اشعر کے انتظار سے اُکتا کر وہ نیچے چلی آئی۔ وہ آج معمول سے زیادہ لیٹ ہو چکا تھا۔ فضہ کچن میں تائی ماں کے ساتھ بیٹھیں چاول صاف کرنے میں مصروف تھی۔ اس نے جھانکا اور دلچسپی لئے بغیر آگے بڑھ گئی۔
ولید کے کمرے کے آگے سے گزرتے ہوئے اسے کمپیوٹر کا خیال آیا تھا۔ بنا کچھ سوچے سمجھے اس کے کمرے میں گھس گئی۔ کمرہ سادگی و نفاست کا مظہر تھا۔
وہ عاقب اور اشعر کے کمرے میں جا چکی تھی مگر دونوں ہی پھیلاوہ پھیلانے کے عادی تھے۔ چائے کے خالی مگ فرش پر لڑھک رہے ہوتے، کتابیں بے ترتیب، بستر کی چادر آدھی سے زیادہ فرش پرلٹکی ہوئی، مگر اس کا کمرہ بے ترتیب نہیں تھا۔ فضا میں اس کی مخصوص مہک کا احساس قائم تھا۔ یوں جیسے وہ ابھی ابھی وہاں سے نکلا ہو۔
وہ سرسری سا جائزہ لے کر لیپ ٹاپ کے آگے آبیٹھی۔
(جاری ہے)
کچھ دیر تک نیہاں سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر وہ آن لائن نہیں تھی۔ اس نے گہرا سانس کھینچ کر لیپ ٹاپ بند کر دیا اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔ تب اس کی نگاہ بک شیلف پہ جا پڑی تھی۔ وہ بے اختیار ہو کر شیلف کے نزدیک آئی۔ تمام بڑے مصنفوں کی کتابوں کا بہترین ذخیرہ موجود تھا۔ وہ ایک ایک کرکے کتابیں دیکھتی چلی گئی۔
”مجھے تم یاد آتے ہو“
فرحت عباس شاہ کی بک گو کہ وہ پہلے بھی پڑھ چکی تھی مگر پھر سے پڑھنے کا بھی اپنا لطف تھا۔
اس نے جلد نکال لی۔ پھر مزید کچھ کتابیں منتخب کرنا چاہ رہی تھی کہ نگاہ سیاہ مخملیں جلد کی ڈائری پہ آکر تھم گئی۔ اس نے کچھ تجسس کے عالم میں ڈائری اُٹھا لی تھی۔ پہلا صفحہ ہی توجہ حاصل کر گیا تھا۔
میرے بے خبر تجھے کیا خبر
میری زندگی کا ہر ایک پل
تیری آرزو ، تیری جستجو
میری جیت تو، میری ہار تو
میرے بے خبر، تجھے کیا خبر
تیری ذات ہی وہ نصاب ہے
جسے پڑھنا میرا خواب ہے
جو میرے لئے سراب ہے
میرے بے خبر، میری بات سن
میری پلکوں سے میرے خواب چن
میری چاہتیں اور عنایتیں
تیرے نام تھیں تیرے نام ہیں
میرے دل کی ساری دھڑکنیں
بنا تیرے مجھ پر محال ہیں
میرے بے خبر
میرے بے خبر
اس کے چہرے پہ بے ساختہ مسکراہٹ بکھر گئی۔
”گویا ”مسٹر چپ شاہ“ بھی محبت کے مریض نکلے…؟“
اس کا تجسس بے تحاشا بڑھ گیا۔ ڈائری میں یقینا اس لڑکی کا بھی ذکر ہوگا اسے دیکھنا چاہتے؟
ابھی وہ یہ فیصلہ نہیں کر پائی تھی کہ دروازہ کھول کر ولید حسن مالکانہ انداز کی مخصوص بے تکلفی سمیت اندر چلا آیا۔ اُسے سامنے پاکر وہ ایک دم ٹھٹکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اپنی پرسنل ڈائری کی موجودگی نے یکایک اُس کے چہرے اور آنکھوں سے حیرت کو اُچک کر غم وغصہ اور تلخی میں بدل دیا۔
”کیا کر رہی ہیں آپ یہاں…؟“
وہ اس کے سر پہ پہنچ کر غرایا تھا۔ ایمان ایک دم سے سٹپٹا سی گئی۔ بہرحال وہ ایک غیر اخلاقی حرکت کی مرتکب ہوئی تھی اور ان کے ہاتھوں پکڑی بھی جا چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا اعتماد ایک دم سے زائل ہوگیا تھا۔
ڈائری عجلت میں واپس رکھنے کی کوشش میں اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ وہ کچھ بدحواس ہو کر اُٹھانے کو جھکی مگر اگلا لمحہ اُسے ششدر کر دینے کو کافی ثابت ہوا تھا۔
ڈائری کی جلد سے چند تصویریں پھیل کر کارپٹ پہ بکھر گئی تھیں۔ تینوں کی تینوں تصویریں ایمان کی اپنی تصویریں تھیں۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے غیر یقینی کے عالم میں اپنی تصویریں دیکھ رہی تھی۔
###
”یہ… یہ میری تصویریں…؟“
وہ جھٹکے سے سیدھی ہوئی۔ حیرانی کی جگہ غم و غصّے نے لے لی تھی۔
دوسری جانب ولید حسن کا چہرہ بھی بے تحاشا سرخ تھا۔ اس سرخی کی وجہ وہ سمجھنے سے قاصر رہی تھی۔ البتہ ناگواری کا احساس برقی رو بن کر پورے وجود میں سرایت کرتا چلا گیا تھا۔
”آپ کیا سمجھ رہی ہیں یہ تصویریں میں نے آپ کے دیدار کی خاطر ڈائری میں محفوظ کی ہوئی ہوں گی…؟ محترمہ…! کسی خوش فہمی کو دل میں جگہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ کل پرسوں تک یہ اشعر کے پاس تھیں۔
وہ یہاں رکھ کر بھول گیا ہوگا۔ اتنی خوب صورت نہیں ہیں آپ کہ میں آپ کے عشق میں مبتلا پھر رہا ہوں…؟ نہ ہی میرا دماغ اتنا ستیایا ہوا ہے کہ میں…“
”شٹ اَپ…! جسٹ شٹ اَپ…!“
زہر میں بجھے ہوئے تیر کسی قدر تلخ، بھڑکے ہوئے لہجے میں وہ اس کی سماعتوں میں اُتار رہا تھا کہ وہ اس کی بات کاٹ کر حلق کے بل چیخ پڑی۔ احساسِ توہین نے گویا اُسے یکلخت کسی جلتے الاؤ میں پٹخ دیا تھا۔
”میں نے آپ سے کوئی وضاحت نہیں مانگی۔ سمجھے آپ…؟“
وہ اسی ہیجان زدہ آواز میں پھنکاری تو ولید حسن ایک لمحے کو لاجواب سا ہو گیا۔ اُسے خود بھی ایک لمحے کو سہی، اپنا اتنا شدید ردِعمل فضول محسوس ہوا تھا مگر پھر سر جھٹک کر اس پہ ایک دہکتی نگاہ ڈالی تھی۔
”آپ کو میرے کمرے میں آنے کی جرأت کیسے ہوئی…؟مجھے ہر گز کسی ایرے غیرے کا انٹر فےئرہونا پسند نہیں ہے۔
“
”یہ غلطی بہرحال مجھ سے ہوئی جس کے لئے شاید میں کبھی خود کو معاف نہ کروں۔ ایکسکیوزمی…!“
وہ اس کی سائیڈ سے کترا کر نکل رہی تھی جب ولید نے جھک کر کارپٹ پہ گری تصویریں اُٹھا کر اس کی سمت اُچھالیں۔
”انہیں بھی لیتی جائیے…! میرے کمرے میں بہرحال ان کی گنجائش نہیں ہے“۔
ایمان نے اپنے پیچھے اس کی پھنکارتی آواز سنی تھی مگر اُسے بنا سنے سرعت سے باہر نکلتی چلی گئی۔
اپنے کمرے میں آئی تو اس کے چہرے اور آنکھوں سے گویا بھاپ نکل رہی تھی۔
”اتنی انسلٹ…؟ اتنی تو میں…“
اس کا جی چاہا فی الفور وہاں سے بھاگ جائے۔ مگر بے بسی سی بے بسی تھی، آنسو بند توڑ کر بہہ نکلے تھے۔ اتنا رونے کے باوجود جب دل کا غبار نہیں دُھلا تو بنا سوچے سمجھے گھر سے نکل آئی۔
گنے کی فصل کے ساتھ جو پگ ڈنڈی تھی،اس پہ چلنے لگی۔
کھیتوں کا سلسلہ ختم ہوا تو کچی سٹرک کے بعد نہر کا کنارہ آگیا۔ سر سبز درختوں کی قطاریں دُور تک جا رہی تھیں۔اس کا دل بوجھل تھا۔ اتنی معمولی سی بات پہ ولید نے اتناٹیمپر لوز کیا تھا۔ وہ سوچ سوچ کر تپتی رہی۔ دماغ میں جیسے دُھواں بھرتا جارہا تھا۔
نہر کا کنارہ ویران تھا۔ کسی درخت پہ بیٹھی کوئل کی کوک وقفے وقفے سے فضا میں گونجتی تو اس کی سوچوں کا تسلسل بکھر جاتا۔
ہر بار چونکنے پہ آنکھوں میں نمی کا احساس ہوتا۔ وہ مسلسل رو رہی تھی۔ آج سے قبل کسی نے کبھی اتنی توہین کب کی تھی…؟
وہاں بیٹھے جانے کتنی دیر گزری تھی، ڈوبتے سورج کا عکس نہر کے پانی کا رنگ تبدیل کرنے لگا۔ تب وہ چونکی۔ یہاں مزید ٹھہرنا ممکن نہ تھا۔ نہر کے ساتھ موجود کچی سڑک پہ اب کھیتوں میں کام کرنے والے تھکے ہارے کسانوں کی واپسی کا عمل شروع ہو چکا تھا۔
اس کے پاس سے گزرتے دیہاتیوں کی نگاہوں میں استعجاب و تجسس اور دلچسپی تھی۔
جینز شرٹ میں ملبوس فیشن ایبل لڑکی گویا مفت کی تفریح کا سامان تھی۔ وہ احساس ہوتے ہی گھبرا کر جلدی سے اُٹھ گئی۔ غصے میں وہ شال اوڑھے بغیر نکل آئی تھی۔اب اس پہ اُٹھنے والی نگاہوں میں جو تھا، وہ مضطرب کر دینے کو کافی تھا۔ گھر جانا انا کو منظور نہیں تھا، مگر اس کے سوا چارہ بھی کیا تھا…؟
”مجھے پاپا کو فون کرنا چاہئے…!“
اس نے سوچا۔
”مگر وہ مجھے کبھی نہیں لے جائیں گے۔“
اگلے ہی لمحے خود اپنی ہی سوچ رد بھی کر دی۔