ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا اایا اور محل کے باہر رکا ۔ ملکہ دوڑتی باہر گئی بوڑھا طبیب بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ وہ ایک کماندار تھا گھوڑے سے کود کر وہ ملکہ کے سامنے دو زانو ہوگیا ۔اس کا منہ کھلا ہوا تھا آنکھیں سفید ہوگئی تھین چہرے پر صرف تھکن ہی نہیں گھبراہٹ تھی ۔
”کوئی اچھی خبر لائے ہو “…ملکہ نے پوچھا …”اٹھو اور فوراً بتاؤ “
”کوئی اچھی خبر نہیں “…کماندار نے ہانپتی ہوئی آواز میں کہا …”مسلمانوں نے پورا لشکر کاٹ دیا ہے ۔
انہوں نے ہمارے ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر دریائے خسیف کے کنارے اس طرح قتل کردیا ہے کہ دریا میں خون چل پڑا۔ دریاخشک تھا مسلمانوں کے سالار نے اوپر سے دریا کا بند کھلوادایا تو بادقلی کون کا دریا بن گیا ۔ “
”تم کیوں زندہ واپس آگئے ہو ؟“…ملکہ نے غضب ناک آواز میں پوچھا …”کیا تم میرے ہاتھوں کٹنے کے لیے آئے ہو “
”میں اگلی جنگ لڑنے کے لیے زندہ آگیا ہوں “…کماندار نے جواب دیا …”میں چھپ کر اپنے لشکر کے قیدیوں کے سر جسموں سے الگ ہوتے دیکھتا رہا ہوں “
”خبردار!“…ملکہ نے حکم دیا …”یہ خبر یہیں سے واپس لے جاؤ شہنشاہ فارس کو …“
”شہنشاہ فارس یہی خبر سننے کے لیے زندہ ہے “…اردشیر کی آواز سنائی دی ۔
(جاری ہے)
ملکہ نے اور طبیب نے دیکھا ۔ اردشیر ایک ستون کے سہارے کھڑا تھا ۔ دو بڑی حسین اور جوان لڑکیوں نے اس کے ہاتھ اپنے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے ۔
”یہاں آؤ “…اس نے کماندار کو حکم دیا …”میں نے محسوس کرلیا تھا کوئی آیا ہے …کہو کیا خبر لائے ہو “
کماندار نے ملکہ اور طبیب کی طرف دیکھا ۔
”ادھر دیکھو“…اردشیر نے گرج کر کہا…”بولو“
کماندار نے وہی خبر سنادی جو ملکہ کو سناچکا تھا ۔
کسریٰ اردشیر آگے کو جھک گیا ۔ دونوں لڑکیوں نے اسے سہارا دیا ملکہ نے لپک کر اس کا سر اوپر اٹھایا بوڑھے طبیب نے اس کی نبض پر انگلیاں رکھیں۔ ملکہ نے طبیب کی طرف دیکھا ۔ طبیب نے مایوسی سے سر ہلایا ۔
”فارس کسریٰ اردشیر سے محروم ہوگیا ہے “…طبیب نے کہا ۔ْ
محل میں ہڑبونگ مچ گئی ۔ اردشیر کی لاش اٹھا کر اس کے کمرے میں لے گئے جہاں اس نے کئی بار کہا تھا کہ عرب کے ان لٹیرے بدوؤں کو فارس کی سرحد میں قدم رکھنے کی جرات کیسے ہوئی ہے ۔
اس نے اسی کمرے میں ولید کے بیٹے خالد اور حارثہ کے بیٹے مثنیٰ کو زندہ یا مردہ لانے کا حکم دیا تھا ۔ اپنے حکم کی تعمیل سے پہلے ہی اس کمرے میں اس کی لاش پڑی تھی ۔ وہ شکستوں کے صدمے سے ہی مر گیا تھا ۔
ملکہ نے حکم دیا کہ لڑنے والے لشکر تک کسریٰ کی موت کی خبر نہ پہنچنے دی جائے ۔
###
مسلمانوں کے پڑاؤ میں ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا داخل ہوا۔
اس کا سوار چلا رہا تھا ۔
”کہاں ہے ولید کا بیٹا!“…گھوڑ سوار بازو بلند کرکے لہراتا آرہا تھا …”باہر آ ابن ولید!“…خالد بڑی تیزی سے سامنے آئے ۔
”ابن ولید!“…سوار کہتا آرہا تھا …”تجھ پر اللہ کی رحمت ہو ۔ تیری دہشت نے اردشیر کی جان لے لی ہے “
”کیا تو پاگل ہوگیا ہے ابن حارثہ!“…خالد نے آگے بڑھ کر کہا ۔
سوار مثنیٰ بن حارثہ تھا وہ گھوڑے سے کودا اور اتنے پرجوش طریقے سے خالد سے بغلگیر ہوا کہ خالد گرتے گرتے بچے۔
”مدائن کے محل رورہے ہیں “…مثنیٰ نے خوشی سے بے قابو آواز میں کہا …”اردشیر کو مرے آج چار دن ہوگئے ہیں میرے دو آدمی مدائن کے محل میں موجود تھے ۔ وہاں حکم دیا گیا ہے کہ اردشیر کی موت کی خبر اس کے لشکر کو نہ دی جائے ۔ “
خالد نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے ۔
”میرے اللہ !“…انہوں نے کہا …”میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں ، مجھے فتح کے تکبر اور غرور سے بچانا خدائے ذوالجلال! سب تعریفیں تیرے لیے اور صرف تیرے لیے ہیں “
خالد نے ہاتھ نیچے کرکے ادھر ادھر دیکھا اور بلند آواز سے کہا …”اپنے تمام لشکر کو یہ مژدہ سنادو کہ فارس کی وسیع و عریض شہنشاہی کا ستون گر پڑا ہے اور یہ اللہ کی دین ہے سب سے کہہ دو کہ کسریٰ کو تمہاری دہشت نے مارا ہے “
خالد رضی اللہ عنہ مثنیٰ بن حارثہ کو اپنے خیمے میں لے گئے اور اس سے پوچھا کہ آگے کیا ہے ۔
”تھوڑی ہی دور فارس کا ایک بڑا شہر مینشیا ہے “…مثنیٰ نے بتایا …”یہ شہر اس لیے بڑا ہے کہ وہاں فارس کی فوج رہتی ہے ۔ اسے فوج کا بہت بڑا اڈہ سمجھ لو ۔ یہ شہر تجارتی مرکز ہے اس کے ارد گرد زمین بہت زرخیز ہے تجارت اناج اور باغوں کے پھلوں کی وجہ سے مینشیا امیروں کا شہر کہلاتا ہے ۔ شہر نپاہ بہت مضبوط ہے ۔ شہر کے دروازے مضبوط ہیں۔ قریب جاؤ گے تو دیوار کے اوپر سے تیروں کا مینہ برسے گا …ولید کے بیٹے !اس شہر کے لیے جانوں کی قربانی دینی پڑے گی ۔
اگر تو نے یہ شہر لیے لیا تو سمجھ لیے کہ تو نے دشمن کی ایک موٹی رگ اپنے ہاتھ میں لے لی ہے “
”کیا اب بھی وہاں فوج ہے “…خالد نے پوچھا …اگر ہے تو کتنی ہوگی ؟”“
”اتنی نہیں ہوگی جتنی پہلے تھی “…مثنیٰ نے جواب دیا …”جہاں تک مجھے بتایا گیا ہے الیس کی لڑائی میں کچھ فوج وہاں سے بھی آئی تھی“
دریائے فرات میں ایک چھوٹا دریا آکر گرتا تھا اسے دریائے بادقلی کہتے تھے جہاں یہ دریا ملتے تھے وہاں شہر مینشیا آباد تھا ۔
خالد بڑی شدت سے محسوس کر رہے تھے کہ ان کا ہر اگلا قدم پچھلے قدم سے زیادہ دشوار ہوتا جارہا ہے ۔ تاہم انہوں نے حکم دیا کہ فوراً مینشیا کی طرف کوچ کیا جائے ۔ فوراً کوچ سے ان کا مقصدیہ تھا کہ آتش پرستوں کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے۔
###