”یہ دیکھو…باہر آؤ…دیکھو یہ کیا ہے “
مدینہ کی گلیو ں میں کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ لوگ دوڑتے گھروں سے باہر آنے لگے ۔
”جانور ہے “
”نہیں…خدا کی قسم ہم نے ایسا جانور کبھی نہیں دیکھا “
”یہ جانور نہیں…خدا کی عجب مخلوق ہے “
عورتیں اور بچے بھی باہر نکل آئے سب کے چہروں پر حیرت تھی بچے ڈر کر پیچھے ہٹ گئے ۔ جنہوں نے خدا کی اس عجیب مخلوق کو پکڑ رکھا تھا وہ ہنس رہے تھے اور وہ آدمی بھی ہنس رہا تھا جو اس عجیب مخلوق کی گردن پر بیٹھا تھا۔
”یہ کیا ہے “…لوگ پوچھ رہے تھے …”اسے کیا کہتے ہیں “
”اسے ہاتھی کہتے ہیں “…ہاتھی کے ساتھ چلنے والے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا …”یہ جنگی جانور ہے یہ ہم نے فارس والوں سے چھینا ہے “
جنگ سلاسل میں جب ایرانی زرتشت بھاگے تھے تو یہ ہاتھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔
(جاری ہے)
تقریباً تمام مورخین نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ خالد نے مال غنیمت کا جو پانچواں حصہ خلیفہ ابوبکر کو بھیجا تھا اس میں ایک ہاتھی بھی تھا۔
مدینہ والوں نے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ اس ہاتھی کو مدینہ شہر میں گھمایا پھرایا گیا تو لوگ حیران ہوگئے اور بعض ڈر بھی گئے ۔ وہ اسے جانور نہیں خدا کی عجیب مخلوق کہتے تھے ۔ ہاتھی کے ساتھ اس کا ایرانی مہاوت بھی تھا۔
اس ہاتھی کو چند دن مدینہ میں رکھا گیا ۔ کھانے کے سوااس کا اور کوئی کام نہ تھا۔ مدینہ والے اس سے کام لینا جانتے بھی نہیں تھے اس کے علاوہ صرف ایک ہاتھی سے وہ کرتے بھی کیا۔
امیر المومنین نے اس کے مہاوت کو ہاتھی سمیت آزاد کردیا ۔ کسی بھی تاریخ میں یہ نہیں لکھا کہ یہ ہاتھی مدینہ سے کہاں چلا گیا تھا۔
###
دجلہ اور فرات آج بھی بہہ رہے ہیں ۔ ایک ہزار تین سو باون سال پہلے بھی بہہ رہے تھے مگر اس روانی میں اور آج کی روانی میں بہت فرق ہے ۔ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے دجلہ اور فرات کی لہروں میں اسلام کے اولین مجاہدین کے جوشیلے اور پرعزم نعروں کا ولولہ تھا ۔
ان دریاؤں کے پانیوں میں شہیدوں کا خون شامل تھا ۔ شمع رسالت کے شیدائی اسلام کو دجلہ اور فرات کے کنارے کنارے دور آگے لے جارہے تھے ۔ زرتشت کی آگ کے شعلے لپک لپک کر مسلمانوں کا راستہ روکتے تھے مسلمان بڑھتے ہی چلے جارہے تھے ۔ ان کا بڑھنا سہل نہیں تھا ۔ وہ فارسیوں کی شہنشاہی میں داخل ہوچکے تھے۔ ان کی نفری اور جسموں کی تازگی کم ہوتی جارہی تھی اور دشمن کی جنگی قوت ہیبت ناک تھی ۔
کبھی یوں لگتا تھا جیسے آتش پرست فارسیوں کی جنگی طاقت مسلمانوں کے قلیل لشکر کو اپنے پیٹ میں کھینچ رہی ہو ۔
۱اپریل ۶۳۳ء عیسوی کا تیسرا اور صفر ۱۲ہجری کا پہلا ہفتہ تھا ۔ خالد رضی اللہ عنہ کاظمہ کے مقام پر آتش پرست ایرانیوں کو شکست دیکر آگے ایک مقام پر پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے دو ہی ہفتے پہلے ایرانیوں کو شکست دی تھی ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے اتنی بڑی شہنشاہی سے ٹکر لی تھی جس کی جنگی قوت سے زمین کانپتی تھی ۔
امیر المومنین ابوبکر نے کہا تھا کہ ابھی ہم اتنی بڑی طاقت سے ٹکر لینے کے قابل نہیں لیکن انہوں نے یہ بھی محسوس کرلیا تھا کہ ٹکر لینا ناگزیر ہوگیا ہے ۔ ورنہ زرتشت مدینہ پر چڑھ دوڑیں گے ۔ ان کے عزائم ایسے ہی تھے ۔ وہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگ تھے اور اپنی بادشاہی میں مسلمانوں پر بہت ظلم کرتے تھے ۔ امیر المومنین نے خالد رضی اللہ عنہ کو یمامہ سے بلا کر زرتشتوں کے خلاف بھیجا تھا ۔
خالد رضی اللہ عنہ کو رسول کریم نے سیف اللہ کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ اب خلیفہ اول ابوبکرنے بھی کہا تھا …”اللہ کی تلوار کے بغیر ہم فارس کی بادشاہی سے ٹکر نہیں لے سکتے “
خالد نے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ اللہ کی تلوار ہیں۔
فارس کی شہنشاہی کی گدی مدائن میں تھی ۔ فارس کا شہنشاہ اردشیر مدائن میں شہنشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھا تھا ۔
اس کی گردن ان شہنشاہوں کی طرح اکڑی ہوئی تھی جو اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے۔ اس کے تخت کے دائیں بائیں ایران کا حسن مچل رہا تھا۔ وہ تخت سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ ابلہ کے محاذ سے قاصد آیا ہے ۔
”فوراً بلاؤ“…اردشیر نے رعونت سے کہا …”اس کے سواہ وہ اور کیا خبر لایا ہوگا کہ ہرمز نے مسلمانوں کو کچل ڈالا ہے …کیا حیثیت ہے عرب کے ان بدوؤں کی جنہوں نے کھجور اور جو کے سوا کھانے کی کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی “
قاصد دربار میں داخل ہوا تو اس کا چہرہ اور اس کی چال تبارہی تھی کہ وہ اچھی خبر نہیں لایا ۔
اس نے ایک بازو سیدھا اوپر کیا اور جھک گیا ۔
”سیدھے ہوجاؤ “…اردشیر نے فاتحہ لہجے میں کہا …”ہم اچھی خبر سننے کے لیے انتظار نہیں کرسکتے…کیا مسلمانوں کی عورتوں کو بھی پکڑا گیا ہے ؟بولو…تم خاموش کیوں ہو؟“
”زرتشت کی ہزار رحمت تخت فارس پر “…قاصد نے دربار کے آداب کے عین مطابق کہا …”شہنشاہ اردشیر کی شہنشاہی…“
”خبر کیا لائے ہو …“اردشیر نے گرج کر پوچھا ۔
”عالی مقام ہرمز نے کمک مانگی ہے “…قاصد نے کہا ۔
”ہرمز نے ؟“…ارشیر چونک کر آگے کو جھکا اور اس نے حیران ہوکر پوچھا …”کمک مانگی ہے ؟…کیا وہ مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا ہے …کیا وہ پسپا ہورہا ہے …ہم نے سنا تھا کہ مسلمان لٹیروں کے ایک گروہ کی مانند ہیں ۔ کیا ہوگیا ہے ہرمز کو؟کیا اس نے سپاہ کو زنجیروں سے نہیں باندھا تھا ؟… بولو“
دربار پر سناٹا طاری ہوگیا جیسے وہاں کوئی بھی نہ ہو اور درودیوار چپ چاپ ہوں ۔
”شہنشاہ فارس کی شہنشاہی افق تک پہنچے “…قاصد نے کہا …”زنجیریں باندھی تھیں مگر مسلمانوں نے ایسی چالیں چلیں کہ یہی زنجیریں ہماری سپاہ کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں “
”مدینہ والوں کی تعداد کتنی ہے ؟“
”بہت تھوڑی شہنشاہ فارس !“…قاصد نے جواب دیا …”ہمارے مقابلے میں ان کی تعداد کچھ بھی نہیں تھی لیکن…“
”دور ہوجا ہماری نظروں سے “…شہنشاہ اردشیر گرجا اور ذرا سوچ کر بولا …”قارن کو بلاؤ “
قارن بن قریانس ایرانی فوج کا بڑا ہی قابل اور دلیر سپہ سالار تھا ۔
وہ بھی ہرمز کی طرح لاکھ درہم کا آدمی تھا اور ہرمز کی ٹوپی کی طرح ٹوپی پہنتا تھا ۔ اطلاع ملتے ہی دوڑاا ٓیا۔
”فارن!“…ارشیر نے کہا …”کیا تم اس خبر کو سچ مان سکتے ہو کہ ہرمز نے مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہوئے کمک مانگی ہے ؟“…اردشیر نے دربایوں پر نگاہ دوڑائی تو تمام درباری اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب تعظیم کو جھکے اور باہر نکل گئے ۔ اردشیر فارن کے ساتھ تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا …”کیا یہ قاصد مسلمانوں کا آدمی تو نہیں جو ہمیں دھوکہ دینے آیا ہو ؟“