اشعر کے لہجے میں بے معنی سی، معصوم سی شرارت تھی، مگر ایمان کی حالت بری طرح سے بگڑ گئی۔ دھڑکنیں ناگواری کے احساس سمیت چٹخ گئیں۔ اسی لحاظ سے موڈ بھی برہم ہوا تھا۔
”مائنڈ اٹ…! نہ تو تمہارا گھر اتنا پرُآسائش ہے اور نہ ہی وہاں موجود لوگوں میں سے کسی سے میرا ایسا قلبی لگاؤ کہ میں اس کمی کو محسوس کرتی بے چین ہو کر واپسی کا سوچوں… میں اس اوپرے ماحول سے اُکتا گئی ہوں۔
تنہائی چاہ رہی ہوں۔ اینڈ د یٹ سیک…!“
بغیر کسی لحاظ کے اس کا لہجہ درشت ہی نہیں تلخ اور برہم بھی تھا۔ شدید اشتعال کے باعث اس کی آواز بھی اونچی ہو گئی تھی جس کی وجہ سے آپا کے ساتھ ساتھ فضہ، ماما اور عاقب نے بھی چونک کر انہیں دیکھا تھا۔
”کیا ہوا…؟“
عاقب نے اس کا لال بھبوکا چہرہ دیکھ کر اشعر سے استفسار کیا تھا جو بے تحاشا خجالت محسوس کرتا ہونٹ کچل رہا تھا۔
(جاری ہے)
کچھ نہیں بھئی…!“
وہ بولا تو اس کی آواز بے حد مدہم تھی۔
”کچھ تو کیا ہوگا تم نے…؟ ایویں تو ایمی کو غصہ نہیں آیا…؟لاکھ بار سمجھایا ہے، سوچ سمجھ کر بولا کر…!“
آپا اُسے بے دریغ ڈانٹنے لگیں۔ماما حیران تھیں جبکہ فضہ کی تنبیہی نظریں ایمان پہ آٹھہریں تھیں جو سختی سے ہونٹ بھینچے جانے کیسے ضبط کے مراحل طے کر رہی تھی۔
آج کے دن میں اس ناپسندیدہ شخص کے حوالے سے دوسری بار اس کا موڈ خراب ہوا تھا، جس کے بارے میں سوچ کر ہی اس کی سوچیں سلگنے لگتی تھیں۔ اُسے صاف لگا تھا جیسے درپردہ اشعر نے ولید کا حوالہ دے کر اُسی پہ کچھ جتانا چاہا ہے۔ اشعر اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
”اب کہاں جا رہے ہو…؟“
عاقب کی پکار پہ اس نے پلٹے بغیر اِک لفظ کہا تھا۔
”گھر…!“
”ہائے میں مرگئی۔ لگتا ہے میرا ویر ناراض ہو گیا ہے…؟“
حرا آپا نے گڑبڑا کر کہا اور اُٹھ کر اس کے پیچھے بھاگیں۔
”میں دیکھتا ہوں اُسے۔ بہت بدتمیز ہو رہا ہے۔“
عاقب بھی اُٹھ کر ان کے ساتھ لپکا۔ ماحول ایک دم کشیدہ ہوگیا۔ فضہ نے انتہائی ملتجی نظروں سے اسے دیکھا۔
”کیوں ہتھے سے اُکھڑ جاتی ہو معمولی باتوں پہ…؟ اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا سیکھو ایمان…! زندگی میں انسان کو ہر قسم کے حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔
اس طرح انسان تماشہ بن جایا کرتا ہے۔“
”مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں…! میرا دماغ پہلے ہی بہت خراب ہو رہا ہے۔“
وہ چیخ پڑی۔ ماما نے فضہ کا ہاتھ دبا کر گویا اُسے خاموش کرایا تھا۔ وہ ہونٹ بھینچے گویا خود پہ ضبط کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئی۔ اگلے چند لمحوں میں ہی آپا اور عاقب روٹھے روٹھے سے اشعر کو ساتھ لیتے واپس آئے تھے۔
فضہ نے جلدی سے اُسے اپنے برابر جگہ دی۔
وہ یوں ہی منہ پھیلائے بیٹھ گیا تھا۔
”آئی ایم سوری…! فار دیٹ…!“
فضہ کی سرگوشی پہ اس نے پلکیں اُٹھا کر اُسے دیکھا تھا۔
”آپ تو بہت اچھی ہیں، ڈونٹ وری…! میں آپ سے خفا نہیں ہوں۔“
”تھینکس…!“
فضہ ایک دم ریلیکس ہوگئی۔ پھر دانستہ وہ اشعر سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی تھی۔ ایسے ہی ماحول میں کھانا کھایا گیا جسے بہتر بنانے میں آپا، ان کے شوہر، فضہ اور عاقب کی کوششیں شامل رہی تھیں۔
”فضہ…! گڑیا…! اگر تم لوگ کافی پیتے ہو تب بھی بتا دو، ورنہ میں چائے بنا لاتی ہوں۔“
کھانے کے بعد آپا نے کہا تھا۔ فضہ کی سوالیہ نگاہیں ایمان کی سمت اُٹھیں مگر اس نے بے اعتنائی سے منہ پھیر لیا۔
”اب چلیں…!“
”ہائیں…؟ اس وقت…؟ نہ دھی رانی…! اس وقت جوان کڑیوں کو باہر نہیں نکالتے ہم لوگ۔ چور لٹیرے راہوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، صبح جانا اب تم۔
آپا کی ساس نے بے اختیار مداخلت کی تو آپا ہنس پڑی تھیں۔
”ہاں ہاں…! بالکل…! ویسے بھی میں اتنی جلدی نہیں جانے دوں گی۔ کچھ دن تو رہو ہمارے ساتھ…! ہم تمہیں اپنا گاؤں دکھائیں گے، باغات اور فصلوں کی سیر کرائیں گے۔“
ایمان کو وہاں رہنے کے خیال سے ہی بے چینی ہونے لگی۔ مگر دانستہ کچھ کہنے سے گریز کیا۔
”بھئی یہ تو فاؤل ہے، آپ لوگ تو ہمارے مہمانوں پہ قبضہ جمانے کی بات کر رہے ہیں، جس کی ہم ہر گز اجازت نہیں دے سکتے…؟“
عاقب نے مسکرا کر کہا۔
اس کی نگاہ بہت خاص انداز میں فضہ کی طرف اُٹھی تھی اور فضہ کی مسکراہٹ بھی حیا بار تھی یا ایمان کو لگا، اس کا دل گھبرانے لگا۔
”چل وے…! وڈا آیا مہمانوں والا…؟ ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا تمہارا، ہمارے بھی چاچے کی فیملی ہے۔ جانا ہے تو جاؤ، ورنہ بھلے تم بھی یہیں سو جاؤ۔ جگہ کی قلت نہیں ہے۔“
حرا آپا نے عاقب کو ڈانٹ دیا تھا۔
وہ کپڑے جھاڑتا اُٹھ کھڑا ہوا۔
”ابھی تو جا رہے ہیں، مگر کل ضرور آئیں گے اپنے مہمانوں کو لینے کے لئے۔ اور کل یہ زبردستی نہیں چلے گی، ابھی بتا دیں۔“
عاقب کے انداز میں معصومیت تھی۔ اس بار دانستہ ایمان نے دونوں کے تاثرات نوٹ نہیں کئے۔
”وے نکے…! ضرور آنا تو بھی۔ ورنہ میں سمجھوں گی تو اپنی آپا سے ناراض ہے۔ ہو سکے تو ولید کو بھی لے آنا۔“
آپا انہیں رخصت کرنے باہر تک بولتی ہوئی گئی تھیں۔ ایمان نے لیٹتے ہی کروٹ بدل لی۔ اس کا دل ہی نہیں، دماغ بھی بوجھل ہو رہا تھا۔ جبھی اس نے پہلے پاپا کی کال ڈسکنکٹ کی تھی پھر نیہاں کی۔ اس پل وہ خود سے بھی خفا تھی، جبھی کسی سے بات بھی کرنا نہیں چاہتی تھی۔
###