حرا آپا کا گھر ویسا ہی تھا جیسے عموماً گاؤں کے گھر ہوتے ہیں۔ بہت بڑا سا آنگن جس میں سکھ چین، پیپل اور امرود کے پیڑ لگے ہوئے تھے۔ اسی آنگن کی ایک دیوار کے ساتھ مٹی کا چولہا تھا جس کے پیچھے کچی دیوار دُھویں سے سیاہ پڑ چکی تھی۔ اس وقت سب سے زیادہ رش وہیں تھا۔ یقینا کھانا تیار ہو رہا تھا۔
جس وقت وہ لوگ وہاں پہنچے، شام اُترنا شروع ہو چکی تھی۔
صرف شام ہی نہیں، ساتھ میں سردی بھی تھی۔ فضہ تو گھر سے سوئیٹر پہن کر چلی تھی، گرم شال بھی اوڑھ رکھی تھی، ماما کا بھی انتظام پورا تھا۔ بس وہی ان باریکیوں کا خیال نہیں رکھ پائی تھی اور اب سردی سے باقاعدہ کپکپا رہی تھی۔
”ادھر آجا کڑئیے…! چولہے کے پاس، تجھے سردی لگ رہی ہے ناں…؟“
جب وہ سب سے مل کر تعارف کے مرحلے کو نپٹا کر بیٹھ گئیں تھیں، تب حرا آپی کی ساس نے کہا تھا۔
(جاری ہے)
”ارے نہیں…! انہیں دُھواں پریشان کرے گا۔ آپ انہیں کوئی لحاف لادیں۔“
اشعر نے بہترین حل نکالا تھا۔ فضہ ہنسنے لگی۔
”لو…! یہ یہاں سونے تھوڑا ہی آئی ہے…؟“
”لحاف اوڑھ کر صرف سویا ہی تو نہیں جاتا…؟ ٹھنڈسے بچت کی خاطر بھی یہ کام کرنا پڑتا ہے۔“
اب کی مرتبہ عاقب نے جواب دیا تھا۔وہ تب بھی خاموش رہی۔ حرا آپا کی نند ثانیہ اس کے لئے سرخ مخملی رضائی اُٹھا لائی۔
”باجی جی…!آپ اُوپر ہو کے بیٹھ جاؤ۔ چائے بس بن گئی ہے۔ہم ابھی لاتے ہیں۔ آپ کی سردی کو فرق پڑے گا۔“
وہ اس کے اُوپر لحاف کھول کر پھیلاتے ہوتے بولی۔ ایمان نے چپ چاپ اس کی ہدایت پہ عمل کیا تھا۔ ان کی پوری فیملی کے علاوہ آس پاس کے گھروں سے بھی عورتیں شہری مہمانوں کی دید کے لئے چلی آتی تھیں۔ اور اب سب ہی پرُاشتیاق نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔
ایمان کو اُلجھن ہونے لگی۔
”ہم کوئی نمائش میں لگی ہوئی چیزیں تھوڑی ہیں جو یہ لوگ اس طرح گھور رہے ہیں…؟“
وہ بڑبڑائی تھی۔ عاقب نے اس کی بڑ بڑاہٹ سن لی اور بے ساختہ ہنس پڑا۔
”یہ سادہ لوح لوگ ہیں گڑیا رانی…! شہری لوگ انہوں نے صرف ٹی وی میں ہی دیکھے ہیں۔ ان کے رشتہ دار، احباب بھی سبھی گاؤں کے رہنے والے ہیں ناں…! اس لئے۔
“
وہ بہت رسانیت سے اُسے سمجھانے لگا۔
”ہاں…! بالکل ادھر آپ کے ہاں تو کسی نے اس قسم کی حرکت نہیں کی۔“
فضہ نے عاقب کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ جس پہ غور کئے بنا ایمان کو بس اس تائید پہ غصہ آیا تھا جو اس نے عاقب کے لئے کی تھی۔ جبھی اس کا منہ بن گیا تھا۔
پھر چائے اور دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی ایک ساتھ لائی گئی۔ ہمسائے کی خواتین واپس جا چکی تھیں۔
ایمان نے صرف چائے لی۔ دیگر لوازمات سے اس نے آپا وغیرہ کے اصرار کے باوجود انکار کر دیا۔
”ولید ساتھ کیوں نہیں آیا…؟“
وہ پیٹیوں ٹرنکوں پہ بچھائے گئے اُچھاڑوں پہ گہری زرد کڑھائی کو بے دھیانی میں دیکھ رہی تھی، جب آپا نے سوال کر دیا تھا۔ اُسے لگا اس نام کو سن کر اس کے حلق میں چائے پھنس گئی ہے۔
”اس نے منع کردیا، ہم نے تو کہا تھا ساتھ چلے۔
“
عاقب حسن نے جواب دیا تھا۔ وہ دانستہ اپنا دھیان دوسری سمت لگانے کی کوشش میں اپنے موبائل کی سمت متوجہ ہوگئی، جہاں کوئی میسج آرہا تھا۔
”حالانکہ خصوصی تاکید کر کے آئی تھی میں۔اتنی فرصت بھی نہیں کہ بہن کی طرف سالوں میں ہی چکر لگا دے…؟“
حرا آپا آبدیدہ ہونے لگیں۔
”افوہ…! میں سمجھاؤں گا، لگا لے گا چکر۔ مقصد تو ملنا ہوتا ہے ناں…! وہ نہ سہی، تم آجاتی ہو۔
“
عاقب حسن نے کسی قدر سبھاؤ سے کہا تھا۔ ایمان اس بات چیت، اس ماحول سے اُکتانے لگی۔
چائے پی لی گئی۔ برتن اُٹھا کر ثانیہ باہر چلی گئی۔ اب کمرے میں حدت آمیزی کا احساس تھا۔ وہ سب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ایمان خاموش بے زار سی بیٹھی رہی۔ موضوعِ گفتگو ثانیہ کی شادی تھی جو اگلے مہینے کی کسی تاریخ میں طے پائی تھی۔ ان دنوں اس کا جہیز تیار کیا جا رہا تھا۔
ثانیہ شرماتی لجاتی بیٹھی تھی۔ چہرے پہ ایک مستقل مسکان تھی، جس نے اس کے عام سے نقوش کو بھی ایک انوکھی سی چمک بخش دی تھی۔
”بہت اچھی ہے ثانیہ…! بہت فرمانبردار…! سارا کچھ میں نے اپنی پسند سے خریدا ہے۔ اماں اور اسلم (حرا آپی کے شوہر) نے مجھے ہی سارا اختیار سونپا ہوا ہے۔ میں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سونے کا سیٹ بنوایا ہے، جہیز میں دو پیٹیاں، کپڑے دھونے کی مشین، کپڑوں کی الماری دے رہے ہیں۔
ایسا شاندار جہیز ہوگا کہ دُنیا دیکھے گی۔“
حرا آپا خود ہی اپنی تعریفوں میں رطلب اللسان تھیں۔ ایمان کی ہنسی چھوٹنے لگی۔ جبکہ ماما اور فضہ اس کے برعکس بڑی سنجیدگی سے سن رہی تھیں۔
”اب تھوڑی بہت چیزیں رہ گئیں ہیں یا پھر کپڑے وغیرہ۔ میں نے تو ثانی سے کہا ہے کم از کم کپڑے تو اپنی پسند کے بنالے، پر مانتی ہی نہیں ہے۔ کہتی ہے بھابی…! مجھے آپ کی پسند پر بھروسہ ہے۔
ایک دو سوٹ میں نے خرید لئے ہیں، ٹھہریں، میں آپ کو دکھاتی ہوں۔“
اس نے لمحے بھر کا توقف کرکے ثانیہ کو اشارہ کیا وہ لپک جھپک دوسرے کمرے سے ایک شاپر اُٹھا لائی۔ جنہیں کھولا گیا تو ایسے سوٹ برآمد ہوئے جن کی چمک دمک آنکھوں کو چبھتی تھی۔ تیز چنگھاڑتے رنگ اور ہلکا سا کپڑا۔ مگر آپا بڑے فخر سے دکھا رہی تھیں۔
”اچھے ہیں ناں…؟“
انہیں ان کی رائے کی بھی ضرورت تھی۔
ایمان نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔البتہ فضہ کو تعریف کرنا پڑی تھی۔
”یہ دونوں ہی باجیاں بہت سوہنی ہیں۔ ان کے کپڑے بھی بہت اچھے ہیں۔ بھابھو…! ان جیسے بھی کچھ جوڑے مجھے منگوا دو ناں…!“
کچھ دیر بعد ثانیہ نے قدرے جھجکتے ہوئے کہا تو ایمان نے ٹھنڈا سانس بھرا تھا اور کچھ فاصلے پر بیٹھے اشعر کا کاندھا ہلا کر متوجہ کیا۔
”جناب…!“
وہ اُسے دیکھتے ہی باخبر ہو کر بولا۔
مگر ایمان کا موڈ ہنوز تھا۔
”ہم کب واپس چلیں گے…؟“
”ارے…! اتنی جلدی…؟ ابھی تو کھانا بھی نہیں کھایا۔ پھر اس کے بعد بھی مشکل ہے کہ آپا آپ لوگوں کو جانے دیں۔ ویسے آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے واپسی کی…؟ جبکہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کو گھر کی یاد آرہی ہے کیا…؟یا گھر میں موجود کسی خاص ہستی کی…؟“