”کہاں ہے خالد“…ہرمز نے للکار کر کہا …”آ، پہلے میرا اور تیرا مقابلہ ہوجائے “
یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے دونوں فوجوں کے سالار ذاتی مقابلوں کے لیے ایک دوسرے کو للکارتے تھے ۔ دونوں فوجوں کے آدمی انفرادی طور پر آگے جاکر تلواروں سے بھی لڑتے تھے اور کشتی بھی کرتے تھے نتیجہ دونوں میں سے ایک کی موت ہوتا تھا ۔
خالد کی عمر اڑتالیس سال ہوچکی تھی ۔ وہ جنگی چالوں کے ماہر تھے ۔ ان کے جسم میں اچھی خاصی طاقت تھی لیکن ہرمز زیادہ طاقتور تھا ۔ اس کی للکار پر خالد نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ہرمز کے سامنے جارکے۔ ہرمز گھوڑے سے اتر ا اور خالد رضی اللہ عنہ کو گھوڑے سے اترنے کا اشارہ کیا۔ دونوں نے تلواریں نکال لیں۔
دونوں نے ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر وار کیے ۔
(جاری ہے)
پینترے بدلے، گھوم گھوم کر ایک دوسرے پر آئے مگر تلواریں آپس میں ہی ٹکراتی رہیں۔ پھر خالد کے ہاتھوں اور پینتروں میں پھرتی آگئی ۔ دونوں فوجیں شور و غل بپا کر رہی تھی۔ ہرمز محسوس کرنے لگا کہ وہ خالد کی تلوار سے بچ نہیں سکے گا ۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹ گیا اور اس نے تلوار پھینک دی ۔
”تلواریں فیصلہ نہیں کرسکیں گی“…ہرمز نے کہا …’آ خالد رضی اللہ عنہ ہتھیار کے بغیر آ اور کشتی لڑ’“
خالد تلوار پھینک کر کشتی کے لیے آگے بڑھے اور دونوں گتھم گتھا ہوگئے ۔
کشتی میں ہرمز کا پلہ بھاری نظر آتا تھا مورخ لکھتے ہیں کہ ہرمز کی چال کچھ اور تھی اس نے اپنے محافظوں کو پہلے سے بتارکھا تھا کہ وہ جب خالد رضی اللہ عنہ کو اتنی مضبوطی سے پکڑ ے کہ خالد ہلنے کے قابل نہ رہیں تو محافظ دونوں کو اس طرح گھیرے میں لے لیں کہ ان کی نیت اور ارادے پر شک نہ ہو یعنی وہ تماشائی بنے رہیں اور ان میں ایک محافظ خنجر نکال کر خالد رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کردے۔
جنگجو اس طرح دھوکہ نہیں دیا کرتے تھے لیکن ہرمز کمینگی کی وجہ سے مشہور تھا ۔
ہرمز کے محافظ آگے بڑھ آئے اور اپنی فوج کی طرح نعرے لگا تے نرغے کی ترتیب میں ہوتے گئے۔ وہ گھوڑوں پر سوار نہیں تھے ۔ وہ گھیرا تنک کرتے گئے حتیٰ کہ دونوں کے قریب چلے گئے ۔ خالد کی توجہ بٹ گئی ۔ ہرمز نے پھرتی سے خالد کے دونوں بازو اس طرح جکڑ لیے کہ اس کے بازو خالد کی بغلوں میں تھے۔
محافظ اور قریب آگئے ۔
ہرمز نے اپنی زبان میں محافظوں سے کچھ کہا ۔ خالد اس کی زبان تو نہ سمجھ سکے اشارہ سمجھ گئے ۔ انہوں نے خطرے کو بھانپ لیا اور جسم کی تمام تر طاقت صرف کرکے اتنی زور سے گھومے کہ ہرمز کو بھی اپنے ساتھ گھمالیا پھر خالد ایک جگہ کھڑے گھومتے رہے ۔ ہرمز کے پاؤں زمین سے اٹھ گئے ۔ خالد نے ہرمز کے بازو اپنی بغلوں میں جکڑ لیے تھے اور اپنے ہاتھ ہرمز کی بغلوں میں لیجاکر اسے گھماتے رہے ۔
اس طرح محافظوں کا دائرہ کھلتا گیا اور ان میں سے کسی کو آگے بڑھ کر خالد پر وار کرنے کا موقع نہ ملا۔ لیکن خالد کا یہ داؤ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا۔ وہ تھک چکے تھے ۔
اچانک ایک طرف سے ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا آیا جسے ہرمز کے محافظ دیکھ نہ سکے ۔ گھوڑا محافظوں کے دائرے کو کاٹتا گزر گیا اور تین محافظ زمین پر تڑپنے لگے ۔ ان میں سے ایک کو گھوڑے نے کچلا تھا اور دو کو گھوڑ سوار کی تلوار نے کاٹ دیا تھا۔
گھوڑا آگے جاکر مڑا اور پھر ہرمز کے محافظوں کی طرف آیا۔ محافظوں نے اب اس سے بچنے کی کوشش کی پھر بھی تین محافظ گرے اور تڑپنے لگے ۔ باقی بھاگ گئے اور سوار اپنی فوج سے جاملا۔
یہ سوار نوجوان ققعاع بن عمرو تھا جسے خلیفہ ابوبکر نے کمک کے طور پر خالد کی طرف بھیجا اور کہا تھا …”جس لشکر میں ققعاع جیسا جوان ہوگا وہ لشکر شکست نہیں کھائے گا “
اس سوار سے نظریں ہٹا کر سب نے ہرمز اور خالد رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔
ہرمز پیٹھ کے بل زمین پر پڑا تھا اور خالد اس کے پیٹ پر بیٹھے اس کے سینے سے اپنا خنجر نکال رہے تھے ۔ خنجر سے ہرمز کا خون ٹپک رہا تھا۔ ققعاع رضی اللہ عنہ نے ہرمز کے محافظوں کی نیت بھانپ لی تھی اور کسی کے حکم کے بغیر گھوڑے کو ایڑ لگاکر محافظوں پر جاہلہ بولا اور خالد رضی اللہ عنہ کو بچالیا تھا ۔
###
خالد ہرمز کی لاش سے اٹھے۔
ہرمز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی خالد کے ہاتھ میں تھی ۔ اور اس کے خون میں لتھڑا ہوا خنجر بلند کرکے خالد نے اپنی فوج کو کھلے حملے کا حکم دے دیا ۔ ان کے پہلے سے دیے ہوئے احکام کے مطابق مسلمان لشکر کے دونوں پہلو کھل گئے اور اس نے دائیں اور بائیں سے ایرانیوں پر حملہ کیا۔ ایرانی اپنے ہرمز جیسے سالار کی موت سے بدل ہوگئے تھے لیکن اپنی روایتی شجاعت سے وہ دستبردار نہ ہوئے ۔
ان کی تعداد مسلمانوں کی نسبت خاصی زیادہ تھی ۔ ہتھیاروں اور گھوڑوں کے لحاظ سے بھی انہیں برتری حاصل تھی ۔ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں جم گئے ۔ نظر یہی آرہا تھا کہ ایرانیوں کو شکست نہیں دی جاسکے گے یا یہ کہ انہیں شکست دینے کے لیے بے شمار جانیں قربانیں کرنی پڑیں گی ۔
ایرانی سپاہی پانچ پانچ ، سات سات ، دس دس ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے اور ہرطرف سے آنے والے حملے روک رہے تھے ۔
خالد نے انہیں تھکانے کیلئے گھوڑا سواروں کو استعمال کیا۔ گھوڑ سواروں نے پیادوں پر اس طرح حملہ شروع کردیے کہ پیادوں کو دائیں بائیں دوڑنا پڑتا اپنے پیادوں کو بھی خالد نے اسی طرح استعمال کیا۔ ایرانی پیادوں کو بھاگنا پڑا۔ ان کے مقابلے میں مسلمان تیزی سے حرکت کرسکتے تھے ۔
آخر ایرانیوں میں سستی اور تھکن کے آثار نظر آنے لگے ۔
انہوں نے اپنی روایت کے مطابق جو زنجیریں باندھ رکھی تھیں وہ ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں ۔ ہتھیاروں کی برتری وبال جان بن گی۔ ایرانیوں کی تنظیم اور ترتیب بکھرنے لگی۔ ان کے قلب کی کمان تو ہرمز کے مرتے ہی ختم ہوگئی تھی ان کے پہلوؤں کے سالاروں، قباذ اور انجوشجان ، نے شکست یقینی دیکھی تو پسپائی کا حکم دیدیا۔ وہی ہوسکے جو زنجیروں میں بندھے ہوئے نہیں تھے ۔
ان میں زیادہ گھوڑ سوار تھے ۔ قباذ اور انوشجان پہلوؤں سے اپنی فوج کی بہت سی نفری کو بچا کر لے گئے لیکن قلب کے ہزاروں سپاہی مسلمانوں کے ہاتھ کٹ گئے ۔ یہ تو آتش پرستوں کا قتل عام تھا جو سورج غروب ہونے کے بعد تک جاری رہا ۔ شام تاریک ہوگئی تو یہ خونی سلسلہ رکا ۔
مسلمانوں نے ایک بڑے ہی طاقتو ر دشمن کو بہت بری شکست دے کر ثابت کردیا کہ نفری کی افراط اور ہتھیاروں کی برتری سے فتح حاصل نہیں کی جاسکتی، جذبہ لڑا کرتا ہے ۔
اگلے روز مال غنیمت اکٹھا گیا ۔ خالد نے اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا۔ چار حصے اپنے لشکر میں تقسیم کردیے اور ایک حصہ مدینہ خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ ہرمز کی ایک لاکھ دہم کی ٹوپی بھی خالد نے خلیفہ کو بھیج دی۔ خلیفہ نے یہ ٹوبی خالد رضی اللہ عنہ کو واپس بھیج دی کیونکہ ذاتی مقابلوں میں مارے جانے والے کا مال غنیمت جیتنے والے کا ہی حق ہوتا ہے ۔ یہ ٹوپی خالد کی ملکیت تھی۔
###