Episode 4 - Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 4 - شہرِ دل - اُمِّ مریم

نازنین اور ارتضیٰ شاہ کی محبت کی شادی تھی۔ ارتضیٰ شاہ گاؤں کا سادہ مزاج سا لڑکا تھا جسے اپنی اسی سادگی کی بنا پر اپنی بے پناہ وجاہت اور خوب صورتی تک کا بھی احساس نہیں تھا مگر نازنین کو اس کی یہی خوبروئی بھا گئی تھی۔ ارتضیٰ کی سمت پہلا قدم اُسی نے بڑھایا تھا اور پھر یہ فاصلے مٹتے چلے گئے تھے دونوں کی تعلیم مکمل ہوئی تو محبت اس انتہا پہ جا پہنچی تھی جہاں جدائی کا تصور بہت جان لیوا ہوا کرتا ہے۔
نازنین کسی بھی قیمت پہ ارتضیٰ کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ بہت زیادہ امیر نہیں تھے، مگر کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ 
”تم اپنے پیرنٹس کو بھیجو میرے گھر…!“
نازنین کے اصرار پہ ارتضیٰ نے جھجکتے ہوئے اماں پہ اپنی پسند ظاہر کی تھی۔

(جاری ہے)

اور اماں جو اپنی بھانجی کے لئے سوچے بیٹھی تھیں، اتنا گھبرائیں کہ رونے بیٹھ گئیں۔

ایسے میں بھابھو آگے بڑھیں تھیں ان کی مدد کو۔ بھابھو جو اماں کی بھانجی اور ناہید کی بڑی بہن تھیں۔ 
”پریشان مت ہو اماں…! اماں کو میں سمجھا لوں گی۔ ارتضیٰ پڑھ لکھ گیا ہے، اُسے لڑکی بھی اس کے مطابق کی سجے گی۔ “
”یہ کیا بات ہوئی…؟ میں نے تو ناہید…“
”اماں…! ہمیں اپنے بچوں کی خوشی کا خیال رکھنا چاہئے۔ ناہید کے لئے بھی ربّ سوہنا کوئی بہتر فیصلہ ہی کرے گا۔
وہ معاملہ جو گھمبیر ہو سکتا تھا، بھابھو کی نرم طبیعت اور معاملہ فہمی کی بنا پر چٹکیوں میں حل ہوگیا۔ 
”بہت شکریہ بھابھو…! میں آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔ “
ارتضیٰ واقعی بہت مشکور ہوگئے تھے۔ بھابھو گود میں کھیلتے ولید کو کاندھے سے لگا کر تھپکتے ہوتے ہنس پڑیں۔
”کملے…! شکریہ تو غیروں کا ادا کیا جاتا ہے۔ ہم تو تیرے اپنے ہیں۔
اور انہوں نے یہ بات محض کہی نہیں تھی، نبھاکے بھی دکھا دی تھی۔ ارتضیٰ کو اکثر ایسا لگتا، جیسے بھابھو مصطفی بھائی سے بھی زیادہ ان سب سے محبت کرتی ہیں۔ مصطفی بھائی تو سارا دن کھیتوں پہ گزارتے تھے۔ بھابو ہی اماں اور ابے کے ساتھ پیار کرتی اور جس طرح کا ان کا سلوک تھا دونوں ہی بہو کی تعریفوں میں رطلب اللسان رہا کرتے تھے۔ ارتضیٰ کی شادی پہ اماں ابے اور بھائی کے ساتھ بھابھو نے بھی دل کھول کر ارمان نکالے تھے مگر نازنین چند دن کے بعد ہی اُکتاگئی تھیں۔
ارتضیٰ سے واپس شہر جانے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ 
”چلیں گے بابا…! ابھی کچھ دن تو یہاں رہو۔ سب کیا سوچیں گے…؟“
ارتضیٰ کے سمجھانے پہ وہ ہتھے سے اُکھڑنے لگی تھیں۔
”کیا سوچیں گے…؟سب کو پتا ہے میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ “
”مگر کچھ دن تو …“
”کچھ دن بھی نہیں…! دیکھو کتنی گرد ہے یہاں۔ مجھے الرجی ہے گرد سے۔ اسکن دیکھو میری، چند دنوں میں کیسی رف ہوگئی ہے۔
ارتضیٰ…! میں تمہاری بھابھو کی طرح گاؤں کی عورت نہیں ہوں جو تین بچوں کے ساتھ جانوروں اور گھر کی بھی دیکھ بھال کرلیتی ہے۔“
نازنین کے لہجے میں حقارت کے ساتھ ساتھ تضحیک بھی در آئی تھی۔ 
ارتضیٰ کو بھابھو کے لئے اس کا یہ لہجہ پسند نہیں آیا تھا اور شادی کے محض پانچویں روز ان کی پہلی لڑائی ہوگئی تھی۔ جس کے نتیجے میں اس وقت بیگ تیار کر کے نازنین جانے کو تیار ہو گئی تھیں۔
 
”یہ کیا کر رہی ہو نازو…! پاگل ہو گئی ہو کیا…؟“
ارتضیٰ صورتِ حال کو بگڑتے دیکھ کر بو کھلا گئے تھے۔ 
”تمہیں مجھ سے زیادہ اپنی بھاوج کا خیال ہے۔ رہو اس کے کھونٹے سے لگ کر۔ “
انہوں نے پھنکار کر کہا تھا۔ ارتضیٰ اس کی بلند آواز پہ بو کھلا گئے اور اُٹھ کر کمرے کی واحد کھلی کھڑکی بند کی۔ 
”آہستہ تو بولو…! وہ اتنی اچھی ہیں۔
تمہیں پتا ہے کہ انہی کی وجہ سے ہماری شادی…“
”کیوں آہستہ بولوں…؟میں تمہاری طرح نہ بزدل ہوں نہ کسی سے ڈرتی ہوں۔ اور ان کا احسان ہوگا کوئی، تو وہ تم پر ہوگا، سمجھے…؟ میں بالکل لحاظ نہیں کروں گی۔ “
وہ پہلے سے زیادہ بلند آواز میں پھنکار پھنکار کر بولیں۔ جس سے یہ ہوا تھا کہ ابے کے ساتھ اماں اور بھابھو نے بھی بہت کچھ سن لیا تھا۔
مگر کسی نے بھی ارتضیٰ سے کچھ نہ کہا۔ اماں نے بہت سبھاؤ سے بات کی تھی اور خوش دلی سے انہیں شہر میں جانے کی اجازت دے کر رخصت کر رہا تھا۔ 
ارتضیٰ کے دل پہ بوجھ تھا۔ شہر میں انہوں نے کاروبار شروع کیا تو پیسے کی ضرورت پیش آئی تھی کہ جس فیکٹری میں وہ منیجر تھے، اس کے اونر کا اچانک انتقال ہوگیا تھا۔ اس کا بیٹا فیکٹری کو اونے پونے بیچ کر خود انگلینڈ جانا چاہ رہا تھا۔
ارتضیٰ چاہتے تھے۔ یہ فیکٹری وہی خرید لیں۔ انہوں نے مصطفی بھائی سے بات کی تو انہوں نے اپنے پاس جمع شدہ پیسہ دے دیا۔ مگر وہ بہت کم تھا۔ بینک سے لون لے کر بھی پوری نہیں پڑ رہی تھی۔ 
تب مصطفی بھائی نے زمینوں سے ان کا حصہ انہیں دے دیا تھا جسے بیچ کر انہوں نے فیکٹری خرید لی تھی۔ پھر تو گزرتے دنوں کے ساتھ ان کے حالات بدلتے چلے گئے تھے اور اسی حساب سے نازنین کا نخرہ بھی۔
خود تو وہ گاؤں جاتی ہی نہیں تھیں، ارتضیٰ شروع شروع میں دونوں بچیوں کے ساتھ چکر لگا آتے۔ 
اماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ ابا کبھی کبھار ایک آدھ دن کو آجاتے مگر نازنین کا روّیہ ایسا تھا کہ ابا تو ابا، مصطفی بھائی اور بھابھو نے بھی آنا بہت کم کر دیا تھا۔ اگر مصطفی بھائی آتے بھی تو ارتضیٰ سے آفس میں ہی مل کر چلے جاتے۔ 
وقت کچھ اور آگے سرک گیا۔
بچے بڑے ہوگئے تھے۔ارتضیٰ اپنی بے تحاشا مصروفیت کے باعث گاؤں کے لئے وقت ہی نہ نکال پاتے۔ مصطفی بھائی موسم کا پھل اور سبزیاں وغیرہ باقاعدگی سے بجھوایا کرتے تو ساتھ میں خالص دیسی گھی، مکئی کا آٹا، ساگ وغیرہ بھی ہوتا۔ نازنین ہر مرتبہ اس سوغات کو پا کر ناک منہ ضرور چڑھایا کرتیں۔ 
”سو بار منع کیا ہے، مت بھیجا کریں۔ مگر عجیب ڈھیٹ لوگ ہیں، باز ہی نہیں آتے۔
”ماما…! کسی کی محبت کو ایسے بے رُخی اور نخوت سے نہیں ٹھکراتے۔ مجھے تو یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے۔ “
فضہ جی جان سے ساری چیزوں کو سنیت کر رکھتے ہوتے کہا کرتی اور ماما کا موڈ سخت آف ہو جاتا کہ ان کی اس بیٹی کا مزاج اور عادتیں بالکل اپنے باپ جیسی تھیں، جیسی تڑپ ان کے اندر تھی اپنے رشتوں کی، ویسی ہی قدر فضہ کے دل میں تھی۔
”تو اب کی بار تمہارے تاؤ لے کر آئیں تو کہہ دینا، اتنا ہی دے کر جایا کریں جتنا تم دونوں باپ بیٹی کھا سکو۔
میں اور ایمی تو منہ بھی نہیں لگاتیں ان فضول چیزوں کو۔ “
وہ رعونت سے کہتیں اور فضہ منہ ہی منہ میں استغفراللہ پڑھنے لگتی۔ اُسے اکثر خوف آتا ماما کے غرور سے۔
”آپ کو کیا پتا یہ ساری چیزیں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔ میری ساری فرینڈز کو ساگ، مکئی کی روٹی، مکھن، گھی اور گنے وغیرہ کتنے پسند ہیں۔ مانگ کر لیتی ہیں مجھ سے۔ میرا تو کئی بار جی چاہا کہ تاؤ جی سے اور زیادہ کی فرمائش کروں۔
وہ شوخی سے آنکھیں نچا کر بولتی تو ماما اُسے گھورتیں ہوئیں اُٹھ جاتیں۔ 
اور اب جبکہ ارتضیٰ نے یہ مژدہ سنا تھا کہ انہیں وہاں جا کے رہنا ہے تو انہیں لگ رہا تھا ان کی انا بُری طرح سے مجروح ہوئی ہے۔ان کا ارتضیٰ سے بڑا زور دار جھگڑا ہوا تھا مگر وہ اپنی ضد اور موقف سے نہیں ہٹے تھے۔ ہار انہیں ہی ماننا پڑی تھی اور اس ہار نے انہیں بہت شکستہ کر ڈالا تھا۔ 
                                    ###

Chapters / Baab of Shehr E Dil By Umme Maryam

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط