Episode 133 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 133 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا اایا اور محل کے باہر رکا ۔ ملکہ دوڑتی باہر گئی بوڑھا طبیب بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ وہ ایک کماندار تھا گھوڑے سے کود کر وہ ملکہ کے سامنے دو زانو ہوگیا ۔اس کا منہ کھلا ہوا تھا آنکھیں سفید ہوگئی تھین چہرے پر صرف تھکن ہی نہیں گھبراہٹ تھی ۔ 
”کوئی اچھی خبر لائے ہو “…ملکہ نے پوچھا …”اٹھو اور فوراً بتاؤ “
”کوئی اچھی خبر نہیں “…کماندار نے ہانپتی ہوئی آواز میں کہا …”مسلمانوں نے پورا لشکر کاٹ دیا ہے ۔
انہوں نے ہمارے ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر دریائے خسیف کے کنارے اس طرح قتل کردیا ہے کہ دریا میں خون چل پڑا۔ دریاخشک تھا مسلمانوں کے سالار نے اوپر سے دریا کا بند کھلوادایا تو بادقلی کون کا دریا بن گیا ۔ “
”تم کیوں زندہ واپس آگئے ہو ؟“…ملکہ نے غضب ناک آواز میں پوچھا …”کیا تم میرے ہاتھوں کٹنے کے لیے آئے ہو “
”میں اگلی جنگ لڑنے کے لیے زندہ آگیا ہوں “…کماندار نے جواب دیا …”میں چھپ کر اپنے لشکر کے قیدیوں کے سر جسموں سے الگ ہوتے دیکھتا رہا ہوں “
”خبردار!“…ملکہ نے حکم دیا …”یہ خبر یہیں سے واپس لے جاؤ شہنشاہ فارس کو …“
”شہنشاہ فارس یہی خبر سننے کے لیے زندہ ہے “…اردشیر کی آواز سنائی دی ۔

(جاری ہے)

ملکہ نے اور طبیب نے دیکھا ۔ اردشیر ایک ستون کے سہارے کھڑا تھا ۔ دو بڑی حسین اور جوان لڑکیوں نے اس کے ہاتھ اپنے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے ۔ 
”یہاں آؤ “…اس نے کماندار کو حکم دیا …”میں نے محسوس کرلیا تھا کوئی آیا ہے …کہو کیا خبر لائے ہو “
کماندار نے ملکہ اور طبیب کی طرف دیکھا ۔ 
”ادھر دیکھو“…اردشیر نے گرج کر کہا…”بولو“
کماندار نے وہی خبر سنادی جو ملکہ کو سناچکا تھا ۔
کسریٰ اردشیر آگے کو جھک گیا ۔ دونوں لڑکیوں نے اسے سہارا دیا ملکہ نے لپک کر اس کا سر اوپر اٹھایا بوڑھے طبیب نے اس کی نبض پر انگلیاں رکھیں۔ ملکہ نے طبیب کی طرف دیکھا ۔ طبیب نے مایوسی سے سر ہلایا ۔ 
”فارس کسریٰ اردشیر سے محروم ہوگیا ہے “…طبیب نے کہا ۔ْ 
محل میں ہڑبونگ مچ گئی ۔ اردشیر کی لاش اٹھا کر اس کے کمرے میں لے گئے جہاں اس نے کئی بار کہا تھا کہ عرب کے ان لٹیرے بدوؤں کو فارس کی سرحد میں قدم رکھنے کی جرات کیسے ہوئی ہے ۔
اس نے اسی کمرے میں ولید کے بیٹے خالد اور حارثہ کے بیٹے مثنیٰ کو زندہ یا مردہ لانے کا حکم دیا تھا ۔ اپنے حکم کی تعمیل سے پہلے ہی اس کمرے میں اس کی لاش پڑی تھی ۔ وہ شکستوں کے صدمے سے ہی مر گیا تھا ۔ 
ملکہ نے حکم دیا کہ لڑنے والے لشکر تک کسریٰ کی موت کی خبر نہ پہنچنے دی جائے ۔ 
###
مسلمانوں کے پڑاؤ میں ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا داخل ہوا۔
اس کا سوار چلا رہا تھا ۔ 
”کہاں ہے ولید کا بیٹا!“…گھوڑ سوار بازو بلند کرکے لہراتا آرہا تھا …”باہر آ ابن ولید!“…خالد بڑی تیزی سے سامنے آئے ۔ 
”ابن ولید!“…سوار کہتا آرہا تھا …”تجھ پر اللہ کی رحمت ہو ۔ تیری دہشت نے اردشیر کی جان لے لی ہے “
”کیا تو پاگل ہوگیا ہے ابن حارثہ!“…خالد نے آگے بڑھ کر کہا ۔ 
سوار مثنیٰ بن حارثہ تھا وہ گھوڑے سے کودا اور اتنے پرجوش طریقے سے خالد سے بغلگیر ہوا کہ خالد گرتے گرتے بچے۔
 
”مدائن کے محل رورہے ہیں “…مثنیٰ نے خوشی سے بے قابو آواز میں کہا …”اردشیر کو مرے آج چار دن ہوگئے ہیں میرے دو آدمی مدائن کے محل میں موجود تھے ۔ وہاں حکم دیا گیا ہے کہ اردشیر کی موت کی خبر اس کے لشکر کو نہ دی جائے ۔ “
خالد  نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے ۔ 
”میرے اللہ !“…انہوں نے کہا …”میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں ، مجھے فتح کے تکبر اور غرور سے بچانا خدائے ذوالجلال! سب تعریفیں تیرے لیے اور صرف تیرے لیے ہیں “
خالد نے ہاتھ نیچے کرکے ادھر ادھر دیکھا اور بلند آواز سے کہا …”اپنے تمام لشکر کو یہ مژدہ سنادو کہ فارس کی وسیع و عریض شہنشاہی کا ستون گر پڑا ہے اور یہ اللہ کی دین ہے سب سے کہہ دو کہ کسریٰ کو تمہاری دہشت نے مارا ہے “
خالد رضی اللہ عنہ مثنیٰ بن حارثہ کو اپنے خیمے میں لے گئے اور اس سے پوچھا کہ آگے کیا ہے ۔
 
”تھوڑی ہی دور فارس کا ایک بڑا شہر مینشیا ہے “…مثنیٰ نے بتایا …”یہ شہر اس لیے بڑا ہے کہ وہاں فارس کی فوج رہتی ہے ۔ اسے فوج کا بہت بڑا اڈہ سمجھ لو ۔ یہ شہر تجارتی مرکز ہے اس کے ارد گرد زمین بہت زرخیز ہے تجارت اناج اور باغوں کے پھلوں کی وجہ سے مینشیا امیروں کا شہر کہلاتا ہے ۔ شہر نپاہ بہت مضبوط ہے ۔ شہر کے دروازے مضبوط ہیں۔ قریب جاؤ گے تو دیوار کے اوپر سے تیروں کا مینہ برسے گا …ولید کے بیٹے !اس شہر کے لیے جانوں کی قربانی دینی پڑے گی ۔
اگر تو نے یہ شہر لیے لیا تو سمجھ لیے کہ تو نے دشمن کی ایک موٹی رگ اپنے ہاتھ میں لے لی ہے “
”کیا اب بھی وہاں فوج ہے “…خالد نے پوچھا …اگر ہے تو کتنی ہوگی ؟”“
”اتنی نہیں ہوگی جتنی پہلے تھی “…مثنیٰ نے جواب دیا …”جہاں تک مجھے بتایا گیا ہے الیس کی لڑائی میں کچھ فوج وہاں سے بھی آئی تھی“
دریائے فرات میں ایک چھوٹا دریا آکر گرتا تھا اسے دریائے بادقلی کہتے تھے جہاں یہ دریا ملتے تھے وہاں شہر مینشیا آباد تھا ۔
خالد بڑی شدت سے محسوس کر رہے تھے کہ ان کا ہر اگلا قدم پچھلے قدم سے زیادہ دشوار ہوتا جارہا ہے ۔ تاہم انہوں نے حکم دیا کہ فوراً مینشیا کی طرف کوچ کیا جائے ۔ فوراً کوچ سے ان کا مقصدیہ تھا کہ آتش پرستوں کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ 
###

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط