Episode 109 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 109 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

”کہاں ہے خالد“…ہرمز نے للکار کر کہا …”آ، پہلے میرا اور تیرا مقابلہ ہوجائے “
یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے دونوں فوجوں کے سالار ذاتی مقابلوں کے لیے ایک دوسرے کو للکارتے تھے ۔ دونوں فوجوں کے آدمی انفرادی طور پر آگے جاکر تلواروں سے بھی لڑتے تھے اور کشتی بھی کرتے تھے نتیجہ دونوں میں سے ایک کی موت ہوتا تھا ۔
خالد کی عمر اڑتالیس سال ہوچکی تھی ۔ وہ جنگی چالوں کے ماہر تھے ۔ ان کے جسم میں اچھی خاصی طاقت تھی لیکن ہرمز زیادہ طاقتور تھا ۔ اس کی للکار پر خالد نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ہرمز کے سامنے جارکے۔ ہرمز گھوڑے سے اتر ا اور خالد رضی اللہ عنہ کو گھوڑے سے اترنے کا اشارہ کیا۔ دونوں نے تلواریں نکال لیں۔ 
دونوں نے ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر وار کیے ۔

(جاری ہے)

پینترے بدلے، گھوم گھوم کر ایک دوسرے پر آئے مگر تلواریں آپس میں ہی ٹکراتی رہیں۔ پھر خالد کے ہاتھوں اور پینتروں میں پھرتی آگئی ۔ دونوں فوجیں شور و غل بپا کر رہی تھی۔ ہرمز محسوس کرنے لگا کہ وہ خالد کی تلوار سے بچ نہیں سکے گا ۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹ گیا اور اس نے تلوار پھینک دی ۔ 
”تلواریں فیصلہ نہیں کرسکیں گی“…ہرمز نے کہا …’آ خالد رضی اللہ عنہ ہتھیار کے بغیر آ اور کشتی لڑ’“
خالد تلوار پھینک کر کشتی کے لیے آگے بڑھے اور دونوں گتھم گتھا ہوگئے ۔
کشتی میں ہرمز کا پلہ بھاری نظر آتا تھا مورخ لکھتے ہیں کہ ہرمز کی چال کچھ اور تھی اس نے اپنے محافظوں کو پہلے سے بتارکھا تھا کہ وہ جب خالد رضی اللہ عنہ کو اتنی مضبوطی سے پکڑ ے کہ خالد ہلنے کے قابل نہ رہیں تو محافظ دونوں کو اس طرح گھیرے میں لے لیں کہ ان کی نیت اور ارادے پر شک نہ ہو یعنی وہ تماشائی بنے رہیں اور ان میں ایک محافظ خنجر نکال کر خالد رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کردے۔
جنگجو اس طرح دھوکہ نہیں دیا کرتے تھے لیکن ہرمز کمینگی کی وجہ سے مشہور تھا ۔ 
ہرمز کے محافظ آگے بڑھ آئے اور اپنی فوج کی طرح نعرے لگا تے نرغے کی ترتیب میں ہوتے گئے۔ وہ گھوڑوں پر سوار نہیں تھے ۔ وہ گھیرا تنک کرتے گئے حتیٰ کہ دونوں کے قریب چلے گئے ۔ خالد کی توجہ بٹ گئی ۔ ہرمز نے پھرتی سے خالد کے دونوں بازو اس طرح جکڑ لیے کہ اس کے بازو خالد کی بغلوں میں تھے۔
محافظ اور قریب آگئے ۔ 
ہرمز نے اپنی زبان میں محافظوں سے کچھ کہا ۔ خالد اس کی زبان تو نہ سمجھ سکے اشارہ سمجھ گئے ۔ انہوں نے خطرے کو بھانپ لیا اور جسم کی تمام تر طاقت صرف کرکے اتنی زور سے گھومے کہ ہرمز کو بھی اپنے ساتھ گھمالیا پھر خالد ایک جگہ کھڑے گھومتے رہے ۔ ہرمز کے پاؤں زمین سے اٹھ گئے ۔ خالد نے ہرمز کے بازو اپنی بغلوں میں جکڑ لیے تھے اور اپنے ہاتھ ہرمز کی بغلوں میں لیجاکر اسے گھماتے رہے ۔
اس طرح محافظوں کا دائرہ کھلتا گیا اور ان میں سے کسی کو آگے بڑھ کر خالد پر وار کرنے کا موقع نہ ملا۔ لیکن خالد کا یہ داؤ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا۔ وہ تھک چکے تھے ۔ 
اچانک ایک طرف سے ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا آیا جسے ہرمز کے محافظ دیکھ نہ سکے ۔ گھوڑا محافظوں کے دائرے کو کاٹتا گزر گیا اور تین محافظ زمین پر تڑپنے لگے ۔ ان میں سے ایک کو گھوڑے نے کچلا تھا اور دو کو گھوڑ سوار کی تلوار نے کاٹ دیا تھا۔
گھوڑا آگے جاکر مڑا اور پھر ہرمز کے محافظوں کی طرف آیا۔ محافظوں نے اب اس سے بچنے کی کوشش کی پھر بھی تین محافظ گرے اور تڑپنے لگے ۔ باقی بھاگ گئے اور سوار اپنی فوج سے جاملا۔ 
یہ سوار نوجوان ققعاع بن عمرو تھا جسے خلیفہ ابوبکر  نے کمک کے طور پر خالد کی طرف بھیجا اور کہا تھا …”جس لشکر میں ققعاع جیسا جوان ہوگا وہ لشکر شکست نہیں کھائے گا “
اس سوار سے نظریں ہٹا کر سب نے ہرمز اور خالد رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔
ہرمز پیٹھ کے بل زمین پر پڑا تھا اور خالد اس کے پیٹ پر بیٹھے اس کے سینے سے اپنا خنجر نکال رہے تھے ۔ خنجر سے ہرمز کا خون ٹپک رہا تھا۔ ققعاع رضی اللہ عنہ نے ہرمز کے محافظوں کی نیت بھانپ لی تھی اور کسی کے حکم کے بغیر گھوڑے کو ایڑ لگاکر محافظوں پر جاہلہ بولا اور خالد رضی اللہ عنہ کو بچالیا تھا ۔ 
###
خالد ہرمز کی لاش سے اٹھے۔
ہرمز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی خالد کے ہاتھ میں تھی ۔ اور اس کے خون میں لتھڑا ہوا خنجر بلند کرکے خالد نے اپنی فوج کو کھلے حملے کا حکم دے دیا ۔ ان کے پہلے سے دیے ہوئے احکام کے مطابق مسلمان لشکر کے دونوں پہلو کھل گئے اور اس نے دائیں اور بائیں سے ایرانیوں پر حملہ کیا۔ ایرانی اپنے ہرمز جیسے سالار کی موت سے بدل ہوگئے تھے لیکن اپنی روایتی شجاعت سے وہ دستبردار نہ ہوئے ۔
ان کی تعداد مسلمانوں کی نسبت خاصی زیادہ تھی ۔ ہتھیاروں اور گھوڑوں کے لحاظ سے بھی انہیں برتری حاصل تھی ۔ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں جم گئے ۔ نظر یہی آرہا تھا کہ ایرانیوں کو شکست نہیں دی جاسکے گے یا یہ کہ انہیں شکست دینے کے لیے بے شمار جانیں قربانیں کرنی پڑیں گی ۔ 
ایرانی سپاہی پانچ پانچ ، سات سات ، دس دس ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے اور ہرطرف سے آنے والے حملے روک رہے تھے ۔
خالد نے انہیں تھکانے کیلئے گھوڑا سواروں کو استعمال کیا۔ گھوڑ سواروں نے پیادوں پر اس طرح حملہ شروع کردیے کہ پیادوں کو دائیں بائیں دوڑنا پڑتا اپنے پیادوں کو بھی خالد  نے اسی طرح استعمال کیا۔ ایرانی پیادوں کو بھاگنا پڑا۔ ان کے مقابلے میں مسلمان تیزی سے حرکت کرسکتے تھے ۔ 
آخر ایرانیوں میں سستی اور تھکن کے آثار نظر آنے لگے ۔
انہوں نے اپنی روایت کے مطابق جو زنجیریں باندھ رکھی تھیں وہ ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں ۔ ہتھیاروں کی برتری وبال جان بن گی۔ ایرانیوں کی تنظیم اور ترتیب بکھرنے لگی۔ ان کے قلب کی کمان تو ہرمز کے مرتے ہی ختم ہوگئی تھی ان کے پہلوؤں کے سالاروں، قباذ اور انجوشجان ، نے شکست یقینی دیکھی تو پسپائی کا حکم دیدیا۔ وہی ہوسکے جو زنجیروں میں بندھے ہوئے نہیں تھے ۔
ان میں زیادہ گھوڑ سوار تھے ۔ قباذ اور انوشجان پہلوؤں سے اپنی فوج کی بہت سی نفری کو بچا کر لے گئے لیکن قلب کے ہزاروں سپاہی مسلمانوں کے ہاتھ کٹ گئے ۔ یہ تو آتش پرستوں کا قتل عام تھا جو سورج غروب ہونے کے بعد تک جاری رہا ۔ شام تاریک ہوگئی تو یہ خونی سلسلہ رکا ۔ 
مسلمانوں نے ایک بڑے ہی طاقتو ر دشمن کو بہت بری شکست دے کر ثابت کردیا کہ نفری کی افراط اور ہتھیاروں کی برتری سے فتح حاصل نہیں کی جاسکتی، جذبہ لڑا کرتا ہے ۔
 
اگلے روز مال غنیمت اکٹھا گیا ۔ خالد نے اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا۔ چار حصے اپنے لشکر میں تقسیم کردیے اور ایک حصہ مدینہ خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ ہرمز کی ایک لاکھ دہم کی ٹوپی بھی خالد نے خلیفہ کو بھیج دی۔ خلیفہ نے یہ ٹوبی خالد رضی اللہ عنہ کو واپس بھیج دی کیونکہ ذاتی مقابلوں میں مارے جانے والے کا مال غنیمت جیتنے والے کا ہی حق ہوتا ہے ۔ یہ ٹوپی خالد کی ملکیت تھی۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط