شہرِ دل
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
وہ شام جیسے سسک رہی تھی
کہ زرد پتوں کو آندھیوں نے
عجیب قصہ سنا دیا تھا
کہ جس کو سن کے تمام پتے
سسک رہے تھے، بلک رہے تھے
جانے کس سانحے کے غم میں
شجر جڑوں سے اُکھڑ رہے تھے
بہت تلاشا تھا ہم نے تم کو
ہر ایک وادی، ہر ایک رستہ
کہیں سے تیری خبر نہ آئی
تو یہ کہہ کے ہم نے دل کو ٹالا
ہوا تھمے گی تو دیکھ لیں گے
ہم اس کے رستے کو ڈھونڈلیں گے
مگر ہماری یہ خوش خیالی
جو ہم کو برباد کر گئی تھی
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
بڑی ہی مدت گزر گئی تھی
سر سبز لان میں موجود درختوں کے پار سورج دھیرے دھیرے غروب ہو رہا تھا۔
(جاری ہے)
ایک اور دن تمام تر مصروفیات اُلجھنوں سمیت پردہٴ مغرب میں ڈھلنے جا رہا تھا۔ اس کے اندر بھی رخصت ہوتی اسی شام میں ویرانی پنجے گاڑھ کر بیٹھ گئی تھی۔ کل شام جب وہ لان میں کین کی کرسی پر بیٹھی ہیڈ سٹ کانوں پر چڑھاکر میوزک اِنجوائے کر رہی تھی، پپا کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوئی تھی۔ اس نے سرسری سے نگاہ ڈالی اور فضہ کا بیک کیا ہوا کیک کھانے میں مشغول ہوگئی تھی۔
پپا ان کی سمت آنے کی بجائے گاڑی سے نکل کر سیدھے اپنے بیڈ روم میں چلے گئے تھے۔ یہ کوئی ایسی چونکا دینے والی بات تو نہیں تھی۔ کم از کم اس کے لئے مگر مما ضرور پریشان ہوئی تھیں جبھی اپنا چائے کا مگ چھوڑ کر خود بھی ان کے پیچھے چلی گئی تھیں۔
”مجھے لگتا ہے کوئی پرابلم ہے…؟“
فضہ نے اُٹھ کر اس کے سر سے ہیڈ سیٹ اُتار کر رکھتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ایمان نے خفگی سے اُسے دیکھا اور نفرت سے سر جھٹک دیا تھا۔
”تم پاکستانی عوام ہونے کا پورا پورا ثبوت دیا کرو۔ہر بات میں تشویش،ہر بات میں گھبراہٹ…؟“
وہ فطرتاً بے نیاز تھی اور کچھ بے حس بھی۔ یہ دوسرا خالصتاً فضہ کا خیال تھا۔ فضہ کے ساتھ مما بھی کچھ دنوں سے پپا کو پریشان محسوس کر رہی تھیں مگر مما کے کریدنے پہ بھی انہوں نے کچھ بتا کر نہیں دیا تھا، سوائے اس کے کہ آفیشل پرابلم ہے۔
وہ پچھلے کئی دنوں سے بہت پریشان تھے اور اپنا اضطراب ظاہر کرنے سے گریزاں تھے۔ مگر یہ بھی صحیح تھا کہ ان کی پریشانی ان کی ہر ادا سے چھلکتی تھی۔ وہ راتوں کو سوچیں پال رہے تھے۔ ناشتہ کھانا معمول سے کہیں کم ہو کر رہ گیا تھا۔ گم سم اپنی سوچوں میں کھوئے ہوئے۔ کوئی ان سے بات کرتا تو وہ یوں بڑبڑاتے۔ غرض وہ پریشان تھے اور پریشانی کی نوعیت بہت سنگین تھی۔
یہ اندازہ ان کو سمجھنے والا بآسانی لگا سکتا تھا۔
”میں دیکھوں اندر جا کے…؟ شاید پاپا کی طبیعت ٹھیک نہ ہو…؟“
فضہ کی بے چینی عروج پہ جا پہنچی۔ ایمان نے اُسے گھور کر دیکھا تھا۔
”ماما کے آنے کا تو انتظار کرو۔ صبر تو تم میں ہے ہی نہیں۔ “
وہ اطمینان سے کبابوں سے انصاف کر رہی تھی۔ فضہ گہرا سانس کھینچ کر رہ گئی۔
مگر جب خاصی دیر تک ماما بھی باہر نہیں آئیں تو فضہ کا ضبط جواب دینے لگا۔ وہ اُٹھی تھی اور آہستگی سے چلتی اندرونی حصے کی جانب بڑھ گئی۔ ایمان کی پکار کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ ایمان کو اس کی اس بے اعتنائی پہ غصہ سا آیا تھا مگر کاندھے اُچکا کر وہ اپنے گو د میں رکھے سیل فون کی سمت متوجہ ہو گئی جس پہ اس کی فرینڈ نیہاں کا میسج آرہا تھا۔ نیہاں اس سے کل کالج آنے یا نہ آنے کے متعلق پوچھ رہی تھی۔
وہ اُسے جواب لکھنے بیٹھ گئی۔
”میں نہیں آؤ ں گی تم بھی مت جانا۔“
”کیوں…؟ کل تم ڈولی چڑھ رہی ہو کیا…؟آرام سے چلی آؤ ورنہ اغواء کروا لوں گی۔“
نیہاں نے اگلے ہی لمحے پھر لتاڑ بھرا میسج بھیج دیا۔ وہ پڑھ کر مسکرانے لگی۔
”بے چین روح ہو تم…! بہر حال ڈولی نہ بھی چڑھنا ہو، میں نہیں آرہی۔ ہمیں ایگزیم کی تیاری کے لئے کہا گیا ہے، پھر کالج جاکے جھک مارنے کی کیا ضرورت ہے …؟“
”اور گھر پہ میوزک سن کر، موویز دیکھ کر مردوں سے شرط باندھ کر سو کر تم جتنی پڑھائی کر رہی ہو۔
مجھے سب پتا ہے۔“
نیہاں نے اُسے کال کر لی تھی اور اب برس رہی تھی۔ وہ جواباً ہنسنے لگی۔
”تمہیں تو پتا ہے تھوڑا بہت پڑھ کر بھی ٹاپ کر لیتی ہوں، تمہاری طرح کوڑھ مغز نہیں ہوں۔“
”بکو مت…! مجھے اشعر سے ملنا ہے۔ بس تم آرہی ہو۔“
نیہاں کے لہجے میں دھونس بھری تڑی تھی وہ چلبلا اُٹھی۔
پھر تو ہرگز نہیں آؤں گی۔ سخت زہر لگتا ہے مجھے تمہارا وہ مائیکل جیکسن…؟“
اُسے سوکھا سڑا، بانس سا اشعر، ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، مگر نیہاں اس سے زیادہ اس کی شاعری پر ریج گئی تھی۔
اشعر کا دعویٰ تھا وہ آنے والے وقتوں میں بہت بڑا شاعر بننے والا ہے۔
”بکواس مت کرو…! خبردار جو اُسے کچھ کہا ہو تو…؟“
نیہاں حسب توقع بھڑک اُٹھی۔ وہ زور زور سے ہنسنے لگی اُسے چڑا کر ایمان کو ہمیشہ ہی بہت لطف آیا کرتا تھا۔
”اگر تمہاری یہ فضول گوئی ختم ہو گئی ہو تو میری بھی سن لو…!“
فضہ تقریباً پچھلے پانچ منٹ سے اس کے سامنے کھڑی گویا اس کی توجہ کی منتظر تھی۔
بالآخر تلخی سے بولی۔ ایمان نے ایک نگاہ غلط انداز سے ڈالی اور گفتگو کو سمیٹنے کی غرض سے بولی تھی۔
”اوکے نیہاں…! میں چلوں گی تمہارے ساتھ کل کالج، کیا یاد کرو گی…؟ کس سخی سے پالا پڑا ہے۔“
انداز احسان جتلانے والا تھا۔ نیہاں کھی کھی کرنے لگی۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے کل کالج جانے کی…؟“
فضہ نے اُسے سیل فون ٹیبل پہ رکھتے دیکھ کر کسی قدر تلخی سے کہا تو ایمان نے چونک کر اُس کی صورت دیکھی جہاں خفگی کے ساتھ تلخی وپریشانی کا عکس بھی بہت واضح تھا۔
”غصہ کس بات پہ آرہا ہے…؟ ماما نے ڈانٹ تو نہیں دیا…؟ میں نے منع بھی کیا تھا۔ انتہائی غیر معقول حرکت کی مرتکب ہوئی ہو، میاں بیوی کی پر سنل گفتگو کو سننے کی کوشش میں…؟“
وہ اس غیر سنجیدگی سمیت مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائے شرارتی انداز میں کہہ رہی تھی۔ فضہ نے بہت جھلا ہٹ آمیز نظروں سے اُسے گھورا تھا۔
”فارگاڈسیک…! ایمان…! کبھی تو سنجیدہ بھی ہو جایا کرو۔
“
اس نے جیسے ماتھا پیٹ لیاتھا۔ ایمان نے منہ بنا لیا۔
”کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے آخر…؟ کچھ بتاؤ بھی … ؟“
”پہاڑ تو واقعی ہی ٹوٹا ہے۔ اب جو بیتے گی وہ مجھ پر، اکیلی پہ نہیں بیتے گی۔ ماما کا موڈ سخت آف ہے۔“
”تم سسپنس پھیلانا موقوف کرو اورمجھے اصل بات بتاؤ…!“
ایمان نے اب کی مرتبہ اُسے ٹوک دیا تھا۔ فضہ نے ایک ملول قسم کی سانس بھری پھر آہستگی سے بولتی تھی۔
”پاپا کو بزنس میں کسی پریشانی کا سامنا ہے۔ زیادہ تفصیلی مسائل تو شیئر نہیں کئے ہم سے، بس یہ کہہ رہے ہیں، ہم لوگ ماما سمیت گاؤں چلے جائیں اور کچھ عرصہ وہیں رہیں۔ “
”واٹ…؟ گاؤں کیوں…؟“
وہ زور سے چیخی تھی۔
”پتہ نہیں…! مجھے جتنا معلوم ہو سکا، تمہیں بتا دیا ہے۔ ماما بہت اَپ سیٹ ہیں۔ مجھے تو پاپا نے بلاکر اپنی پیکنگ وغیرہ کرنے کا کہا ہے، کل ہمیں یہاں سے جانا ہوگا۔
“
فضہ بتا رہی تھی اور ایمان کے اندر بھونچال سے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
”ایسی کون سی قیامت آگئی ہے آخر کہ ہم یہاں نہیں رہ سکتے…؟تاؤ جی کے گھرکیوں رہیں ہم آخر…؟ امپاسبل…! میں خود پاپا سے بات کرتی ہوں۔ “
وہ تن فن کرتی اُٹھ گئی تھی۔ مگر پاپا سے بات کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ وہ صورت سے ہی اتنے پریشان لگ رہے تھے کہ وہ کچھ اور اُلجھ گئی تھی۔
مختلف سوال پوچھ ڈالے جن کے آدھے اُدھورے غیر مطمئن جواب ملے تھے۔ وہ ذہنی خلجان کا شکار ہونے لگی۔
”آپ جانتے ہیں پاپا…! میرے لئے وہاں رہنا کس قدر دُشوار ہوگا…؟“
وہ اُداس سی ہونے لگی تھی۔
”آئی نو بیٹا…! مگر میں کوشش کروں گا حالات جلدی سنبھال سکوں۔ پھر میں آپ کو واپس بلا لوں گا۔“
انہوں نے اپنی بے حد چہیتی بیٹی کو ایک ایسی تسلی دی جس پر انہیں خود بھی یقین نہیں تھا۔
”میری اسٹڈی بہت متاثر ہوگی۔ میں وہاں پڑھ نہیں پاؤں گی۔ تاؤ جی کے گھر کا ماحول بہت اَن کنفرٹیبل ہے۔“
اس کے پاس لا تعداد جواز تھے۔
”بیٹا…! ابھی آپ کالج سے فری ہو۔ ایگزیم کے دنوں میں آپ کو شہر بلوا لوں گا۔ “
انہوں نے پھر اُسے ڈھارس دی تھی۔
”اپنے پاپا کی مجبوری کا خیال کرو بیٹا…! پاپا آل ریڈی بہت اَپ سیٹ ہیں۔
پلیز…!“
انہوں نے جتنی ہمت سے یہ بات کہی تھی، پھر بھی وہ ان سے سخت خفا ہوگئی تھی۔ رات بھی اس نے کھانا نہیں کھایا تھا اور اب ناشتہ کرنے کو بھی نیچے اُتر کر نہیں آئی۔ حالانکہ پاپا نے ملازمہ کو بھیجا تھا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔“
اس نے نروٹھے پن سے کہہ دیا تھا۔ اس کا خیال تھا پاپا ہمیشہ کی طرح اُسے منانے آئیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کی خفگی کچھ اور بڑھ گئی تھی۔
###