ان کے تعاقب میں مثنی بن حارثہ دو ہزار نفری کی فوج کے ساتھ آرہا تھا ۔ مثنیٰ بن حارثہ اسلام کا وہ شیدائی تھا جس نے ایرانیوں کے خلاف زمین دوز جنگی کارروائیاں شروع کر رکھی تھیں اسی کی ترغیب پر امیر المومنین ابوبکر نے خالد رضی اللہ عنہ کو بلاکر ایرانیوں کے خلاف بھیجا تھا ۔ ایرانیوں کے تعاقب میں جانا غیر معمولی طور پر دلیرانہ اقدام تھا ۔
تعاقب کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان اپنے مستقر سے دور ہٹتے ہٹتے ایرانیوں کے قلب میں جارہے تھے جہاں ان کا گھیرے میں آجانا یقینی تھا لیکن یہ خالد رضی اللہ عنہ کا حکم تھا کہ ایرانیوں کا تعاقب کیا جائے ۔ اس حکم کے پیچھے ایرانیوں کے خلاف وہ نفرت بھی تھی جو مثنیٰ بن حارثہ ے دل میں بھری ہوئی تھی ۔
جنگ سلاسل ختم ہوگئی اور ایرانی بھاگ اٹھے تو خالد نے دیکھا کہ ان کا لشکر تھک گیا ہے انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو بلایا۔
(جاری ہے)
”ابن حارثہ!“…خالد نے کہا …”اگر یہ بھاگتے ہوئے فارسی زندہ چلے جائیں تو کیا تم اپنی فتح کو مکمل سمجھو گے؟“
”خدا کی قسم ولید کے بیٹے !“…مثنیٰ بن حارثہ نے پرجوش لہجے میں کہا …’مجھے صرف حکم کی ضرورت ہے یہ میرا شکار ہے“
”تو جاؤ “…خالد نے کہا …”دو ہزار سوار اپنے ساتھ لو اور زیادہ سے زیادہ ایرانیوں کو پکڑ لاؤ اور جو مقابلے کرے اسے قتل کردو …میں جانتا ہوں میرے جانباز تھک گئے ہیں لیکن میں شہنشاہ فارس کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم زمین کے دوسرے سرے تک ان کا تعاقب کریں گے “
مثنیٰ بن حارثہ نے دو ہزار سوار لیے اور بھاگتے ہوئے ایرانیوں کے پیچھے چلا گیا۔
ایرانیوں نے دور سے دیکھ لیا کہ ان کا تعاقب ہورہا ہے تو وہ بکھر گئے ۔ انہوں نے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے گُرز اور ہتھیار پھینک دیے تھے ۔ مثنیٰ کے لیے تعاقب کا اور ایرانیوں کو پکڑنے کا کام دشوار ہوگیا تھا کیونکہ ایرانی ٹولی ٹولی ہوکر بکھر ے پھر وہ اکیلے اکیلے ہوکر بھاگنے لگے ۔ اس کے مطابق مثنیٰ کے سوار بھی بکھر گئے ۔
مثنیٰ بن حارثہ کو آگے جاکر اپنے سواروں کو اکٹھا کرنا پڑا کیونکہ آگے ایک قلعہ آگیا تھا ۔
یہ قلعہ حصن المراة کے نام سے مشہور تھا۔ یہ ایک عورت کا قلعہ تھا اسی لیے اس کا نام حصن المراة مشہور ہوگیا تھا یعنی عورت کا قلعہ۔ مثنیٰ نے اس قلعے کا محاصرہ کرلیا کیونکہ خیال یہ تھا کہ ایرانی اس قلعے میں چلے گئے ہوں گے ۔ قلعے سے مزاحمت کے آثار نظر آرہے تھے ۔ دو دن محاصرے میں گزر گئے تو مثنیٰ کو احساس ہوا کہ وہ جس کام کے لیے آیا تھا وہ تو رہ گیا ہے ۔
مثنیٰ کا ایک بھائی معنیٰ اس کے ساتھ تھا۔
”معنیٰ “…مثنیٰ بن حارثہ نے اسے کہا…”کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ میں ایرانیوں کے تعاقب میں آیا تھا اور مجھے اس قلعے نے روک لیا ہے “
”مثنی ٰ بھائی “…معنیٰ نے کہا…”میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں۔ اگرایسا ہوتا تو تم مجھے کہتے کہ اس قلعے کو تم محاصرے میں رکھو اور میں ایرنیوں کے پیچھے جاتا ہوں “
”ہاں معنیٰ“…مثنیٰ نے کہا …”مجھے تم پر بھروسہ نہیں۔
یہ قلعہ ایک جوان عورت کا ہے اور تم جوان آدمی ہو ۔ خدا کی قسم، میں نے قلعے سر کرنے والوں کو ایک عورت کی تیکھی نظروں اور اداؤں سے سر ہوتے دیکھا ہے “
”میرے باپ کے بیٹے !“…معنیٰ نے کہا …”مجھ پر بھروسہ کر اور آگے نکل جا۔ مجھے تھوڑے سے سوار دے جا پھر دیکھ کون سر ہوتا ہے …قلعہ یا میں …اگر تو یہیں بندھا رہا تو بھاگتے ہوئے فارسی بہت دور نکل جائیں گے “
”اگر میرا دماغ ٹھیک کام کرتا ہے تو میں کچھ اور سوچ کر ادھر آیا ہوں “…مثنیٰ بن حارثہ نے کہا …”میں اس اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد جس کے نبی ہیں کہ اس نے ہمیں خالد بن ولید جیسا سپہ سالار دیا ہے۔
مدینہ کی خلافت سے اسے جو حکم ملا تھا اس نے وہ پورا کردیا ہے لیکن وہ اس پر مطمئن نہیں۔ وہ فارس کی شہنشاہی کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے پر تلا ہوا ہے ۔ وہ مدائن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا عزم کیے ہوئے ہے“
”عزم اور چیز ہے میرے بھائی !“…معنیٰ نے کہا …”عزم کو پورا کرنا بالکل مختلف چیز ہے ۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ولید کا بیٹا تیر کی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے …میرے باپ کے بیٹے! تیر خطا بھی ہوسکتا ہے ۔
ذرا سی رکاوٹ اسے روک بھی سکتی ہے “
”کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خالد رضی اللہ عنہ کو وہیں رک جانا چاہیے جہاں اس نے فارسیوں کو شکست دی ہے“…مثنیٰ نے کہا …”خدا کی قسم! تم ایک بات بھول رہے ہو ۔ شہنشاہ فارس کو اپنی شہنشاہی کا غم ہے اور ہمیں اپنے اللہ کی ناراضگی کا ڈر ہے ۔ اردشیر اپنے تخت و تاج کو بچانا چاہتا ہے لیکن ہم شاہ دو جہان صلی اللہ عیلہ وسلم کی آن کی خاطر لڑ رہے ہیں …سمجھنے کی کوشش کرو میرے بھائی ، یہ بادشاہوں کی نہیں عقیدوں کی جنگ ہے ۔
ہمارے لیے یہ اللہ کا حکم ہے کہ ہم اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا کے آخری کونے تک پہنچائیں۔ ہمارا بچھونا یہ ریت ہے اور یہ پتھر ہیں ہم تخت کے طلب گار نہیں “
”میں سمجھ گیا ہوں “…معنیٰ نے کہا ۔
”نہیں“…مثنیٰ بولا …”تم ابھی پوری بات نہیں سمجھے تم بھول رہے ہو کہ ہمیں ان مسلمانوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لینا ہے جو فارسیوں کے زیر نگیں تھے اور جن پر فارسیوں نے ظلم و تشدد کیا تھا ۔
خالد فارسیوں کا یہ گناہ کبھی نہیں بخشے گا ۔ وہ مظلوم مسلمان مدینہ کی طرف دیکھ رہے تھے …میں تمہیں کہہ رہا تھا کہ میں فارسیوں کے تعاقب میں نہیں آیا۔ میں فارس کے اس لشکر کی تلاش میں آیا ہوں جو ہرمز کی شکست خوردہ فوج کی مدد کے لیے آرہا ہوگا ۔ مجھے پوری امید ہے کہ ان کی کمک آرہی ہے میں اسے راستے میں روکوں گا “
”پھر اتنی باتیں نہ کرو مثنیٰ“…معنیٰ نے کہا …”مجھے کچھ سوار دے دے اور تم آگے نکل جاؤ …یہ خیال رکھنا کہ فارسی اگر آگئے تو ان کی تعداد اور طاقت زیادہ ہوگی ۔
آمنے سامنے کی ٹکر نہ لینا ۔ جا میرے بھائی میں تجھے اللہ کے سپرد کرتا ہوں“
###
کسی بھی مورخ نے سواروں کی صحیح تعداد نہیں لکھی جو مثنیٰ اپنے بھائی معنیٰ کو دے کر چلا گیا تھا۔ بعض مورخوں کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ سواروں کی تعداد تین سو سے کم اور چار سو سے زیادہ نہیں تھی ۔ معنیٰ نے اتنے سواروں سے ہی قلعے کا محاصرہ کرلیا اور قلعے کے دروازے کے اتنے قریب چلا گیا جہاں وہ تیروں کی بڑی آسان زد میں تھا۔
دروازے کے اوپر جو برج تھا اس میں ایک خوبصورت عورت نمودار ہوئی ۔
”تم کون ہو اور یہاں کیا لینے آئے ہو …“…عورت نے بلند آواز میں معنیٰ سے پوچھا ۔
”ہم مسلمان ہیں “…معنیٰ نے اس سے زیادہ بلند آواز میں جواب دیا …”ہم میدان جنگ سے بھاگے ہوئے فارسیوں کے تعاقب میں آئے ہیں۔ اگر تم نے قلعے میں انہیں پناہ دی ہے تو انہیں ہمارے حوالے کردو ہم چلے جائیں گے “
”یہ میرا قلعہ ہے “…عورت نے کہا …”بھاگے ہوئے فارسیوں کی پناہ گاہ نہیں۔
یہاں کوئی فارسی نہیں “
”خاتون!“…معنیٰ نے کہا …”ہم پر تیرا احترام لازم ہے ہم مسلمان ہیں۔ عورت پر ہاتھ اٹھانا ہم پر حرام ہے خواہ وہ قلعہ دار ہی ہو ۔ اگر تم فارس کی جنگی طاقت کے ڈر سے اس کے سپاہی ہمارے حوالے نہیں کرنا چاہتیں تو سوچ لو کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے فارس کی اس ہیبت ناک جنگی طاقت کو شکست دی ہے ایسا نہ ہو کہ تم پر ہمارے ہاتھوں زیادتی ہوجائے ہم اسلام کے اس لشکر کا ہراول ہیں جو پیچھے آرہا ہے “
”میں نے مسلمانوں کا کیا بگاڑا ہے ؟“…عورت نے کہا …”میرا قلعہ تمہارے لشکر کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا“
”تمہارا قلعہ محفوظ رہے گا “…معنیٰ نے کہا…”شرط یہ ہے کہ قلعے کا دروازہ کھول دو ہم اندر آکر دیکھیں گے تمہارے کسی آدمی اور کسی چیز کو میرے سوار ہاتھ نہیں لگائیں گے ۔
ہم اپنی تسلی کرکے چلے جائیں گے اگر یہ شرط پوری نہیں کرو گی تو تمہاری اور تمہاری فوج کی لاشیں اس قلعے کے ملبے کے نیچے گل جائیں گی ۔ “