وہاں سب نے ان کا بہت پرُتپاک استقبال کیا تھا۔ اتنی سردی کے باوجود تائی ماں نے ان کے لئے کولڈ ڈرنکس کا اہتمام کر رکھا تھا کہ گاؤں میں مہمان کو بوتل پلانا اس کی بہترین ضیافت کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔
”ارے…!نیک بخت…!چائے بنائی ہوتی۔ بچیاں ٹھنڈسے آئی ہیں اور تم پانی پلا رہی ہو…؟“
تاؤ جی کے ٹوکنے پہ تائی ماں ہنس پڑی تھیں۔
”چائے بھی بناتی ہوں۔انڈے اُبلنے کو رکھے ہیں، کیک پیسٹریاں اور بسکٹ نمکو تو میں نے صبح ہی ولی سے منگوالئے تھے۔ شہر سے لایا ہے۔ پیئو پیئو پُتر…! تواڈا اپنا گھر ہے۔ “
تائی ماں، تاؤ جی کو مطمئن کرنے کے بعد محبت بھرے انداز میں فضہ اور ایمان کے سروں پہ ہاتھ پھیر کر لگاوٹ سے بولیں۔ ان کی نگاہوں میں اتنا والہانہ پن تھا،لہجے میں اتنی محبت کہ ایمان تو حیران رہ گئی تھی۔
(جاری ہے)
ان کے چلنے پھرنے، بولنے، ہنسنے کے انداز سے ایک سر خوشی سی چھلکتی تھی۔
”یہ تائی ماں کے ہاتھ کون سا خزانہ لگ گیا ہے بھئی…! اتنی خوش لگتی ہے۔ “
اس نے فضہ کے کان میں گھس کر تبصرہ کیا تو وہ جواباً اُسے گھورکر رہ گی۔
”شرم کرو…! بیچاری خوش ہو رہی ہیں، سادہ لوح ہیں، خوامخواہ شک مت کرو۔ “
فضہ کے گھرکنے پہ اس نے جواباً دانت نکالے تھے اور راز داری سے بولی تھی۔
”مجھے تو کوئی گڑ بڑلگتی ہے۔“
”کیسی گڑ بڑا…؟“
فضہ ٹھٹکی۔ اس نے کاندھے اُچکا دئیے۔
”فی الحال تو کچھ نہیں کہہ سکتی۔ مگر کوئی پس آئینہ حقیقت ضرور چھپی ہے۔ “
اس نے تجسس پھیلایا۔ فضہ نے سر جھٹک دیا۔
”جو ہوگا دیکھا جائے گا۔“
”آہ…! کاش میں بھی ایسی ہی بے حس، لاپرواہ ہوتی۔“
اُسے حقیقتاً فضہ کے سکون نے شک میں مبتلا کرڈالا تھا۔
###
وہ کھانے کے انتظار میں نہیں بیٹھی تھی۔چائے پی اور وہیں سیدھی سیدھی لیٹ کربے خبر ہوگئی۔ تھکان ایسی تھی کہ پھر کچھ ہوش ہی نہ رہا۔اس کی نیند خراب نہ ہو، اسی لئے سب وہاں سے اُٹھ کر دو سرے کمرے میں آگئے تھے۔ ان کی آمد کی اطلاع پہ سب سے پہلے حرا آپا (تاؤ جی کی بیاہتا بیٹی)اُن سے ملنے چلی آئی تھیں۔ خلوص، سادگی، محبت، اپنائیت میں وہ بھی تائی ماں کا ہی عکس تھیں۔
ایسے ملیں گویا ہمیشہ سے میل ملاپ رہا ہو۔ لگتا ہی نہ تھا وہ پہلی بار مل رہی ہیں۔
”بھئی…! ایمان کہاں ہے…؟ اُسے دیکھنے کا تو بھی بہت ہی شوق ہے۔“
انہوں نے فوراً اس کی کمی کو محسوس کر لیا تھا۔
”وہ اندر سو رہی ہے۔ تھوڑا نازک مزاج ہے، تھک گئی ہے۔“
فضہ ہنس کر بتا رہی تھی پھر جیسے کسی خیال کے تحت چونک کر گویا ہوئی تھی۔
”آپ ہمارے نام بھی جانتی ہیں۔ جبکہ ہم پہلی بار مل رہے ہیں۔
حرا آپی اس کی بات پہ محظوظ ہوتی تھیں۔ پھر نرمی سے جواباً بولیں۔
”چاچو اکثر تم دونوں کا ذکر کرتے رہتے تھے جب بھی آتے،بلکہ دو سال پہلے جب وہ آخری بار ہم سے ملنے آئے، تب تم سب لوگوں کی تصویریں بھی لے کر آئے تھے، جو اب بھی ہم نے بہت سنبھال کر رکھی ہیں۔“
”اور شکر ہے وہ صرف تصویریں ہی ہیں ورنہ اگر آپ ہوتیں تو یہ شاید آپ پہ بھی قبضہ جمانے کا سوچتیں۔
“
عاقب حسن ہنستا ہوا اندر آیا تھا۔ فضہ نے اپنا ڈھلکتا ہوا۔ آنچل سرعت سے سنبھالا اور کسی قدر جھینپ گئی۔
”کوئی بات نہیں…! تب نہ سہی، ہم اب جو ان پہ قبضہ جمانے والے ہیں۔“
حرا آپی کے لہجے میں محسوس کی جانے والی ذومعنیت تھی۔ فضہ چونک کر رہ گئی۔ اُسے عاقب کی گرم نگاہوں کا احساس بہت شدت سے ہوا تھا۔
”ضروری تو نہیں ہے یہ قبضہ پسند بھی آئے …؟“
وہ سنبھل کر چائے کی سمت متوجہ ہو گیا۔
فضہ کا دم اس معنی خیزقسم کی گفتگو میں کسی قدر اُلجھا۔
”بھئی…! زبردستی کے نہیں، ہم بھی محبت کے قائل ہیں، ڈونٹ وری…!“
حرا آپی کے لہجے میں اطمینان تھا۔ تبھی جینز اور شرٹس میں ملبوس دو لمبے تڑنگے لڑکے ایک دم اندر چلے آئے۔ مگر فضہ اور ماما پہ نگاہ پڑتے ہی وہ دونوں قدرے چونکے تھے۔
”السلام علیکم…! میں اشعر ہوں، آپ کے تاؤ جی کا چھوٹا بیٹا۔
اور یہ ولید بھائی ہیں، مجھ سے بڑے اور عاقب بھائی سے چھوٹے۔“
”سیدھی طرح کہو منجلے…!“
فضہ نے بے تکلفی سے سلام کا جواب دے کر ہنستے ہوئے کہا تو جہاں اشعر خوشگوار قسم کی حیرت کا شکار ہوا تھا، وہاں ولید نے کسی قدر چونک کر بغور اس کی صورت دیکھی تھی اور اس کی متلاشی نگاہ لمحہ بھر میں پورے کمرے میں کسی کی کھوج میں بھٹک کر واپس جھک گئی، ایک عجیب سی نامرادی کے احساس کے ساتھ۔
فضہ نے بہت گہری نگاہوں سمیت اس کی آنکھوں کے بجھے دیوں کا یہ منظر دیکھا تھا اور کچھ اُلجھ سی گئی۔
”آپ کیسے ہو ولید حسن…؟ سنا ہے آپ نے ……… کر رہے ہیں…؟ آنے والے وقتوں میں پاکستان کی تاریخ کو دُہراتے ہوئے ملک کی باگ دوڑ آپ کے ہاتھ میں نہ آجائے،اس لئے ہم تو بھئی…! ابھی سے آپ سے بنا کر رکھنے کا سوچ چکے ہیں۔“
وہ ہنس رہی تھی۔
انداز کی اپنائیت اور بے تکلفی بامعنی تھی۔ ولید کے اعصاب کو دھچکا سا لگا۔ اس نے ایک بار پھر بہت دھیان سے فضہ کو دیکھا تھا۔
”بے فکر رہیے…! میرا آرمی میں نہیں پولیس میں جانے کا ارادہ ہے۔ اور پاکستان کی تاریخ میں فی الحال پولیس کی اتنی ترقی کا کہیں تذکرہ نہیں ہے۔ “
جو اباً اس کا لہجہ شائستہ اور دھیما تھا۔ فضہ محظوظ ہونے والے انداز میں ہنسنے لگی جس میں اس نے ہلکی سے مسکراہٹ کا ہی حصہ ڈالا تھا اور ماما کی سمت متوجہ ہو کر حال احوال دریافت کرنے لگا۔
پرُاثر، دھیما، اتنا گھمبیر اور متاثر کن لہجہ، اس پہ اس کی غضب کی مردانہ وجاہت۔ فضہ کی ہی نہیں، ماما کی نظروں سے بھی اس کے لئے پسندیدگی جھلک رہی تھی بلکہ وہ اس کی قابلیت کے بارے میں جان کر واضح طور پہ ایمپریس نظر آرہی تھیں۔ وہ مختصر سی بات چیت کے بعد کمرے سے چلا گیا تھا۔
”ماشاء اللہ…! بھابھو…! آپ کے تینوں بچے ہی بہت قابل ہیں۔
“
ماما کے لہجے میں حقیقی ستائش تھی۔
”اللہ کا احسان ہے…! اس کی عطا ہے۔“
تائی ماں کی انکساری کا وہی عالم تھا۔
ولید اپنے کمرے میں آیا تو پہلے ہی قدم پہ ٹھٹک کر رہ گیا۔ وہ بہت گہری، پرُ سکون نیند کی آغوش میں تھی۔ چھوٹے چھوٹے زرد پھولوں والا آف وائٹ اور خوب صورت سی لیس سے مزین زرد کلر کے ہاف سلیو بلاؤز میں اس کا معصومیت بھرا نوخیز سراپا مدہم اندھیرے میں بھی جگمگا رہا تھا۔
دراز خمیدہ پلکوں کی جھالریں شہابی رُخساروں پہ ساکن تھیں۔ لانبے گھنیرے سیاہ سلگتے بال بستر پہ بہت دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ وہ تو ایک نگاہ ڈال کر پچھتایا تھا کہ نگاہیں اس کے سراپے میں اُلجھ کر رہ گئی تھیں۔ مگر کسی مدھر کھنکار پہ وہ چونک کر متوجہ ہوا اور حرا آپا کو دیکھ کر بے تحاشا مضمحل ہوگیا۔
”مجھے نہیں پتا تھا کہ یہاں بھئی …“
”میرے کمرے میں کیوں سلا دیا انہیں…؟“
ایک فقرے کو اُدھورا چھوڑ کر وہ دوسرے کو بمشکل مکمل کر پایا۔ انداز میں صاف کترایا پن تھا۔
”میں اُسے ہی جگانے آئی ہوں، جب سے آئی ہے، سو رہی ہے، کھانا بھی نہیں کھایا۔“
آپی کی مسکان گہری ہو گئی تھی۔ وہ بولتی ہو ئیں آگے بڑھ کر ایمان کے بال سہلا کر اُسے جگانے لگیں۔
”ٹھیک ہے…! جگائیں انہیں، کھانا بھی کھلائیں، مگر براہِ کرم آئندہ انہیں یہ بھی بتا دیجئے کہ یہ میرا کمرہ ہے۔“
اُسے ان کی معنی خیز قسم کی مسکراہٹ نے جو تلخی بخشی تھی، اُسے بھلا کر وہ کمرے سے نکل گیا۔ آپا نے جیسے اس کی بات پہ کان ہی نہیں دھرا تھا اور دھیرے سے ایمان کو جگانے لگیں۔
###