”میری دھی کا دل تو لگ گیا ہے ناں یہاں…؟“
دادا کے سوال پہ وہ مخمصے میں پڑ گئی۔ بیچ میں بول کر وہ ان کا دل توڑنا نہیں چاہتی تھی۔ جبھی سر کو اثبات میں جنبش دی تھی اور دادا کو تو گویا ہفت اقلیم کی دولت مل گئی۔
”میں تو پہلے ہی کہتا تھا۔ میری پُتری کا دل بھی یہاں لگے گا۔ ارے بھئی…! ناخنوں سے ماس الگ ہوا ہے کبھی…؟“
وہ جو ش و خروش سے بولتے ہوئے ہنسنے لگے۔
ایمان بس انہیں خوش دیکھ کر مسکرا دی۔
”تیرے باپ کا خیال تھا میری بیٹیاں یہاں نہیں رہ سکتیں۔ دیکھا ناں…! غلط سوچتا تھا وہ…! اب اُسے پتا چلے گا تو کتنا حیران ہوگا۔“
وہ اس سرخوشی کی کیفیت میں کہہ رہے تھے۔
”پاپا کو پتا تھا ہم یہاں خوش نہیں رہ سکتیں، پھر بھی پاپا نے ہمیں یہاں بھیج دیا، کوئی بھی اسٹرانگ ریزن دئیے بغیر۔
(جاری ہے)
“
اس کے اندر فشارِ خون بڑھنے لگا۔
”فضہ تو گھل مل گئی ہے سب سے۔ میری بہت خدمت کرتی ہے۔ اللہ اس کا نصیب سوہنا کرے۔ تو مجھے بتا پُتری…! تجھے یہ سب لوگ کیسے لگے…؟“
دادا کے اگلے سوال پہ وہ اپنی سوچ کے جنگل میں بھٹکتے چونکی تھی اور ایک سرد آہ بھری۔
”اچھے ہیں…! دادا…! سب اچھے ہیں۔“
”کیا حرج ہے اگر آج میں کسی کا دل رکھنے کو تھوڑا سا جھوٹ بول دوں گی تو…؟“
”اور ولید…؟ ولید کیسا لگا تمہیں…؟“
اس نے بہت بری طرح سے چونک کر دادا کو دیکھا اور اس سوال کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کی۔ اس کا دماغ لحظہ بھر کو جیسے تن سا گیا تھا۔ اب وہ دادا کا دل رکھنے کی خاطر بھی جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔
مجھے نہیں پتا دادا…! آپ کس سنیس میں یہ سوال مجھ سے کر رہے ہیں…؟ مگر میں کسی بھی لحاظ سے اس بندے کو پسند نہیں کرتی۔
ویسے بے فکر رہیں،میں عاقب بھائی اور اشعر کے متعلق اچھے خیالات رکھتی ہوں۔“
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے بہت واضح اور مدلل انداز میں کہا تھا۔ دادا کو اس کی پوری بات تو سمجھ نہیں آئی، مگر وہ یہ نتیجہ ضرور اخذ کر گئے کہ وہ ولید کے لئے اچھے جذبات نہیں رکھتی۔ ان کا بوڑھا چہرہ ایک دم بجھ کر رہ گیا۔
”شاید آپ کو میری بات اچھی نہیں لگی…؟ آئی نو کہ آپ اُسے بہت پسند کرتے ہیں مگر…“
”آپ کی دوا کا ٹائم ہو گیا ہے دادا…! اُٹھیں دوا لے لیں۔
“
عین اسی پل ولید بولتا ہوا اندر آیا تھا۔ ایمان کی بات اُدھوری رہ گئی۔ اس نے ہونٹ بھینچ کر چہرے کا رُخ پھیر لیا، جبکہ ولید اُسے وہاں دیکھ کر چونکا تھا۔ مگر اگلے ہی لمحے نارمل سے انداز میں آگے بڑھ کر دادا کی دوائیں الماری سے اُٹھانے لگا۔
”میں چلتی ہوئی دادا…!“
وہ اس کے نزدیک آنے سے قبل اُٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے جانب نگاہ کئے بغیر ہی پلٹ کر باہر چلی گئی۔
ولید جو اس کے یوں اُٹھ کر چلے جانے پہ ہونٹ بھینچے کھڑا تھا، دادا کی آواز پہ چونکا۔ جو دوا کھانے سے ایک بار پھر انکار کر رہے تھے۔
”یہ تو آپ کو کھانا ہوتی ہیں دادا…! کیوں ضد کرتے ہیں بچوں والی…؟“
وہ بھی جانے کس موڈ میں تھا کہ جھلاہٹ کا شکار ہوگیا۔
”بچوں والی ضد ہو یا بوڑھوں والی، میں نے نہیں کھانی، تجھے کہا ناں…! چل بھاگ اب ادھر سے۔
“
دادا کی بدمزاجی آج پھر عروج پہ تھی اور ایسا ہمیشہ تب ہوتا تھا جب وہ اُداس ہوتے تھے۔ ولید نے گھور کر انہیں دیکھا اور گہرا سانس کھینچا۔
”کیا باتیں کر رہے تھے آپ اُس سے…؟ منع بھی کیا تھا آپ کو مگر…“
وہ بات اُدھوری چھوڑ کر ضبط کی کوشش میں ہونٹ بھینچ کر سر جھٹکنے لگا۔
”فضہ بھی تو …“
”فضہ کی بات چھوڑیں…! ہر کسی کا مزاج ایک جیسا نہیں ہوتا۔
“
وہ جھلانے لگا۔
”وہ بھی تو اس کی بہن ہے۔ ویسے ہی ماحول میں پلی بڑی ہے پھر وہ تو…“
وہ سخت عاجز ہوا۔ بہت خفگی سے انہیں دیکھا، مگر ان کے چہرے پہ بکھری اذیت کو دیکھا تو ان کے نزدیک آکر ان کے ہاتھوں کو نرمی سے تھام کر سمجھانے والے انداز میں بولا تھا۔
”زندگی میں ہر خواہش پوری ہونے کے لئے تو نہیں ہوتی ناں…؟“
دادا اُداسی سے اُسے تکنے لگے۔
پھر جیسے اپنے آنسو چھپانے کو سر جھکا لیا تھا۔ وہ مضطرب ہوا تھا۔
”دادا…! پلیز…! پلیز…!“
اس نے بے اختیار انہیں گلے لگا لیا۔
”میں خود کو سمجھا لیتا اگر یہ صرف میری خواہش ہوتی۔“
”ہم نے اسی لئے تو تجھے اتنا پڑھایا لکھایا تھا، اتنا قابل بنایا تھا، بھول جائیں سب کچھ…؟“
”میں نے کسی کی خاطر کچھ نہیں کیا اور ابا اماں بھی سمجھوتہ کرلیں گے۔
“
”کیا تو بھی کرے گا…؟“
دادا کا سوال تھا کہ خنجر کا وار…؟ وہ جیسے کٹ کر رہ گیا۔
”ماں پیو اپنی اولاد کی جنبش سے اس کی خواہش اس کی پسند اور خوابوں سے آگاہی حاصل کر لیتے ہیں پُتر…! تو نے کبھی منہ سے نہیں کہا، تو کیا ہم …“
”دادا… پلیز…! پلیز…!چپ ہو جائیے…! ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے۔“
اس کی انا بلبلا اُٹھی تھی۔
اس نے بے اختیار انہیں ٹوک دیا۔ لہجے میں اتنی قطعیت، اتنی عاجزی تھی کہ دادا خاموش رہ گئے۔
”آپ کا بیٹا بہت مضبوط ہے دادا…! اور یقینا آپ اُسے مضبوط ہی دیکھنا چاہیں گے۔ اس خواہش کو کسی اندھی گہری کھائی میں پھینک دیں۔ آج کے بعد آپ کبھی یہ بات نہیں کہیں گے۔“
بہت دیر بعد وہ انہیں کاندھوں سے تھام کر دھیرے دھیرے سمجھا رہا تھا اور دادا نے نڈھال انداز میں سر تکیے پہ رکھ دیا۔
###