Episode 123 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 123 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

آتش پرست سالار اندرزغر نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمان تھک گئے ہیں چنانچہ اس نے حملے کا حکم دے دیا اسے بجا طور پر اپنی فتح کی پوری امید تھی ۔ آتش پرست سمندر کی موجوں کی طرح آئے ۔ مسلمانوں کو اب کچلے جانا تھا ۔ انہوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے بے جگری سے مقابلہ کیا۔ ایک ایک مسلمان کا مقابلہ دس دس بارہ بارہ آتش پرستوں سے تھا۔ اب ہر مسلمان ذاتی جنگ لڑ رہا تھا ۔
اس کے باوجود انہوں نے ڈسپلن کا دامن نہ چھوڑا اور بھگدڑ نہ مچنے دی ۔ 
اس موقع پر بھی سپاہیوں کو خیال آیا کہ خالد اپنے پہلوؤں کو اس طریقے سے کیوں استعمال نہیں کرتے جو ان کا مخصوص طریقہ تھا ۔ خالد خود سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے اور ان کے کپڑوں پر خون تھا جو ان کے کسی زخم سے نکل رہا تھا ۔ 
چونکہ ایرانیوں کی نفری زیادہ تھی اس لیے جانی نقصان انہی کا زیادہ ہورہا تھا ۔

(جاری ہے)

اندرزغر نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹالیا اور تازہ دم دستوں سے دوسرا حملہ کیا۔ یہ حملہ زیادہ نفری کا تھا ۔ مسلمان ان میں نظر ہی نہیں آتے تھے ۔ اندرزغر کا یہ عہد پورا ہورہا تھا کہ ایک بھی مسلمان کو زندہ نہیں جانے دیں گے ۔ اندرزغر نے مسلمانوں کا کام جلدی تمام کرنے کے لیے مزید دستوں کو ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔ اب تو مسلمانوں کے لیے بھاگنا بھی ممکن نہ رہا ۔
وہ اب زخمی شیروں کی طرح لڑ رہے تھے ۔ 
خالد اس معرکے سے نکل گئے تھے ان کا علم بردار ان کے ساتھ تھا ۔ انہوں نے علم اپنے ہاتھ میں لے کر اوپر کیا اور ایک بار دائیں اور ایک بار بائیں کیا پھر علم علم بردار کو دے دیا ۔ یہ ایک شارہ تھا اس کے ساتھ ہی میدان جنگ کے پہلوؤں میں جو ٹیکریاں تھیں، ان میں سے دو ہزار گھوڑ سوار نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جو انہوں نے آگے کرلیں۔
گھوڑے سرپٹ دوڑے آرہے تھے۔ وہ ایک ترتیب میں ہوکر آتش پرستوں کے عقب میں آگئے ۔ جنگ کے شور و غل میں آتش پرستوں کو اس وقت پتہ چلا کہ ان پر عقب سے حملہ ہوگیا ہے جب مسلمانوں کے گھوڑ سوار ان کے سر پر آگئے تھے ۔ 
یہ تھے مسلمانوں کے وہ سوار دستے جنہیں اندرزغر ڈھونڈ رہا تھا۔ خود خالد کی سپاہ پوچھ رہی تھی کہ اپنے سوار دستے کہاں ہیں۔ خالد نے اپنی نفری کی کمی اور دشمن کی نفری کی افراط دیکھ کر یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ رات کو تمام گھوڑ سواروں کو ٹیکرے کے عقب میں اس ہدایت کے ساتھ بھیج دیا تھا کہ اپنی فوج کو بھی پتہ نہ چل سکے۔
ان کے لیے علم کے دائیں بائیں ہلنے کا اشارہ مقرر کیا تھا ۔ گھوڑوں کو ایسی جگہ چھپایا تھا جو دشمن سے ڈیڑھ میل کے لگ بھگ دور تھی ۔ وہاں سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز دشمن تک نہیں پہنچ سکتی تھی ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ رات کو گھوڑوں کے منہ باندھ دیے گئے تھے ۔ ان دو ہزار گھوڑ سواروں کے کماندار بسر بن ابی رہم اور سعید بن مرہ تھے۔ جب صبح لڑائی شرو ع ہوئی تھی تو ان دونوں کمانداروں نے گھوڑ سواروں کو پابر کاب کردیا اور خود ایک ٹیکری پر کھڑے ہوکر اشارے کا انتظار کرتے رہے تھے ۔
 
آتش پرستوں پر عقب سے قیامت ٹوٹی تو خالد نے اگلی چال چلی جو پہلے سے طے کی ہوئی تھی ۔ پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم نے لڑتے ہوئے بھی اپنے آپ کو بچا کر رکھا ہوا تھا ۔ انہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ جب گھوڑ سواروں نے عقب سے دشمن پر حملہ بولا تو پہلوؤں کے ان دونوں سالاروں نے اپنے اپنے پہلو پھیلا کر آتش پرستوں کو گھیرے میں لے لیا۔
دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے خالد نے اپنا محفوظ بھی معرکے میں پہلے ہی جھونک دیا تھا۔ 
آتش پرستوں کے فتح کے نعرے آہ و بکا میں تبدیل ہوگئے ۔ مسلمان گھوڑ سواروں کی برچھیاں انہیں کاٹتی اور گراتی جارہی تھیں۔ دشمن میں بھگدڑ تو ان ہزاروں عیسائیوں نے مچائی جنہیں جنگ کا تجربہ نہیں تھا اور اس بھگدڑ میں اضافہ دشمن کے ان سپاہیوں نے کیا جو پہلے معرکوں سے بھاگے ہوئے تھے ۔
وہ جانتے تھے کہ مسلمان کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ 
اب مسلمانوں کے نعرے گرج رہے تھے کہ جنگ کا پانسہ ایسا پلٹا کہ زرتشت کی آگ سرگر ہوگئی ۔ بعض مورخوں نے ولجہ کے معرکے کا ولجہ کا جہنم لکھا ہے ۔ آتش پرستوں کے لیے یہ معرکہ جہنم سے کم نہ تھا۔ اتنا بڑا لشکر ڈری ہوئی بھیڑ بکریوں کی صورت اختیارکرگیا ۔ وہ بھاگ رہے تھے کٹ رہے تھے ۔ گھوڑوں تلے روندے جارہے تھے ۔
 
مورخوں نے لکھا ہے کہ اندرزغر بھاگ گیا لیکن مدائن کی طرف جانے کی بجائے اس نے صحرا کا رخ کرلیا ۔ اسے معلوم تھا کہ وہ واپس گیا تو اردشیر اسے جلاد کے حوالے کردے گا وہ صحرا میں بھٹکتا رہا اور بھٹک بھٹک کر مر گیا ۔ 
دوسرے آتش پرست سالار بہمن جاذویہ کی فوج ابھی تک دلجہ نہیں پہنچی تھی ۔ مسلمانوں کو ایسا ہی ایک اور معرکہ لڑنا تھا ۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط