفاظت کے جھوٹے ذریعے ہیں۔ ایک خول کٹ گیا تو سپاہی اپنے آپ کوغیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے ۔ پھر اس میں اتنی سی جرأت رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کی اور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اللہ کے سپاہی کی زرہ اس کا عقیدہ اور ایمان ہے …میں تمہیں فارسیوں کی ایک اور کمزوری دکھاؤں؟“…خالد نے قاصد سے کہا …”سالاروں اور کمانداروں کو فوراً بلاؤ “
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط