”مجھے ہر گز یہاں نہیں رہنا۔میں نیہاں سے بات کرتی ہوں۔چاہے اس کے گھر رہوں، چاہے ہاسٹل میں، یہاں سے جانا ہے۔“
وہ فیصلہ کرکے ہی گھر واپس آئی تھی مگر ابھی گھر سے کچھ فاصلے پہ تھی جب تیزی سے ولید اپنی سمت آتا نظر آیا۔ اس نے یوں سرعت سے نگاہ کا زاویہ بدلا جیسے غلطی سے کسی حرام شے پہ جا پڑی ہو۔
”کہاں تھیں آپ…؟ گھر والوں کی پریشانی کا بھی کچھ اندازہ ہے آپ کو…؟“
وہ نزدیک آتے ہی برس پڑا تھا۔
ایمان کا دماغ اس لعن طعن پہ اُلٹ کر رہ گیا۔
”شٹ اَپ…! تم ہوتے کون ہو مجھ سے یہ سوال کرنے والے…؟ اپنا راستہ ناپو۔ سمجھے…؟“
اس نے بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے، اپنی طرف سے اس کا منہ توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اور اس کے تاثرات دیکھے بغیر بھاگتی ہوئی گھر کے اندر گھس گئی۔
(جاری ہے)
مگر پہلے ہی مرحلے پہ گویا چکرا کر رہ گئی۔
ماما صحن میں ہی چارپائی پہ بیٹھی تھیں۔
تائی ماں ان کے ہاتھ پکڑے پتا نہیں کس بات پہ تسلی سے نواز رہی تھیں۔ فضہ برآمدے کے ستون سے ٹیک لگائے پریشان نظر آئی تھی۔ مگر اس پہ نگاہ پڑتے ہی تینوں ایک ساتھ اس کی سمت لپکیں تھیں۔ ماما تو اسے گلے لگا کر زور زور سے رونے لگی تھیں۔
وہ کسی قدر حراساں ہوگئی اور اس وحشت بھرے انداز میں ان کے ہاتھ جھٹک کر الگ ہوتے ہوئے بے چینی سے بولی۔
”کیا ہوا ماما…؟ آپ رو کیوں رہی ہیں…؟“
تمہاری وجہ سے…! کہا ں چلی گئیں تھیں تم…؟“
جواب ماما کی بجائے فضہ نے دیا تھا اور اس کا موڈ یکایک بگڑ گیا۔
”حد ہوگئی…! میں کوئی بچی تھی جو گم ہو جاتی…؟ماما…!آپ کے سامنے کھڑی ہوں۔ فار گاڈ سیک…! چپ تو کریں۔“
اس کے لہجے میں برہمی و تلخی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ فضہ ایک نظر اُسے دیکھ کر رہ گی۔
”آخر گئی کہاں تھیں تم…؟ بتانا تو چاہیے تھا…؟ نئی جگہ ہے، ہم تو تمہیں گھر میں نہ پا کے اتنے پریشان ہو گئے تھے۔ عاقب، اشعر اور ولید تمہیں ڈھونڈنے نکلے ہوئے تھے۔“
فضہ کی بات پہ اُسے آگ سی لگ گئی تھی۔ اس نے شعلہ بار نظروں سے موبائل پہ مصروف ولید کو دیکھا تھا اور طنز میں لپٹے سرد لہجے میں پھنکار کر بولی تھی۔
”یہی تو پوچھ رہی ہوں، کیوں ڈھونڈنے نکلے وہ مجھے…؟ اور خاص طور پہ یہ…؟ لگتے کیا ہیں یہ میرے…؟“
اس نے اُنگلی اُٹھا کر ولید کی سمت اشارہ کیا۔
انداز میں حقارت کا عنصر نمایاں تھا۔ فضہ کا تو شرمندگی و خجالت سے سر نہ اُٹھ سکا۔
”ایک تو بیچارے اس کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے اور یہ…“
اس نے دانت پیسے۔
”ایمی…! بدتمیزی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ بہت بڑے میں ولید بھائی تم سے۔“
فضہ نے ڈانٹا۔ اور وہ آپے سے باہر ہونے لگی۔
”میرا کوئی تعلق نہیں ہے کسی بھی فضول آدمی سے، سمجھیں تم…؟ اور میں جا رہی ہوں، ابھی اور اسی وقت، کسی کو میری تلاش میں نکلنے کی ضرورت نہیں…!“
ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہتی وہ ایک جھٹکے سے سیڑھیاں چڑھتی اُوپر چلی گئی۔
وہ سب ششدر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے، سوائے ولید کے۔ وہ لب بھینچے، سر جھکائے کھڑا تھا۔
”اس کا دماغ خراب ہو رہا ہے اور کوئی بات نہیں ہے۔ ابھی جا کے پوچھتی ہوں اُسے تو میں۔“
فضہ بھڑکے ہوئے انداز میں کہہ کر سیڑھیوں کی سمت لپکی تھی کہ کچھ خیال آنے پہ بے اختیار رُک گئی اور خفت بھرے انداز میں ولید حسن کو دیکھا تھا جو ہنوز ہونٹ بھینچے، سر جھکائے کھڑا گویا کسی سوچ میں گم تھا۔
”آئی ایم سوری ولید…! اس کی طرف سے میں آپ سے ایکسکیوز…“
”پلیز…! پلیز فضہ…! شرمندہ مت کریں اور ایمان کو بھی ڈانٹنے کی ضرورت نہیں۔ وہ آل ریڈی اَپ سیٹ ہے۔“
اس نے کسی قدر جھجکتے ہوئے دوسرا فقرہ مکمل کیا تھا۔ فضہ کی خفت مزید بڑھ گئی۔
”آپ سب لوگ بہت اچھے ہو، مگر وہ …“
اس کی آواز آنسوؤں کے بوجھ سے نم ہوگئی۔
ولید نے ایک نظر اُسے دیکھا تھا پھر آگے بڑھ کر نرمی سے اس کا سر تھپکا۔
”سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایمان کو بھی میں سمجھا دوں گا۔“
”مگر وہ پتا نہیں کیا ٹھان بیٹھی ہے…؟ ضدی بہت ہے۔ اب پتا نہیں کہاں جانے کو تیار ہے…؟ کیسے روکوں گی اُسے…؟“
وہ مضطرب سی ہو کر بولی تو ولید نے چونک کر اُسے دیکھا۔ عین اُسی پل وہ اپنے بیگ سمیت سیڑھیوں سے برآمد ہوئی۔
ولید کو صورتِ حال کی سنگینی کا احساس ہوا تو ہونٹ بھینچ لئے۔
”فضہ…! آپ چچی جان کو اور اماں کو لے کر اندر چلیں، انہیں میں دیکھ لوں گا۔“
اس نے جیسے ایکا ایکی فیصلہ کیا تھا اور فضہ کو مخاطب کرتے ہوئے سرگوشی کی۔ فضہ پریشان کن نظروں سے ایمان کو دیکھ رہی تھی، ٹھٹک کر متوجہ ہوئی۔
”مم… مگر وہ …“
اس نے پھر اُسی مدہم لہجے میں کہا تھا۔
فضہ بے بسی سے اُسے دیکھ رہی گئی۔ ولید مضبوط قدم اُٹھاتا اس کی سمت بڑھ آیا تھا۔ ایمان اس کے پاس سے نظر انداز کرتی گزرنے کو تھی، جب ولید نے کمالِ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
وہ جو اپنے دھیان میں آگے بڑھ رہی تھی، اس مداخلت پہ لہرا کر دو قدم پیچھے گھسیٹ کر گرتے گرتے اسی کی وجود کے سہارے سنبھلی تھی۔ ولید کے اطمینان ذرا فرق نہیں آیا، جبکہ اس کی اس درجہ بڑھی ہوئی جسارت نے ایمان کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔
اس نے ایک جھٹکے سے پہلے اپنا ہاتھ چھڑایا تھا پھر سنبھلتے ہی پھنکار ذرہ لہجے میں بولی تھی۔
”ہاؤ ڈئیریو…! اپنی حد میں رہو…! مجھے…“
”آئی ایم سوری…!“
وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔
”سوری…؟ فار واٹ…؟“
وہ بھڑک اُٹھی تھی۔
”مجھے آپ کے ساتھ ایسا بی ہیو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اگین سوری…!“
وہ اب بھی اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔
ایمان نے ہونٹ بھنچ لئے۔ اس کی جلتی آنکھوں پہ نئے سرے سے نمی چمکنے لگی۔
”میرے راستے سے ہٹو…!“
وہ خاصی دیر کے بعد بولی تھی۔
”آپ مت جائیے…! میں نے ایکسکیوز کیا ہے ناں آپ سے…؟“
وہ کسی قدر آہستگی سے بولا۔
”میں اپنے مجرموں کو اتنی آسانی سے معاف نہیں کرسکتی۔“
”پھر کیا کرنا پڑے گا مجھے…؟“
ان بڑی بڑی آنکھوں میں اضطراب در آیا۔
ایمان نے ایک نظر دیکھا اور منہ پھیر لیا۔
”اتنا اِنوالو کیوں ہو رہے ہو…؟“
”آپ میری وجہ سے گھر چھوڑ کر جائیں،مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا۔ آپ بتائیے ناں…! مجھے آپ کو منانے کو کیا کرنا ہوگا…؟“
”آئندہ مجھے سے بات مت کرنا۔ میں نے کہا ناں…! میں اپنے مجرم کو اتنی آسانی سے معاف نہیں کیا کرتی۔“